نئی دہلی ۔ 3 ۔ فروری (سیاست ڈاٹ کام) لوک سبھا انتخابات سے پہلے ’’تیسری طاقت‘‘ کے ابھرنے کے روشن امکانات کے پس منظر میں حکومت کو بی جے پی کے بغیر اپوزیشن کے ایک نئے پریشر گروپ کا پارلیمنٹ کے توسیعی سرمائی اجلاس میں جس کا آغاز 5 فروری کو ہوگا، سامنا ہوسکتا ہے۔ بائیں بازو اور دیگر پارٹیوں کی جانب سے ایک غیر کانگریسی اور غیر بی جے پی وفاق قائم کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ بائیں بازو کی پارٹیوں، سماج وادی پارٹی، جنتا دل (یونائٹیڈ) ، جنتا دل (سیکولر) ، آل انڈیا انا ڈی ایم کے ، بی جے ڈی ، اے جی پی اور جے وی ایم (پی) کے قائدین کا ایک اجلاس 5 فروری کو پارلیمنٹ ہاؤز کمیٹی کے کمرہ میں مقرر ہے، جس میں حکومت کے خلاف مشترکہ حکمت عملی کا تعین کیا جائے گا ۔ حکمت عملی کے خاکے کا فیصلہ سی پی آئی ایم قائد سیتارام یچوری، اے ایس پی قائد رام گوپال یادو، جنتا دل (یو) کے جنرل سکریٹری رام گوپال یادو کی دہلی میں 27 جنوری کو ملاقات میں کیا جاچکا ہے۔ ذرائع کے بموجب وفاقی حقوق یعنی مرکز۔ریاستی تعلقات علاقائی پارٹیوں کے اتحاد کی بنیاد فراہم کریں گے۔ ایک سینئر سیاستداں نے جو اس کارروائی میں شامل ہیں، اس بات کا اظہار کیا۔ ربط پیدا کرنے پر جے ڈی (یو) کے قائد کے سی تیاگی نے کہا کہ ایک عنصر جو اسمبلی انتخابات کے بعد جو 4 بڑی ریاستوں میں حال ہی میں منعقد کئے گئے تھے، واضح طور پر ابھر آیا ہے۔
یہ عنصر کانگریس کی ملک گیر سطح پر مخالفت کا رجحان ہے۔ اس لئے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ غیر کانگریسی اور غیر بی جے پی متبادل کی تائید کرنے کیلئے عوام تیار ہیں۔ یہ حقیقت دہلی اسمبلی کے انتخابی نتائج سے ظاہر ہوچکی ہے جس میں ایک نئی پارٹی عام آدمی پارٹی نے کانگریس اور بی جے پی کی موجودگی کے باوجود حکومت تشکیل دی ہے۔ ہمیں اس پر غور کرنا چاہئے ۔ جے ڈی (یو) کے قائد نے یہ بھی کہا کہ کانگریس ’’فرقہ وارانہ طاقتوں‘‘ پر قابو پانے سے قاصر رہی ہے۔یہ ذمہ داری اب علاقائی پارٹیوں پر آگئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم بی جے پی پر بھی قابو پائیں گے۔ علاقائی پارٹیاں اپنی اپنی ریاستوں میں بے انتہا طاقتور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان تمام پارٹیوں کے ارکان پارلیمنٹ کی جملہ تعداد بی جے پی اور کانگریس کے ارکان کے مساوی ہے۔ چنانچہ آئندہ کی حکمت عملی ایک غیر کانگریسی سیکولر شناخت پیدا کرنا ہے، جو پارلیمنٹ اور اس کے باہر پیدا کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ان پارٹیوں کو مشترکہ نظریاتی موقف بعض مسائل پر جن کا تعلق بی جے پی سے ہے اور جن کی کانگریس کی پالیسیوں سے خاص طور پر مخالفت کی جاتی ہے، اختیار کرنا ہوگا۔ 5 فروری کو جب پارلیمنٹ کے اجلاس کا آغاز ہوگا ، ان پارٹیوں کے قائدین متحد ہوکر کئی مسائل پر متفقہ موقف اختیار کریں گے ۔ ان میں سے ایک مسئلہ مرکز ۔
ریاست تعلقات کا ہے۔ مرکز ریاستوں سے بھی ٹیکس وصول کرتا ہے لیکن عوامی فلاح و بہبود کی بیشتر اسکیمس کا فیصلہ مرکز کی جانب سے کیا جاتا ہے۔ 50 فیصد اسکیموں میں مرکز کا مالیہ ہوتا ہے۔ حالانکہ ٹیکس تمام ریاستوں سے وصول کیا جاتا ہے ۔ ایک دن قبل ہی انا ڈی ایم کے کی صدر جئے للیتا نے لوک سبھا انتخابات کیلئے سی پی آئی سے معاہدہ کیا ہے۔ جے ڈی یو، انا ڈی ایم کے ، بی جے ڈی ، اے جی پی ، ایس پی ، جے ڈی ایس اور جی وی ایم (پی) بھی 30 اکتوبر کو مخالف فرقہ واریت کنونشن میں شرکت کرچکی ہیں۔ جے ڈی یو کے صدر شرد یادو نے اعتماد ظاہر کیا ہے کہ غیر کانگریسی اور غیر بی جے پی پارٹیوں کا اتحاد داخلی تضادات کے باوجود بعض ریاستوں میں ماضی میں بھی ایک مثالی نمونہ پیش کرچکا ہے اور مستقبل میں بھی ایسا کرسکتا ہے ۔ پارلیمنٹ میں اپنی حکمت عملی کا خاکہ پیش کرتے ہوئے تیاگی نے کہا کہ مرکزی وزیر فینانس اور وزیر ریلوے کی رپورٹس میں مقبول عام اسکیمس پیش کی گئی ہیں ، جن کی ہم سختی سے مخالفت کریں گے کیونکہ یہ ووٹ حاصل کرنے کا ایک حربہ ہیں۔