غضنفر علی خان
عام طورپر یہ کہا جارہا ہے کہ 2014 ء کے اوائل میں ملک بھر میں جو انتخابات ہوں گے ، وہ اس بات کو واضح کردیں گے کہ ملک میں کبھی ہندو راشٹرا اپنی جڑیں مضبوط کرے گا اور آج کے عارضی و ناپیدار اقتدار کی بجائے ملک میں ہندوتوا کا نیا دور شروع ہو۔ یہ بات تو پہلے ہی سے عیاں تھی کہ فرقہ پرست طاقتیں ہندوستان میں ہمیشہ رہیں لیکن انہیں کبھی غلبہ حاصل نہیں ہوا ۔ وہ اقتدار کے لئے ترستی رہی اور ملک کی سیکولر طاقتوں کو کانگریس پا رٹی نے حوصلہ دیا کہ وہ فرقہ پرست قوتوں کو کبھی آگے نہ بڑھنے نہ دیں۔ تنگ نظر اور فرقہ پرست طاقتوں کی نمائندگی ہمیشہ آر ایس ایس نے کی۔ آزادی کے کچھ سال بعد یہ منظم ہوتی گئیں لیکن ہندوستان پر حکمرانی اور ہندوتوا کے قیام کا ان کا خواب کبھی پورا نہیں ہوا تھا ۔ ویسے یہ بات قابل غور ہے کہ 1948 ء میں گاندھی جی جیسی عالمی اور ملک کی سب سے زیادہ قابل احترام شخصیت کو آر ایس ایس کے ایک ورکرنا تھورام گوڈسے نے قتل کیا تھا ، تب ہی یہ بات واضح ہوئی تھی کہ نیکی اور بدی کی طاقتوں نے ملک میں اپنے وجود کا ثبوت دینے کی کوشش کی تھی ۔ گاندھی جی کے قتل کے بعد ابتدائی دور میں جو لیڈرشپ ملک میں قائم ہوئی وہ باہمت ، حوصلہ مند اور ذی ہوش تھی۔ چنانچہ ان میں آزادی کے سورماؤں نے جن میں پنڈت جواہر لال نہرو ، سردار پٹیل ، مولانا آزاد اور دیگر کئی قابل ذکر لیڈر تھے فرقہ پرستوں کے عزائم کا جم کر مقابلہ کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ مذموم فرقہ پرستوں کو کبھی اقتدار پر آنے اور اپنے ایجنڈہ کو روبہ عمل لانے کا موقع نہیں ملا ۔ پھر آج کیا بات ہے کہ فرقہ پرست طاقتوں کو عارضی ہی سہی اقتدار مل گیا ۔ یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ کانگریس پا رٹی کی صف اول کی قیادت ہمیشہ سیکولر نظام چاہتی تھیں۔ چنانچہ کانگریس کے رہتے انہوں نے زبان نہ کھولی۔ آج ہر طرف ان کا چرچہ ہے ۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سیکولر طاقتیں خصوصاً کانگریس پا رٹی میں سوائے آنجہانی مسز اندرا گاندھی کے اور کوئی قومی سطح کا لیڈر پیدا نہیں ہوا۔ اس حقیقت کے باوجود کہ کانگریس میں قابل لیڈر ضرور پیدا ہوئے لیکن جیسے یہ پرانی نسل کے قائدین اپنی زندگی کی فلاح و بہبود کے لئے وقف کردی تھی ویسی قیادت کانگریس کو نصیب نہیں ہوئی اور فرقہ پرستی سے مقابلہ کرنے کا وہ جذبہ جو ہمارے بزرگوں میں تھا وہ ختم ہوتا چلا گیا ۔ ایک طرح سے سیکولر طاقتوںاور خود کانگریس میں ایک ایسا طبقہ پیدا ہوا جو ان حالات کی وجہ شکست خوردہ ہوتا گیا جو نہ صرف کانگریس کے لئے بلکہ سیکولرازم کیلئے زہر ثابت ہوا اور فرقہ پرست قوتوں نے اپنی کوشش جاری رکھی۔ 1980 ء کے دہے میں بابری مسجد کا بے بنیاد مسئلہ کھڑا کر کے رتھ یاترا نکال کر سارے ہندوستان میں فسادات کئے گئے ۔ ساری ہندو قوم سے کہا کہ زمانہ قدیم میں بابری مسجد کی جگہ ایک رام مندر تھا جو لارڈ رام کی جنم بھومی تھی ۔ اس وبال نے ہندوستان کو لپیٹ میں لے لیا اور 1992 ء کے چناؤ میں جنتا پارٹی 2 سے برھاکر 180 ارکان پارلیمنٹ منتخب کرنے میں کامیاب ہوگئی ۔ ایک طرف کانگریس اور سیکولر طاقتوں کے اس defeated Tendency اور دوسری طرف فرقہ پرستی کا عروج ملک کے سیکولر ازم کے لئے خطرہ بن گیا ۔ رتھا یاترا نے ہندو ذ ہن کو متاثر کیا اور وہ ہندو بھائی جو کانگریس پار ٹی کا ساتھ دیا کرتا تھا وہ بی جے پی کا اچانک ووٹر بن گیا ۔ اس شکست کے بعد کانگریس کبھی سنبھل نہ سکی ۔ آج بھی صورتحال وہی ہے ۔ ایک طرف اپنے غلط وعدوں اور مسلسل جھوٹ بول کر نریندر مودی ملک کے مقبول لیڈر بن گئے تو دوسری طرف کانگریس کے علاوہ اور دیگر پارٹی میں کبھی قومی سطح کا لیڈر بھی پیدا نہیں ہوا ۔ آج کی کیفیت بھی وہی ہے ۔ کہنے کو صدر کانگریس راہول گاندھی مودی کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہے ہیں لیکن ابھی تک بھی وہ قومی سطح پر اس طرح اثر انداز نہ ہوسکے جس کی آج سخت ضرورت ہے ۔ یہ بھی دعویٰ کیا جارہا ہے کہ ملک بھر میں گزشتہ انتخابات میں جو ووٹ استعمال ہوئے تھے ، ان میں سے صرف 34 فیصد ووٹ ہی بی جے پی کو ملے اور مابقی 66 فیصد ووٹ دوسری پارٹیوں کو ملے یعنی آج بھی بی جے پی کو جو آر ایس ایس کے ریموٹ کنٹرول سے چلتی ہے ملک کی غالب اکثریت کی تائید حاصل نہیں ہے تو پھر یہ بقیہ ووٹ کس کو ملے ہیں۔ یہ ووٹ کانگریس اور ملک کی دیگر سیکولر جماعتوں میں تقسیم ہوگئے۔ یہ بڑے سانحہ کی بات ہے کہ ووٹ شیر Vote Share میں بڑے حصہ رکھنے والی پارٹی کبھی اپنے ووٹ کو مرکوز کرسکیں ورنہ بی جے پی کو ہرگز کامیابی نہیں مل سکتی تھی ۔ گویا ملک پر حکمرانی صرف 34 فیصد ووٹ لینے والی جماعت (بی جے پی ) کر رہی ہے یہ حکومت ووٹوں کے اعتبار سے ’’اقلیتی حکومت ہے لیکن طرفہ تماشہ یہ ہے کہ تمام سیاسی پارٹیوں کو ان اعداد و شمار کا علم ہے لیکن وہ خود پوری طرح سے متفق اور متد نہیں ہوسکیں۔ اس مرتبہ کوشش ضرور کی گئی ہے لیکن اس میں بھی رخنہ اندازی کی جارہی ہے ۔
اب اس سوال پر ذرا غور فرمایئے کہ آیا یہ چناؤ جو 2019 ء میں ہونے جارہے ہیں کیا سیکولر پارٹیوں اور فرقہ پرستوں کے مابین فیصلہ کن لڑائی کے مصداق نہیں ہیں؟ اس وقت ایک ہی صورت بچی ہے کہ ملک کی دوسری جماعتیں ابھی تک پیدا شدہ اپنے اتحاد کو مابقی دنوں میں قابل عمل اور مضبوط بنائے ورنہ وقت کسی کا ساتھ نہیں دیتا۔ یہ جو توفیق سیکولر پارٹیوں کو ہوئی ہے اسے قدرت کا ایک اشارہ سمجھیں اور اپنے اتحاد کو منظم بنائیں تاکہ ان کے ووٹ خود سیکولر پا رٹیوں میں تقسیم نہ ہو اور اس وقت کو غنیمت مانیں۔ بقول علامہ اقبال ؎
تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں