برکھا دت
ایک ایسی سیاستداں جو 2014 ء میں بالکل صفر ( زیرو) تھی، کیا وہ 2019 ء کے انتخابات میں خود آگے آسکتی ہے یا پھر کسی کی جیت کو کراری شکست میں تبدیل کرسکتی ہے ۔ بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی ) چیف مایاوتی جس کا سیاسی کیرئیر کی برسی میڈیا کی طرف سے قبل ازیں کئی بار رقم کی جاچکی ہے ، نے ثابت کیا ہے کہ وہ قومی سیاست میں ابھی طوفان مچاسکتی ہے اور کوئی بھی اس کے خلاف احتجاج کی ہمت نہیں کرسکے گا ۔ مایاوتی نے اپنے آپ کو بطور وزیراعظم کی حیثیت سے پیش کیا ہے ۔ اگر کانگریس پارٹی ، مخلوط اپوزیشن میں راہول گاندھی کو وزیراعظم بنانے کاعندیہ رکھتی ہے تو مایاوتی کی وزیراعظم کی کرسی کی چاہت اس منظرنامہ کارنگ بدل سکتی ہے۔
مدھیہ پردیش میں مایاوتی کااعلان جنگ اور اجیت جوگی کے ساتھ چھتیس گڑھ میں پارٹنرشپ کانگریس کیلئے زبردست وارننگ ہے جس کے پاس صرف حلیف بنانے کی حکمت عملی ہے اور بس ۔
چھتیس گڑھ میں ’’تکونی مقابلہ‘‘ بی جے پی کو یقینی طورپر فائدہ دے گا۔ اسمبلی انتخابات میں جیت اور ہار اس ریاست میں ہلکی مارجن سے ہوتی ہے ۔ بی ایس پی نے گزشتہ انتخابات میں نہایت ہی کم مارجن 4% سے اوپر اُٹھی تھی۔ یہ توقع ہے کہ جوگی ، کانگریس کے بنیادی ووٹوں کو کٹ کریں گے۔ مدھیہ پردیش میں کانگریس کو یقین ہے کہ مایاوتی کے ساتھ کچھ بھی نہیں بگڑے گا درآنحا لیکہ مایاوتی نے 22امیدواروں کااعلان کیاہے ۔ کمل ناتھ ، جو عوام میں پورے اعتماد کے ساتھ سامنے گئے ہیں انھوں نے نشستوں پر مفاہمت کی بات چیت کیلئے دوسرا دور کھلا رکھا ہے لیکن یہ اپوزیشن کااتحاد اگرچیکہ ایک جگہ ٹھہرا ہوا ہے ۔ تاہم خصوصاً کانگریس میں افواہوں کا بازار گرم ہے ۔
ایک کانگریسی نے مجھے کہاکہ مایاوتی اگرچیکہ بی جے پی یا نریندر مودی کی کھلی حمایت نہیں کریں گی تاہم وہ عین انتخابات کے موقع پر ووٹنگ مشین میں گڑ بڑ کاڈرامہ کرکے انتخابی عمل سے علحدہ ہوجائیں گی ۔ اور دوسرے کانگریسی نے کہا کہ مودی ٹیم پہلے ہی یوپی میں مایاوتی کو ’’نائب وزیراعظم ‘‘ بنانے کی پیشکش کرچکی ہے کہ اگر وہ اُترپردیش میں اکھلیش یادو کے حلیف کو بہکادیں۔ امرسنگھ اور شیوپال یادو کا دوبارہ احیاء کرنا اور امیت شاہ کو بری طرح نظرانداز کرنا دونوں ہی چیزیں یوپی میں اپوزیشن کے عمل کو جو فائدہ مل رہا تھا اُسے ختم کردیا ۔ بی جے پی ، ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے ٹریڈ مارک یعنی ’’پہلے مناؤ ، نہ ماننے پر سخت انتقامی کارروائی کی دھمکی دو‘‘ کے ملی جلی سوچ کو اپنائے گی ۔ مایاوتی کے بھائی کو ٹیکس حکام نے 18000 فیصد کے اچانک منافع کو جو سات برسوں میں ہوا نشانہ بنایا ۔ اگر واقعی میں یہی بات ہے تو ’’ڈپٹی پی ایم ‘‘ کے عہدے کا لالچ ایک نہ سمجھنے والی سیاسی صورتحال ہے ۔ اس ضمن میں ہونے والی سیاسی کاناپھوسی کہ مودی حکومت کانشی رام کو جو مایاوتی کے مینٹر اور بی ایس پی کے بانی ہیں ، ’’بھارت رتنا ایوارڈ‘‘ کا اعلان کرے گی جس کی وجہ سے مودی کی عزت کو گرانے میں محو مایاوتی کے مزاج کوٹھنڈک پہنچائے گی ۔
ادھر اپوزیشن مایاوتی سے توقع کررہی ہے کہ 2019 ء کے انتخابات ان کے ’’سیاسی زندگی کے نوید‘‘ ثابت ہوں گے اور نئے دلت قائدین جو ابھی اُبھرنا شروع ہوئے ہیں جیسے گجرات میں جگنیش میوانی اور اُترپردیش میں بھیم آرمی کے چندراشیکھر آزاد آہستہ آہستہ خلا کو پُر کررہے ہیں جنھیں وہ چننے کیلئے پیشکش کھلی رکھی ہوئی ہے ۔ بی ایس پی ان تمام احوال کو جانتی ہے تاہم وہ اس بات سے بھی اچھی طرح واقف ہے کہ ’’مخالف بی جے پی محاذ‘‘ صرف ایک پتھر والی بنیاد ہے ۔ جو اس کے اور سماج وادی پارٹی کے درمیان متحد ہے ۔ جینگا کھیل میں جس طرح صرف ایک حصہ کو نکالنے سے وہ گرجاتا ہے اُسی طرح یہ بھی وہی کھیل کھیلنے کی کوشش ہرگز نہیں کریں گی ۔ علاقائی گروپس پہلے ہی سے کمزور کانگریس سے فائدہ اُٹھارہے ہیں۔ جس میں کانگریس کی زیادہ پارٹیوں سے اختلاط میں صریح ناکامی ، اور تیزی سے آگے بڑھنے سے انکار نے مایاوتی کو آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا ہے اور راہول گاندھی پرانے ناراض کانگریسیوں کو منانے میں مشغول ہیںجیسے آندھراپردیش کے جگن ریڈی ، چھتیس گڑھ کے اجیت جوگی اور مہاراشٹرا کے شردپوار ان میں شامل ہیں۔ اورپارٹی کو چند نئے پارٹنرس کو ساتھ لینا چاہئے جیسے اوڈیشہ میں نوین پٹنائک، دہلی میں اروند کجریوال ، بہار میں نتیش کمار ، ٹاملناڈو میں ڈی ایم کے اور تلنگانہ میں کے سی آر شامل ہیں۔ آئندہ سال تک اور بھی بہت کچھ بدلے گا لیکن ایک بات تو نہایت صاف اور واضح ہے کہ اگر مایاوتی اپوزیشن کے ایک طرف رہنا کو چُنتی ہیں تو آئندہ انتخابات راہول گاندھی اور مودی کے درمیان نہیں ہوں گے بلکہ ’’مایاوتی اور مودی کے مابین ہوں گے ‘‘ ۔
(برکھادت ، ایوارڈ یافتہ صحافی اور مصنفہ ہیں)