محبوب خان اصغرؔ
آج ہماری جامعات سے ڈاکٹرس، انجینئرس، ماہرین تعلیم اور ماہرین طبقات الارض مشینی کل پرزوں کی طرح ڈھل کر نکل رہے ہیں جو آگے چل کر اپنی معیشت کو مستحکم بنانے کے لئے دوسرے ممالک کا رُخ کرتے ہیں اور وہیں بود و باش بھی اختیار کرلیتے ہیں۔ چناں چہ ممتاز نیورو لوجسٹ ڈاکٹر سید عمر نے بھی مختلف ممالک میں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر امریکہ کو اپنا مسکن بنالیا ہے مگر حیدرآباد دکن کا پروردہ خواہ کہیں بھی چلا جائے سرزمین دکن سے اپنا تعلق یکلخت منقطع نہیں کرسکتا، مٹی کی خوشبو بالآخر اسے کھینچ لاتی ہے۔ ڈاکٹر سید عمر جو اپنی عمر کی ایک صدی سے چودہ برس پیچھے ہیں، اپنی اہلیہ کے ہمراہ اپنے گھر یعنی حیدرآباد تشریف لائے اور ہم نے ان کی موجودگی سے مستفید ہونے کی ٹھان لی۔ ان سے ہمارا پہلا سوال یہی تھا کہ حیدرآباد لوٹنے پر ان کے جذبات اور احساسات کیا ہیں؟ اُنھوںنے ایک ثانیہ کیلئے اپنی آنکھیں موند لیں اور دوسرے لحظہ میں یوں گویا ہوئے ’’دنیا بھر کی خاک چھان لی مگر حیدرآباد کی تہذیب، تمدن اور طرزِ معاشرت کہیں بھی دیکھنے کو نہیں ملا۔ ماہِ رمضان رخصت ہوا، گنیش تہوار کا زور دیکھنے کو ملا ،اس کے بعد بقرعید کا موسم آیا۔ اس طرح مختلف کمیونٹی کے لوگ اور ان کے تہواروں سے ایک مخصوص فضاء پیدا ہوتی ہے۔ حیدرآباد ہی کیا، ہندوستان کسی ایک تہذیب کا مرہون منت نہیں بلکہ مختلف تہذیب و تمدن کئی مذاہب اور عقائد کے ماننے والوں کا حسین امتزاج یہاں ملتا ہے جسے ہم سیکولرازم کا نام دے سکتے ہیں۔ یہاں کی گنگا جمنی تہذیب بے مثال ہے۔ اتحاد، تہذیبی اور ثقافتی رشتے دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ اتنی بڑی جمہوریت میں مختلف طبقے اپنے اپنے مذاہب کے مطابق تعلیمات پر عمل پیرا ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہاں کے قواعد اور قوانین کسی مخصوص فرقے یا مذہب کے اُصولوں پر موقوف نہیں ہیں بلکہ پوری ہندوستانی قوم کیلئے وضع کئے گئے ہیں۔ ڈاکٹر سید عمر جو کچھ دنوں یا کچھ مہینوں کیلئے ہی سہی، سال میں ایک بار حیدرآباد ضرور تشریف لاتے ہیں،
ہم نے اُن سے پوچھا کہ آپ یہاں کیا تبدیلی پاتے ہیں تو اُنھوں نے جواباً فرمایا کہ ہر سال آبادی میں اضافہ ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ طبی نقطۂ نظر سے اُنھوں نے ماحولیاتی آلودگی کو ایک سنگین مسئلہ قرار دیا اور کہاکہ گرد و غبار، صوتی آلودگی اور دھواں انسان کی صحت پر خراب اثر ڈالتے ہیں، بلکہ شُش کے امراض بھی لاحق ہوجاتے ہیں۔ اتنے بڑے شہر میں کوئی ماسٹر پلان کو ناگزیر بتاتے ہوئے اُنھوں نے میٹرو ریل سے متعلق رواں کام پر اظہار مسرت کیا اور کہاکہ ’’دیر آید درست آید‘‘۔ دوسرے شہروں میں میٹرو کو وجود میں آئے کافی وقت ہوچکا ہے۔ حیدرآباد میں یہ سروس شروع ہونے جارہی ہے، کام میں تیزی آگئی ہے، شاید یہ کام قریب الختم ہے۔ کل کے حیدرآباد اور آج کے حیدرآباد میں جو نمایاں فرق محسوس ہوتا ہے اُس سے متعلق ڈاکٹر صاحب نے بہت ہی متفکرانہ انداز اختیار کرتے ہوئے کہاکہ قدامت پسندی گذری ہوئی بات ہے، آج کے حالات کچھ اور ہیں۔ آج خاندان کے بزرگ اور نسل نو کے مابین جو کشمکش اور تناؤ ہے یہ اچھی علامت نہیں ہے۔ کل اپنے خاندان کے بزرگوں اور محلے کے سن رسیدہ لوگوں کا احترام کیا جاتا تھا۔ ان کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اونچی آواز میں گفتگو کرنے کو خلافِ آداب گردانا جاتا تھا۔ آج حالات اس کے برعکس ہیں۔ بزرگوں کا احترام ندارد، ان کی باتوں کو اور اندازِ ناصحانہ کو دقیانوسی خیالات کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے۔ یہ سب جدید ٹیکنالوجی کی دین ہے۔ آج کا ماحول دیکھ کر وحشت ہوتی ہے، اللہ ہی نگہبان ہے۔ اُنھوں نے اپنی جائے پیدائش سے متعلق بتایا کہ وہ اڈیکمٹ میں پیدا ہوئے، جو آج بھی اُسی نام سے مشہور ہے، مگر اب وہ گلیاں نہیں رہیں، وہ سڑکیں نہیں رہیں، روشن اور ہوادار گھروں کی جگہ فلک بوس عمارتوں کا تسلسل ہے۔ فلیٹ سسٹم ہے، جہاں کسی سے کسی کو سروکار، واسطہ اور تعلق نہیں رہتا، افسوسناک صورتحال ہے۔ حیدرآباد کے موسم سے متعلق ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ یہاں کے موسم خدا کی بڑی دین ہیں، آب و ہوا اچھی ہے، یہاں تالاب اور ندیاں ہیں، البتہ سمنٹ روڈ سسٹم، متواتر مکانات کی تعمیر، آبادی میں غیر معمولی اضافے سے پچیس فیصد حرارت پیدا ہورہی ہے یا اسے حبس بھی کہا جاسکتا ہے۔ اُنھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم سے متعلق مفصل گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ سینٹ جوزس تلک روڈ کے طالب علم ہیں۔ 1943 ء میں چادرگھاٹ ہائی اسکول سے میٹرک کامیاب کیا۔ 1945 ء میں انٹرمیڈیٹ پاس کیا۔ 1945 ء تا 1950 ء عثمانیہ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس (ڈاکٹریٹ) کی ڈگری حاصل کی اور ’’سر اکبر حیدری‘‘ گولڈ میڈل سے نوازے گئے۔ میڈیسن میں انھیں ’’ارسطو یار جنگ‘‘ گولڈ میڈل بھی دیا گیا۔ 1950 ء تا 1952 ء عثمانیہ میڈیکل کالج میں پیتھالوجی میں مہارت حاصل کرنے کے بعد امریکہ روانہ ہوئے اور 1954 ء میں یونیورسٹی آف ٹیلکس امریکہ سے پیتھالوجی اور ریسرچ میں ماسٹرس کی ڈگری حاصل کی۔ 1954 ء تا 1956 ء انگلینڈ اور اسکاٹ لینڈ میں تھے اور جنوری 1956 ء میں MRCP کی باوقار ڈگری حاصل کی اور نیورولوجی میں مہارت حاصل کرنے کے بعد حیدرآباد چلے آئے۔ عثمانیہ دواخانہ میںٹیوٹران میڈیسن اور پھر اسسٹنٹ پروفیسر کا اہم عہدہ سنبھالا اور ڈاکٹر بنکٹ چندرا معروف فزیشین کے ماتحت کام کیا۔ 1956ء تا 1960ء گاندھی میڈیکل کالج میں بطور پروفیسر آف کلینیکل میڈیسن کام کیا اور 1962 ء میں اُن کا تبادلہ وشاکھاپٹنم کردیا گیا اور آندھرا میڈیکل کالج میں پروفیسر آف نیورولوجی کی حیثیت سے کارگذار رہے کیونکہ آندھرا والوں کو ماہر نیورولوجسٹ کی ضرورت تھی جہاں دو سال تک نہایت مستعدی سے خدمات انجام دیں مگر بعض وجوہ کی بناء پر سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے دیا اور پرائیوٹ کنسلٹنٹ کے طور پر اپنی ذاتی پریکٹس کنگ کوٹھی میں شروع کی۔ 1969 ء میں سعودی عرب کیلئے روانہ ہونا چاہتے تھے مگر کارروائی میں غیرمعمولی تاخیر کے سبب انگلینڈ چلے گئے
اور کچھ دن ہی کام کرپائے تھے کہ سعودی عرب سے اپائنٹمنٹ لیٹر ملا، جسے قبول کرکے طائف چلے گئے جہاں وزارت صحت نے Specialist in Internal Medicine کے باوقار عہدہ پر انھیں فائز کیا۔ ہم نے سوال کیاکہ مریض کی کیفیت یا مرض کو سمجھنے کیلئے کن چیزوں کا استعمال کیا جاتا تھا؟ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ ان دنوں صرف Stethescope ہی ایک ایسی شئے تھی جس کے ذریعہ مرض کی تشخیص کسی حد تک ممکن تھی۔ مریض کی کیفیت کو پورے انہماک سے سننا، تشفی نہ ہونے پر کونسلنگ کرکے اس کی اندرونی کیفیت کو جاننا ڈاکٹر کی اوّلین ترجیح ہوتی تھی۔ پھر جلد صحت یاب ہونے کی نوید سناتے ہوئے دوا تجویز کرنا ڈاکٹر اپنا فرض سمجھتے تھے اور یہ کل کے حیدرآباد کا ایک روشن پہلو ہے۔ آج حیدرآباد ہی نہیں بلکہ ساری دنیا میں ڈاکٹروں کی اوّلین ترجیحات کچھ اور ہیں۔ امراض میں روز بروزاضافے نے ڈاکٹروں کی دوکانوں کو چمکایا ہے، فیس میں غیرمعمولی اضافہ کردیا گیا ہے۔ تشخیصی مراکز سے ڈاکٹروں کا تال میل بڑا معنی خیز ہے۔ ہر اعتبار سے مریض کی کمر توڑنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ خدمت کا جذبہ اکثر ڈاکٹروں کے اندر سے غائب ہوچکا ہے۔ فرض سے پہلوتہی اب ڈیوٹی میں شمار ہونے لگا ہے۔
اُنھوں نے اپنا خاندانی پس منظر بتاتے ہوئے کہاکہ ان کے والد محترم کا نام سید عزیز تھا جو نظام کالج کے پہلے گریجویٹ تھے جن کا ذریعہ تعلیم انگریزی تھا۔ مختلف شعبوں میں بطور محاسب کام کرتے رہے۔ آگے چل کر رئیل اسٹیٹ بزنس نے ان کے خاندان کو معاشی استحکام بخشا۔ 1960 ء میں کینسر کے عارضہ میں مبتلا ہوگئے اور اِسی مرض نے ان کی جان لے لی۔ اُن کی شادی 1959 ء میں ڈاکٹر سید عارف اللہ قادری کی بڑی صاحبزادی سے ہوئی۔ عارف اللہ قادری خود بھی ایک نامور سرجن تھے۔
ڈاکٹر سید عمر نے دوسری جنگ عظیم کے بارے میں بتایا کہ 1939 ء تا 1945 ء کا دور بڑا ہی کربناک رہا۔ حیدرآباد بھی متاثر ہوا۔ دورانِ جنگ جو مصیبتیں آئیں اپنے ساتھ کئی ایک مسائل بھی لائیں۔ اور سب سے بڑا مسئلہ راشننگ کا تھا۔ چاول اور گیہوں نہیں ملتے تھے۔ معاشی طور پر پورا ملک مار کھایا ہوا تھا۔ حیدرآباد دکن آرمی بہت مشہور تھی۔ حیدرآبادی فوج میں جاسکتے تھے مگر انگریزوں نے انڈین آرمی سے مل کر دغا بازی کی۔ عام لوگ آرمی جوائن نہیں کرسکتے تھے صرف نواب لوگ ہی آرمی جوائن کرنے میں پیش پیش ہوتے تھے۔ نوابوں کا عام لوگوں سے ملنا اور راہ و رسم بڑھانا ان کے خلافِ شان تھا۔ 1970 ء کے دوران حیدرآباد کی معاشی حالت بہت ابتر تھی۔ سرکاری نوکریاں ملنا گویا صحراء میں چشمہ مل جانے کے مترادف تھا۔ ہر طرف مایوسی کے گہرے بادل چھائے ہوئے تھے۔ ڈاکٹرس بھی خوش نہیں تھے، سیکلوں پر سفر کیا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ کئی ڈاکٹروں نے سیکل ہی کو اپنا ہمسفر بنالیا تھا بلکہ ان کی مجبوری بھی تھی۔ دوسرے پیشوں سے وابستہ افراد بھی سیکل ہی پر آتے جاتے تھے۔ کسی کو بھی اپنا مستقبل روشن نظر نہیں آرہا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ 1970 ء میں خوش قسمتی کی لہریں آئیں۔ مشرقِ وسطیٰ میں روزگار کے مواقع فراہم ہونے لگے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ، ہنرمند یہاں تک کہ ناخواندہ لوگوں کیلئے بھی خوشخبری تھی۔ اُس زمانے میں بے شمار حیدرآبادیوں نے مشرق وسطیٰ کا رُخ کیا اور حیدرآباد بدلنے لگا۔ دولت آنے لگی۔ ایسی دولت آئی کہ سیکل قصۂ پارینہ بن گئی۔ شادی خانے آباد ہوگئے۔ معاشی استحکام آیا اور اسراف کی ایک ایسی ہوا چلی کہ ہم خرافات میں اور بے جا رسومات میں اُلجھ کر رہ گئے۔ لباس میں بہتری آئی، تقاریب کے سلسلے چلنے لگے اور ایک مسابقتی دوڑ نے ہم سے ایسے ایسے کام کرائے جو ہمارے شایان شان نہیں تھے۔ حیدرآباد جو کل تھا وہ کہیں کھوگیا ہے۔ ٹولی چوکی، حکیم پیٹ اور اطراف و اکناف میں نئی کالونیاں وجود میں آگئیں اور وہ سارے مناظر غائب ہوگئے جو آنکھوں کو فرحت بخشتے تھے۔ اُنھوں نے بتایا کہ پہلے حیدرآباد کے حدود میں داخل ہونا آسان نہیں تھا۔ تفتیش کی جاتی تھی کہ کون ہیں، کہاں سے آئے ہیں، مقررہ وقت کے بعد حیدرآباد شہر کے چاروں طرف دروازوں کو مقفل کردیا جاتا تھا۔ نئی نسل اس بات سے قطعی ناواقف ہے۔ آج تو حیدرآباد میں اترپردیش، بہار، اڑیسہ، آسام اور دہلی والوں نے اپنے قدم بڑی مضبوطی سے جمالئے ہیں۔ جس کی وجہ سے حیدرآباد کی وہ قدیم تہذیب اب نظر نہیں آتی۔
اُنھوں نے یہ بھی بتایا کہ حیدرآباد میں عثمانیہ اور گاندھی دواخانہ کے علاوہ کوئی اور بڑا دواخانہ نہیں تھا۔ خانگی دواخانے تو بالکل ہی نہیں تھے۔ مذکورہ دو سرکاری دواخانوں میں ماہانہ دو تا تین ہزار روپئے ملتے تھے۔ آج لاکھوں کی تنخواہیں ہیں، خانگی دواخانوں میں تو اور بھی زیادہ اُجرت ملتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے علیحدہ آندھرا تحریک کا سرسری ذکر کیا اور کہاکہ راج گوپال چاری ٹاملناڈو کے گورنر تھے اور پوٹی سری راملو نے مرن برت رکھا تھا۔ پی سری راملو اور ان کے حامیوں کا تقاضہ تھا کہ آندھرا کو تلگو ریاست کے طور پر علیحدہ کیا جائے۔ اس ایجی ٹیشن میں شدت تو پیدا ہوئی مگر پی سری راملو کی حیات میں آندھرا بن نہ سکا بلکہ ان کی موت کے بعدہی آندھرا تشکیل پایا۔ اُنھوں نے بتایا کہ حیدرآباد کی ریاست قائم ہوئی اس میں پہلا وزیر صحت پھولچند گاندھی تھا۔ جوکہ کٹر فرقہ پرست تھا۔ بالخصوص مسلمان ڈاکٹروں کو سخت پریشان کرنے لگا جس کی وجہ سے مسلمان ڈاکٹر بددل ہوگئے تھے۔ وسیع پیمانے پر مسلمان ڈاکٹروں کے تبادلے ہونے لگے۔ پربھنی بمبئی میں ضم ہوگیا تھا۔ان دنوں ڈاکٹر موثق الدین جو لندن سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لے کر لوٹے تھے ان کا تبادلہ پربھنی کردیا گیا جہاں ڈاکٹر موثق الدین کی اتنی قدر ہوئی کہ وہ بمبئی میں Kem ہاسپٹل کے صدر بنے۔ سینٹ جوزف ہاسپٹل کے صدر بنے۔ انھوںنے اپنے ملک یا حیدرآباد سے باہر کام کرنے کو اُس زمانے کی مجبوری بتایا۔ ڈاکٹری جیسے مقدس پیشے میں در آئی سیاست کو اُنھوں نے سخت ناپسند کیا اور کہاکہ اس پیشہ میں بھی مٹھی بھر ایسے لوگ ہیں جو اس شفاف پیشے کو بدنام کررہے ہیں۔
ڈاکٹر سید عمر ماہر نیورولوجسٹ نے مختلف اعصابی امراض سے متعلق پوچھے گئے سوالات کا اجمالی جائزہ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ریڑھ کی ہڈی میں خرابی پیدا ہوجائے یا حادثہ کی وجہ سے زخم ہوجائے تو اس بات پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ زخم یا خرابی کس مقام پر ہے۔ اس کی نشاندہی کے بعد ہی علاج شروع ہوتا ہے۔ انسانی جسم میں ریڑھ کی ہڈی کی اہمیت بتاتے ہوئے ڈاکٹر سید عمر نے کہاکہ اسی پر سارے جسم کا بوجھ ہوتا ہے۔ ریڑھ کی ہڈی میں زیادہ خرابی کی وجہ سے گردن متاثر ہوجاتی ہے، جس کے بعد ہاتھ پیر متاثر بلکہ ناکارہ بھی ہوجاتے ہیں اور اگر خرابی گردن سے نیچے ہو تو نچلا دھڑ متاثر یا مفلوج ہوجاتا ہے۔ دماغی موت سے متعلق کئے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے اُنھوں نے بتایا کہ برین ڈیتھ میں انسان کو مصنوعی طریقے سے زندہ رکھا جاتا ہے۔ آکسیجن کے ساتھ وینٹیلیٹر پر ڈال دیا جاتا ہے۔ قلب کو خون اور آکسیجن ملتے رہیں تو سانسوں کا عمل جاری رہتا ہے۔ نبض اور سانس کے چلنے کا نام زندگی ہے تو یہ دونوں زندہ رہتے ہیں مگر ہوش و حواس کے بغیر ہی، بے حسی اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ درد ، چبھن اور حرارت کا احساس اور دوسری ضروریات کا خیال تک بھی باقی نہیں رہتا۔ تشخیص کے لئے EEG (Electro Encephalography) سے مریض کو گزرنا پڑتا ہے یا عام زبان میں Brain Wave سے مریض کو جوجھنا پڑتا ہے۔ نارمل دماغ میں جو Electrical Activity ہوتی ہے۔ وہ غائب ہوجاتی ہے اور ریکارڈنگ میں سیدھی لکیر آتی ہے۔ چوبیس گھنٹے میں دو دفعہ ایسی ہی ریکارڈنگ آئے تو اس کو دماغی موت کہتے ہیں جس کے بعد مریض کے متعلقین کو اطلاع دے کر وینٹیلیٹر سے نکال لیا جاتا ہے جس کے بعد قلب اور سانس چند منٹ میں رُک جاتے ہیں اور مریض کی موت واقع ہوجاتی ہے۔
ایک اور سوال کے جواب میں اُنھوں نے کہاکہ خالق کائنات نے انسان کو جس سانچے میں ڈھالا ہے سوچو تو عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ پیر کی انگلی سے دماغ تک رگوں کا ایک جال ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے یوں پھیلا رکھا ہے کہ تمام مخلوقات میں انسان کو خدا کا شاہکار کہا جاتا ہے۔۔ ہمارا سوال تھا کہ جس ملک اور جس کمیونٹی نے انھیں توقیر بخشی اور معاشی استحکام دیا، اس ملک اور کمیونٹی کو کیا دینا چاہیں گے۔ جواباً اُنھوں نے کہاکہ 2001 ء تا 2013 ء امریکہ میں ایک چیاریٹی دواخانہ چلایا ہے۔ بارہ برس ملک اور عوام کی خدمت کی ہے۔ ان دنوں امریکہ میں اپنی مصروفیت سے متعلق اُنھوں نے بتایا کہ ان کی اہلیہ اور بڑے صاحبزادے رئیل اسٹیٹ میں بڑی شہرت رکھتے ہیں اور سارا کام ڈاکٹر صاحب کی مشاورت ہی سے انجام پاتا ہے۔ ہم نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا کہ انسان اپنی عمر کی ایک مخصوص منزل میں آکر تمام چیزوں سے بے نیاز ہوجاتا ہے۔ شہرت، عزت، نام اور ثروت اس کے لئے کوئی وقعت نہیں رکھتے اور وہ باقی ماندہ زندگی انسانیت کے لئے وقف کردینا چاہتا ہے۔ آپ کا کیا ارادہ ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے یوں صراحت کی کہ وہ مختلف فلاحی کے کام ابتداء ہی سے انجام دے رہے ہیں۔ مثلاً یتیموں و یسیروں کے طعام اور تعلیم کے اخراجات ادا کرتے ہیں۔ بہت سے دینی مدرسوں کو مالی تعاون کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اپنی مادری زبان سے متعلق اُنھوں نے کہاکہ اُردو ان کی مادری زبان ہے۔ امریکہ میں بھی گھروں کے اندر اُردو بولی جاتی ہے۔ گھر کے باہر انگریزی کے سوا کوئی اور چارہ نہیں رہ جاتا۔ البتہ حیدرآباد آکر اندر باہر اُردو زبان میں بات کرتے ہوئے بڑا لطف آتا ہے۔ کونسے اخبارات زیر مطالعہ رہتے ہیں؟ ڈاکٹر صاحب نے برجستہ کہا ’’سیاست‘‘۔ ہم امریکہ کی مصروف ترین زندگی میں سے کچھ وقت نکال کر بذریعہ نیٹ روزنامہ سیاست پڑھتے ہیں اور تمام حالات سے بالخصوص حیدرآباد کے حالات سے باخبر رہتے ہیں۔ اُنھوں نے کہاکہ بچپن اور جوانی کا حیدرآباد کہیں کھو گیا ہے۔ پہلے دوست احباب اور رشتہ داروں سے ملنا آسان تھا، کسی بھی وقت کسی کی بھی یاد آجائے، بلا تردد ان کے گھر پہونچ جاتے تھے۔ آج کے جدید مسائل نے مشکلات پیدا کردی ہیں۔ پارکنگ کا مسئلہ بڑا ہی سنگین ہے، جس کو حل کرنا ضروری ہے۔ سیٹلائیٹ ٹاؤن کی افادیت کو محسوس کرتے ہوئے ڈاکٹر سید عمر نے کہاکہ حیدرآباد پر دباؤ کو کم کرنے کیلئے چالیس تا پچاس کیلو میٹر کے فاصلے پر تمام سہولتوں سے مزین سیٹلائیٹ ٹاؤن ضروری ہیں۔ میٹرو ریل آرہی ہے۔ پندرہ تا بیس منٹ میں حیدرآباد شہر پہونچا جاسکتا ہے۔ اس ٹاؤن میں اسکول ہوں، سرکاری دفاتر ہوں، اڈمنسٹریشن بلڈنگ ہوں، ایک مکمل شہر ہو چارمینار اور لاڈ بازار جیسا۔ ڈاکٹر صاحب کی اس تجویز کا خیرمقدم کرتے ہوئے ہم نے ’’حیدرآباد جو کل تھا‘‘ میں شرکت پر اُن سے اظہار تشکر کیا اور اجازت لی۔!