غضنفر علی خان
صدر جمہوریہ ہند مسٹر پرنب مکرجی نے اپنے دورہ ناروے پر روانگی سے قبل ناروے کے میڈیا کو دئے گئے انٹرویو میں کہا کہ ’’خوش بختی کی بات ہیکہ ہندوستان میں رہنے والے 150 ملین مسلمان میں شاید ہی کوئی دہشت گرد ہے‘‘ ۔ دہشت گردی کا مسلمانوں پر الزام لگانے والے سب ہی لوگوں کے لئے صدر جمہوریہ ہند کا یہ مشاہدہ اس قماش کے لیڈروں کے منہ پر طمانچہ ہے ۔ یہ مشاہدہ دراصل ان کی طویل سیاسی زندگی کے تجربات کا نچوڑ ہے ۔ ان کا تعلق مغربی بنگال سے ہے ۔ رابندر ناتھ ٹیگور نے کسی موقع پر کہا تھا کہ ’’پہلے بنگال جاگتا ہے پھر ہندوستان سوچتا ہے‘‘ ۔ بنگال ہماری وہ ریاست ہے جہاں فرقہ پرستی اور تنگ نظری کبھی نہ پنپ سکی ۔ 28 برس تک یہاں کمیونسٹ پارٹی کی حکمرانی رہی ، کانگریس نے بھی مغربی بنگال پر برسوں حکمرانی کی لیکن یہاں کانگریس کا نقلی سیکولرازم بہرحال برقرار رہا ۔ کمیونسٹوں کے بارے میں چاہے کچھ کہا جائے ان پر فرقہ پرستی یا کسی اور طرح کی عصبیت کا الزام نہیں لگایا جاسکتا ہے ۔ بنگال کے اس سیاسی ماحول میں پرنب مکرجی نے سیاسی زندگی کا آغاز کیا اور بھی اپنی سیاسی وفاداری یا وابستگی نہیں بدلی ۔ انکا ذہن صاف ستھرا اور سیکولر ہے ۔ وہ ملک کے کئی اہم عہدوں پر فائز رہے ۔ دو مرتبہ وزیر خارجہ رہے ، وزیر فینانس رہے اور بالآخر صدر جمہوریہ ہند بنے ۔ ان کے مشاہدات ، ان کے تجربات ، تجزیات کو کوئی ذی شعور ہندوستانی نظر انداز نہیں کرسکتا ۔ سوال یہ ہیکہ مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دینے والے سنگھ پریوار کب اور کہاں دہشت گرد نہیں رہا ۔ اس سچائی سے آر ایس ایس اور سارا سنگھ پریوار بشمول بی جے پی انکار نہیں کرسکتے کہ کوئی رہنما گاندھی جی کا قتل آر ایس ایس نے کیا تھا ۔
30 جنوری 1948 ء کو جس دن آر ایس ایس کے ایک انتہا پسند رکن ناتھورام گوڈسے نے گاندھی جی پر گولیاں چلائی تھیں تو اس اندوہناک واقعہ کے چند منٹ کے اندر ہی ملک کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے آل انڈیا ریڈیو سے خصوصی تقریر میں کہا تھا کہ ’’گاندھی جی کا قاتل کوئی مسلمان نہیں ہے‘‘ ۔ یہ انھوں نے اس لئے کہا تھا کہ کہیں ملک میں وہی قتل و غارت گری کا بازار گرم نہ ہوجائے جو بٹوارے کے وقت ہوا تھا لیکن قاتل کی شناخت اس وقت تک ہوچکی تھی ۔ آزادی کے بعد پہلی دہشت گردی آر ایس ایس نے کی تھی ۔ مسلمانوں نے کبھی کسی قومی رہنما کو نقصان نہیں پہنچایا ۔ ملک کی تاریخ گواہ ہیکہ ہندوستان کے خلاف مخبری کرنے کے الزام میں شادی لال کپور شاید پہلے شخص تھے جنھوں نے دفاعی راز دشمن کو فروخت کئے تھے ۔ شادی لال کپور کے بعد آج تک بھی جو افراد ملک کی سالمیت کے خلاف سازشیں کرتے ہیں جو مادر وطن کے خلاف رازوں کی خرید و فروخت کرتے ہیں ان میں کبھی کوئی مسلمان نہیں پکڑا گیا ۔ ملک کی آزادی کے بعد چند برسوں سے اب مسلمانوں پر دہشت گردی میں ملوث ہونے کا متواتر الزام لگایا جاتا رہا ہے ۔ لیکن کسی بھی دہشت گردانہ سرگرمی میں مسلمانوں کے ملوث ہونے کا آج تک کوئی ثبوت نہیں ملا ۔ دہشت گردی ہندوستان کے وہ مسلمان کر ہی نہیں سکتے جو خود حکومت کی رپورٹ (سچر کمپنی کی رپورٹ) کے مطابق دلتوں اور بچھڑے طبقات سے بھی زیادہ غریب و مفلس ہیں ۔
کیونکہ دہشت گردی کی سرگرمیوں کے لئے بے حد و حساب پیسہ چاہئے ۔ جن ہندوستانی مسلمانوں کو دو وقت کی روٹی کمانے کے لئے سخت محنت مزدوری کرنی پڑتی ہے وہ بھلا ’’دہشت گردی کے تعیش کے کیسے متحمل ہوسکتے ہیں‘‘ ۔ عقل سلیم اس بات کو تسلیم نہیں کرتی ۔ البتہ انتہا پسند ہندو تنطیموں میں یہ صلاحیت ہے ۔ ذرائع اور وسائل بھی موجود ہیں جو دہشت گردی کے لئے درکار ہیں ۔ صدر جمہوریہ ہند نے یہ بھی کہا کہ دہشت گردی ہندوستان کے اندر درآمد کی گئی ہے ۔ صاف مطالب یہ ہیکہ یہ ہماری اپنی پیدا کردہ کوئی چیز نہیں ہے ۔ اس اظہار خیال کے لئے مسٹر پرنب مکرجی نے indigeous یعنی دیسی کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا واضح مطلب یہ ہیکہ یہ بیرونی ملک سے ہندوستان میں لائی جانے والی چیز ہے ۔ اس وضاحت کے ذریعہ صدر جمہوریہ نے مسلمانوں پر لگائے جانے والے اس الزام کی بھی تردید کردی ہے کہ ملک کے مسلمان دہشت گردی میں بذات خود ملوث ہیں ۔ 150 ملین مسلم آبادی جیسا کہ خود صدر موصوف نے کہا کہ انڈونیشیا کے بعد دنیا بھر میں دوسری بڑی مسلم آبادی ہے لیکن اس کے باوجود دہشت گردی میں مسلمان ملوث نہیں ہیں۔ آج کل یہ فیشن بن گیا ہیکہ ہر بات ہر واقعہ کی دو زمروں میں تقسیم کی جاتی ہے ۔ یہی بات دہشت گردی کے تعلق سے بھی کہی جارہی ہے کہ فلاں دہشت گردی اچھی ہے فلاں بری ہے ۔ یہ اصطلاحات بقول صدر جمہوریہ قطعی بے معنی ہیں ۔ دہشت گردی بجائے خود ایک انسانیت سوز حرکت ہے اور ایسی ہر حرکت کو برا ہی کہا جائے گا ۔ کسی برائی میں کوئی خیر کا پہلو نہیں ہوتا ۔ کسی بھی فرقہ کے خلاف کی جانے والی دہشت گردی ، انسانیت کے خلاف ایک ناقابل معافی جرم ہے ، کسی کی دہشت گردی کو اچھا قرار دینا ایک لحاظ سے اس کی تائید کرنے کے مماثل ہے ۔ برائی صرف برائی ہوتی ہے لیکن برائی کے بعد کسی مخصوص طبقہ پر بلا کسی ثبوت کے اسکا الزام لگانے سے سماج میں عدم توازن پیدا ہوتا ہے لیکن ایسا ہمیشہ ہوتا ہے ۔ کہیں کوئی واقعہ ہوا کہ گھنٹوں منٹوں میں واقعہ کی ذمہ داری مسلمانوں کے سر تھوپ دی جاتی ہے ۔ کسی فرضی اور من گھڑت مسلم تنظیم کا نام لے لیا جاتا ہے ۔ ساری سوسائٹی کو بدگمان کردیا جاتا ہے ۔ یہ کام بھی ملک کی ترقہ پرست طاقتیں کرتی ہیں اور کہیں کہیں ان طاقتوں کو میڈیا کا تعاون بھی مل جاتا ہے ۔ صدر جمہوریہ نے دہشت گردی کے الزام سے ہندوستان نے 15 کروڑ مسلمانوں کو بری کرکے قابل تعریف اور لائق صد ستائش کام انجام دیا ہے ۔ انٹرویو کے دوران انھوں نے یہ کہہ کر ایسا الزام عائد کرنے والوں کے منہ بند کردئے ہیں کہ ہمارا ملک خوش قسمت ہیکہ ملک کے 15 کروڑ مسلمانوں میں شاید ہی کوئی (انھوں نے اخباری رپورٹ کے مطابق بمشکل کا لفظ استعمال کیا) مسلمان دہشت گردی میں حصہ لیتا ہے‘‘ ۔ ان کی اس حق گوئی نے ہندوستان کے سیکولرازم اس کی جمہوری شان کو دوبالا کردیا ہے ۔ یہ کام کوئی اور کرتا تو اسکا ایسا تاثر پیدا نہیں ہوتا جو ان کے کہنے سے ہوا ہے ۔ نہ تو دہشت گردی کی اصطلاح کو اچھی اور خراب جیسے الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے اور نہ اس کے لئے ملک کے کسی ایک طبقہ کو مورد الزام ٹھہرایا جاسکتا ہے ۔ مشکل یہ ہیکہ یہ ملک کے بٹوارے کی ہندوتوا کی طاقتیں غلط تشریح کرتی ہیں ۔ بٹوارہ کے وقت جو مسلمان ملک چھوڑ کر چلے گئے وہ اور لوگ تھے لیکن جن مسلمانوں ے تقسیم کے باوجود ہندوستان ہی میں رہنا پسند کیا ، اس کو مادر وطن قرار دیا ، اس کی وفاداری پر شک کرنا ہندوتوا طاقتوں کی ایک ناقابل معافی غلطی ہے ، جو چلے گئے ان کے کسی عمل کے لئے موجودہ ہندوستانی مسلمانوں کو کیوں ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے ۔ ہم نے یہاں رہنے کا فیصلہ شعور و آگہی سے کیا ہے ۔ تقسیم کے دور میں قومی رہنما مولانا ابوالکلام آزاد نے جامع مسجد دہلی کے صحن سے جو تقریر کی تھی وہ ناقابل فراموش ہے ۔ انھوں نے ہندوستانی مسلمانوں کو بڑے حوصلہ اور ہمت کے ساتھ ترک وطن سے روکا تھا اور مولانا کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے کروڑہا مسلمانوں نے ہندوستان کی تقسیم کی نفی کرتے ہوئے ہندوستان کو ہی اپنا وطن قرار دیا تھا اورآج بھی وطن کی خدمت انجام دے رہے ہیں ۔ کبھی فیروز خان بن کر کبھی حنیف حولدار بنکر کبھی کشمیر پر حملہ کے وقت اپنی جان کھو کر تو کبھی کارگل میں دشمنوں کو بھگا کر اپنی حب الوطنی کے ان مٹ نقوش چھوڑرہے ہیں ۔ کھیل کے میدان سے لیکر اہم ترین سیاسی ایوانوں تک مسلمان اپنے لہو کو سیاہی بنا کر آزاد ہندوستان کی تاریخ سازی میں اپنا رول ادا کررہے ہیں ۔ ان کی وفاداری پر شک یا انھیں دہشت گرد قرار دینے والے عناصر کی اپنی وفاداری وطن سے ان کی محبت سب کچھ شک کے دائرے میں آگئی ہیں ۔ دہشت گردی کے لئے مسلمانوں کو ذمہ دار قرار دینے والے یا وقفے وقفے سے اس بے بنیاد الزام کو دہرانے والے لوگ صدر جمہوریہ کے اس انٹرویو سے سبق حاصل کریں تو بہتر ہوگا ۔ ملک کی مقتدر اعلی شخصیت نے مسلمانوں کے دہشت گرد نہ ہونے کی بات کہہ کر مسلم اقلیت میں ایک طرح کی خود اعتمادی پیدا کردی ہے ۔ ظاہر ہیکہ صدر جمہوریہ ہند کے خلاف زبان کھولنے کی ان عناصر کو کبھی جرأت نہیں ہوگی جو مسلمانوں پر دہشت گرد ہونے کا الزام عائد کرنے کا کوئی موقع نہیں کھوتے ۔ سچائی میں طاقت ہوتی ہے ۔صدر جمہوریہ نے مسلمانوں اور دہشت گردی کے تعلق سے جو اظہار خیال کیا ہے اسکا وقت بھی بہت اہم ہے ۔ ناروے کے دورے سے قبل انھوں نے یہ بات کہہ کر ساری دنیا کو بھی پیام دیا ہیکہ دہشت گردی ہندوستان میں نہیں کی جاتی بلکہ بیرون ملک سے اس کو درآمد کیا جاتا ہے ۔ یہ بات وہی کہہ سکتا ہے جس کی ہندوستانی تاریخ پر گہری نظر ہو ۔ جو ہندوستان کے مزاج سے بخوبی واقف ہو ۔ جس کا تاریخی شعور پختہ ہو ۔ یہ کام وہ لوگ نہیں کرسکتے جن کا نہ کوئی تاریخی شعور ہے اور نہ جو ہندوستانی مسلمانوں کی ملک کے لئے خدمات سے واقف ہیں ۔ مجموعی طور پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ہندوستانی مسلمان اس ملک پر اتنا ہی حق رکھتے ہیں جتنا حق دیگر طبقات رکھتے ہیں ۔ مسلم مخالف عناصر کیلئے ہم صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ
مجھے دے نہ غیظ میں دھمکیاں ، گریں لاکھ بار یہ بجلیاں
میری سلطنت یہی آشیاں ، میری ملکیت یہی بال و پر
(جگرؔ)