’’ بوریت‘‘ کا احساس : نئے زمانے کی دین

فریدہ راج

لفظ ’ بور ‘ آج کے ماڈرن زمانے کی دین ہے، چھوٹے بچوں سے لے کر نوجوان لڑکے و لڑکیوں کی ڈکشنری میں یہ لفظ عام ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ گھر کی خواتین بھی اس عِلت کا شکار ہیں اور بوریت دور کرنے کیلئے اپنا قیمتی وقت یا تو ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر گزارتی ہیں یا پھر بے معنی اور فضول سی کِٹی پارٹی میں شامل ہوجاتی ہیں۔ بہرحال بچوں میں اس مسئلہ کی وجہ کیا ہے اور اس کو کس طرح سے حل کیا جاسکتا ہے، اس تعلق سے ہمارے شہر کی جانی مانی چائلڈ سائیکٹراسٹ کا کہنا ہے ’’ بورڈم ‘‘ کا شکار صرف شہر کے لوگ ہوتے ہیں اور خصوصی طور پر بچے۔ بظاہر تو اس مسئلہ کا حل یہ ہے کہ بچوں کو نت نئی سرگرمیوں میں اس طرح مشغول رکھا جائے کہ وہ بوریت نام کی چیز کو بھول جائیں۔ لیکن میں اس احساس کی وجہ کی گیرائی تک پہنچنا چاہتی ہوں اور آج کی نئی پود کی سوچ کو سمجھنا چاہتی ہوں۔ آخر جب کوئی کہتا ہے کہ وہ بور ہوگیا ہے تو اس کے معنی کیا ہیں۔ جہاں تک میرا اندازہ ہے وہ فرد خود کو پُرلطف یا دلچسپ انداز میں بہلانے کی صلاحیت کھو بیٹھا ہے۔ اُسے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس کی تفریح کا ذمہ کسی اور کے سر ہے۔ اس کی ایک وجہ حد سے زیادہ ٹی وی، انٹرنیٹ اور دیگر نیٹ ورکنگ سائیٹس ہیں۔ ان تمام کے مسلسل استعمال سے اُن کی قوتِ اختراع اور تخیل کہیں کھوگئی ہے اور وہ اپنے طور پر خود کو بہلانے کا سامان نہیں کرپاتے۔ قارئین ! آپ چند لمحوں کیلئے اپنے بچپن میں چلے جائیں،

کیا ہمارے پاس یہ سب چیزیں تھیں؟ کیا ہم بار بار اپنے والدین کے پاس جاکر ’بور‘ ہونے کا رونا روتے تھے۔؟ جو کچھ ہمارے پاس تھا بس اُسی کو لے کر اپنی دلچسپی کا سامان پیدا کرتے تھے۔ آجکل بے چارے والدین بچوں کو خوش رکھنے کیلئے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں، لیکن اس کے باوجود بھی جب اُن کی اولاد جس کے پاس بہت کچھ ہے، بچہ صوفے پر لیٹے ہوئے ٹی وی دیکھتے ہوئے کہتا ہے کہ میں ’بور‘ ہورہا ہوں تو وہ جی مسوس کر رہ جاتے ہیں اور پھر اس کوشش میں جُٹ جاتے ہیں کہ ایسا کچھ کریں جس سے اُن کا بچہ خوش رہے۔ ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ ایسا کرنے سے بچے بیرونی ذرائع کے ذریعے خود کو خوش رکھنا چاہتے ہیں جبکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ وہ خود اپنی دلچسپی کا سامان پیدا کریں۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر گوری دیوی چائیلڈ سائیکٹراسٹ کا کہنا ہے کہ کئی بچے لفظ ’ بور‘ کا استعمال اس لئے بھی کرتے ہیں کیونکہ ان کے پاس اپنے احساس، اپنے جذبات جیسے اُداسی، غمگینی کا اظہار کرنے کیلئے مناسب الفاظ نہیں ہوتے۔

اس لئے بچوں کو وہ لفظ سکھلائیں جس کے ذریعے بچے اپنے جذبات و احساسات کو الفاظ میں ڈھال کر اظہار کرپائیں۔آئندہ اگر آپ کا بچہ آپ سے کہے کہ میں ’بور‘ ہورہا ہوں تو خدارا دوڑ بھاگ اور پریشان ہوکر اُس کی دلبستگی کا سامان نہ پیدا کریں بلکہ اُسے موقعہ دیں کہ وہ دلجوئی کیلئے اپنی قوتِ اختراع کو پرواز دے۔ آج کی نئی نسل یکسانیت سے اُوب جاتی ہے ۔ اُنھیںجینے کا ایک ایسا انداز چاہئے جو اُن کی سوچ کو للکارے، جو اُن سرگرمیوں کی طرف اُن کی توجہ دلائے جس کے ذریعے اُن کے اعمال میں تبدیلی آئے، اور اُن کی تخلیقی و تعمیری حِس اُبھر آئے تاکہ وہ مثبت احساسات و خیالات کاحامل ہو۔ آپ اُنھیں اپنا نصب العین تعین کرنے میں اُن کی مدد کریں اور پھر اُس کو پانے کے ذرائع بتلائیں۔ اس طرح نہ صرف آپ کے بچے کی اختراع کو شہ ملے گی بلکہ وہ ’ بور‘ جیسی عِلت سے بھی محفوظ رہے گا۔