بطرح ؎ کروٹیں لیتے ہوئے خواب ہیں اندر کتنے
ڈاکٹر راہیؔ بی اے ایم ایس
پچھلے 52 سال سے مسلسل اور پابندی وقت کے ساتھ مختلف تہذیبی ادبی ثقافتی سماجی وار سلگتے ہوئے تعلیمی موضوعات اور اردو زبان و ادب کے فروغ کیلئے سرگرم عمل ’’بزم جوہرؔ‘‘ کا جاریہ ماہ /14 جون بروز ہفتہ مسدوسی ہال (مغل پورہ ) میں منعقدہ مذاکرہ تعلیم تجارت بن گئی ۔ زیرصدارت جناب عبدالرشید خاں اور طرحی مشاعرہ زیرصدارت جناب صادق نویدؔ سابق صدر شعبہ اردو ؍ عربی سینٹ جارجس گرامر کالج کے کامیاب انعقاد پر طرحی مشاعرے سے بلاتمہید شعری انتخاب قارئین کی خدمت میں پیش ہے ۔
…………………………
روبینہ شبنم بختیار
l
چھاؤں میں رہنے کا احساس لئے پھرتے ہیں
ہاتھ میں تھامے ہوئے دھوپ کی چادر کتنے
دوستی کی جوقسم کھاتے ہیں دم بھرتے ہیں
آستینوں میں وہی رکھتے ہیں خنجر کتنے
…………………………
راجہ جگجیون لعل آستھانہ سحر (امریکہ)
l
میرے اعمال نے بخشی ہے یہ دولت مجھ کو
میرے بچوں کے درخشاں ہیں مقدر کتنے
دیکھ کر رخ پہ مرے درد کی تصویر نئی
ان کی آنکھوں سے بہے درد کے ساگر کتنے
…………………………
یوسف روشؔ
l
کتنے مفلس ہیں یہاں اور تونگر کتنے
آئینہ بن کے مقابل ہیں برابر کتنے
ضبط کا ، درد کا ، احساس کا منتر پڑھ کر
پی گئے دیکھئے وہ غم کے سمندر کتنے
…………………………
حکیم فریدالدین صادق ،ایڈوکیٹ
l
موت کے میدان میں پنجوں کو لڑانے والو
گھٹنے ٹیکے ہیں یہاں تم سے سکندر کتنے
فلمی دنیا میں نئے چہرے تو کتنے آئے
تم ہی صادقؔ یہ کہو آئے جتندر کتنے
…………………………
گویند اکھشے (ہندی شاعر)
l
میرے اشکوں کی حقیقت سے کہاں واقف ہو
قطرۂ اشک میں رکھتا ہوں سمندر کتنے
…………………………
سید رضاؔ منظور
l
دیکھنا اب ہے یہی ، ہیں وہ قدر آور کتنے
کتنے اندر سے نظر آتے ہیں باہر کتنے
کوئی آذر نہیں ملتا جو خدا کردیتا
یوں ہی بے کار پڑے رہتے ہیں پتھر کتنے
…………………………
ڈاکٹر سلیم ؔعابدی
l
مرے ہم سایوں کے احسان ہیں مجھ پر کتنے
گھر پہ آجاتے ہیں ہر روز ہی پتھر کتنے
دیکھ پائے نہ ہمیں سر بھی اٹھاکر کل تک
بن گئے آج وہ بونے بھی قدرآور کتنے
…………………………
سید سمیع اللہ سمیعؔ
l
دیکھنا ہو تو کسی دل میں اتر کر دیکھو
ہر گھڑی کٹتے ہیں خواہش کے یہاں سر کتنے
جب سفر زیست کا ہم نے بھی کیا تو جانا
کتنے رہزن ہیں یہاں اور ہیں رہبر کتنے
…………………………
نادرالمسدوسی
l
شعر گوئی میں ابھر آتے ہیں منظر کتنے
دل کی دیوار کو لگ جاتے ہیں نشتر کتنے
شعر کہتے ہیں سبھی کون مگر پرکھے گا
فن کی گہرائی میں اترے ہیں سخنور کتنے
…………………………
انجم شافعیؔ
l
آتش عشق میں تپ تپ کے جھلس کر کتنے
ہوگئے حسن پہ عشاق نچھاور کتنے
مثل سیماب ہیں وہ چشم کے باہر کتنے
کروٹیں لیتے ہوئے خواب ہیں اندر کتنے
…………………………
ظفر فاروقیؔ
l
پھول بھی کھلتے رہے شاخ غزل پر کتنے
خار بھی اپنے دکھاتے رہے تیور کتنے
حوصلہ یہ ہے کہ آندھی میں جلاتا ہوں چراغ
ورنہ بجھ جاتے ہیں محراب میں جل کر کتنے
…………………………
احمد قاسمیؔ
l
ڈھونگ کرتے ہیں غریبی کا سراسر کتنے
مال رکھتے ہیں تجوری میں چھپاکر کتنے
سخت مشکل سے گزرکر ہی پتہ چلتا ہے
دوست کتنے ہیں یہاں اور برادر کتنے
…………………………
باقرؔ تحسین
l
دشمنوں پر کوئی الزام میں کیسے رکھوں
دوست بن کر مجھے بتلاتے ہیں خنجر کتنے
…………………………
باسطؔ نقوی بیابانی
l
غور سے دیکھئے منظر پس منظر کتنے
بدلے بدلے لگے دنیا کے یہ تیور کتنے
پہلے لیجاتے تھے نامے وہ کبوتر کتنے
اب بدلتے رہے سیل فون کے نمبر کتنے
…………………………
شوکت علی دردؔ
l
وہ سخن تیرا کہ حیراں ہیں سخنور کتنے
ہوگئے موم تجھے دیکھ کے پتھر کتنے
اُن کی آنکھوں کو پتہ یہ بھی نہیں ہے شاید
دیکھتے خود ہیں غزالہ انہیں رک کر کتنے
…………………………
ڈاکٹر راہیؔ
l
دستِ آذر میں جو آئے تو نصیبا جاگا
پھر جو ترشے تو خدا بن گئے پتھر کتنے
بے ارادہ ہی انہیں یاد کیا تھا لیکن
یاد رفتہ کے یہاں کھل گئے دفتر کتنے
…………………………
صاحبزادہ مجتبیٰ فہیم
l
آگ برساتے ہیں اب تک وہی منظر کتنے
کل جلے تھے جو فسادوں میں اپنے گھر کتنے
…………………………
ڈاکٹر نعیمؔ ورنگلی
l
قید آنکھوں میں ہیں جلتے ہوئے منظر کتنے
بات کل کی ہے فسادوں میں جلے گھرکتنے
کتنی مہنگائی ہے تعلیم کے بازاروں میں
آج مہنگے ہیں یہاں علم کے زیور کتنے
…………………………
انور سلیمؔ
l
روز بنتے ہیں یہاں بگڑے مقدر کتنے
آپ کے در پہ سکوں پاتے ہیں بے در کتنے
ایسا لگتاہے گھنی چھاؤں میں رہتے مگر
سر پہ ہے اوڑھے ہوئے دھوپ کی چادر کتنے
…………………………
صادق نوید
l
کیا کہیں اپنی تباہی کے ہیں منظر کتنے
فتنے اٹھتے ہیں یہاں بھیس بدل کر کتنے
رہنما کتنے ہیں اور ہیں یہاں رہبر کتنے
کتنے نشتر ہیں یہاں اور ہیں خنجر کتنے
…………………………