۔2019ء کے چناؤ اسمارٹ فونس پر لڑے جانے کا امکان

راجدیپ سردیسائی
امیت شاہ کو اکثر ایسا صدر بی جے پی قرار دیا جاتا ہے جس نے ہندوستانی انتخابات کو معمول کی مقامی سیاسی مسابقتوں سے بھرپور جنگ میں تبدیل کردیا ہے۔ اس لئے کچھ تعجب نہیں کہ مسٹر شاہ کے حوالے بتایا گیا کہ انھوں نے پونے میں بی جے پی کے سوشل میڈیا کارندوں کے اجتماع کو بتایا کہ انھیں خود کو ضرور ’’جنگ کیلئے جانے والے ایسے سپاہی سمجھنا چاہئے جو کسی کو قیدی نہیں بناتے‘‘۔ مسٹر شاہ ہوسکتا ہے صرف اپنے کارندوں کا حوصلہ بڑھانے کی کوشش کررہے ہیں لیکن سخت الفاظ کا استعمال نئے انتخابی رجحان کی عکاسی کرتا ہے جس میں کوئی ٹویٹ، کوئی فیس بک پوسٹ یا کوئی واٹس ایپ فارورڈ عصر حاضر کے تیر اور گولیاں ہیں جو سیاسی حریفوں کو زخمی کرنے کے مقصد سے چلائے جاتے ہیں۔ اگر 2014ء کا الیکشن ایسا رہا جہاں انتخابی میدان بڑے تواتر سے اس میدان سے آپ کے قریب موجود ٹیلی ویژن اسکرین کو منتقل ہوگیا، تو 2019ء کا ایسا الیکشن رہے گا جو امکان ہے آپ کے ہاتھ میں موجود اسمارٹ فون پر لڑا جائے گا۔
ہندوستان میں آج زائد از 300 ملین اسمارٹ فون یوزرس ہیں، زائد از 200 ملین واٹس ایپ کنکشن اور 270 ملین سے زیادہ فیس بک اکاؤنٹس ہیں … یہ سب بڑے اعداد ہیں جو ملک کے مسلسل وسعت پذیر سوشل میڈیا انقلاب کی عکاسی کرتے ہیں۔ عملاً سوشل میڈیا اس ملک میں تقریباً ایک تہائی ووٹروں سے راست رابطہ قائم کرسکتا ہے، جو اسے ممکنہ طور پر الیکشن میں اثرانداز ہونے والا بہت بڑا عنصر بناتا ہے۔
نریندر مودی کی مقبولیت دوسروں سے آگے رہی ہے: ان کو ٹوئٹر پر دنیا کے تیسرے بڑے لیڈر کا موقف حاصل ہے، اور وہ فیس بک اور اِنسٹاگرام پر دنیا کے سب سے زیادہ پسند یا دیکھے جانے والے لیڈر ہیں۔ اُن کا آفیشل فیس بک پیج زائد از 43 ملین لوگ پسند کرتے ہیں، جو امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے مقابل تقریباً دوگنا ہے۔
اس کے برعکس راہول گاندھی جو سوشل میڈیا کی دنیا میں تاخیر سے اور پس و پیش کے ساتھ داخل ہوئے (مثال کے طور پر وہ ٹوئٹر پر 2015ء میں ہی شامل ہوئے ہیں) وہ برابری حاصل کرنے کی کوششیں کرنے پر مجبور ہیں۔ حالیہ گجرات اور کرناٹک کے انتخابات میں کانگریس نے پہلی مرتبہ سوشل میڈیا کو استعمال کرنے میں کچھ جدت دکھائی کہ امکانی ووٹروں کے ساتھ رابطہ قائم کیا جائے اور حتیٰ کہ اپنے حریفوں کے کسی بھی حملے پر فوری جواب دیتے ہوئے دشمن کے کیمپ کو چیلنج پیش کیا۔ کرناٹک میں کانگریس کے ’الیکشن وار روم‘ کا کلیدی حصہ زیادہ حرکیاتی سوشل میڈیا کا جزو رہا جس کی سربراہی اس کی سابقہ مانڈیا ایم پی دیویا اسپندنا نے کی۔ تاہم، بی جے پی کو ٹکنالوجی پر اس کی قیادت کی پُرجوش دلچسپی اسماٹ فون ووٹرس کو راغب کرنے کی جدوجہد میں واضح برتری دلاتی ہے، بالخصوص 18-25 سال والے گروپ میں، اور یہ عنصر 2019ء کے الیکشن میں فرق پیدا کرسکتا ہے۔

اور اس کے باوجود واٹس ایپ فارورڈز یا فیس بک لائیکس یا ٹوئٹر ٹرینڈز کے ذریعے چناؤ لڑنا دراصل ڈیجیٹل ایقان پیدا کرنا ہے جو زہریلا اور مضرت رساں ہوسکتا ہے۔ واٹس ایپ کو استعمال کرنے کا منفی پہلو اور خطرات حالیہ ہفتوں میں نظر آچکے ہیں کیونکہ پیامات ارسال کرنے والی سائٹ کے ذریعے بچوں کو اٹھانے سے متعلق افواہیں پھیلانے پر ہجوم کے ہاتھوں تشدد اور ہلاکتوں کے کئی واقعات پیش آچکے ہیں۔ جب آناً فاناً لاکھوں، کروڑوں لوگوں تک الیکٹرانی پیام کو پھیلایا جاسکتا ہے تو پھر یہ واضح ہے کہ سیاسی پارٹی کو کوئی روک ٹوک یا جواب دہی کے بغیر مہلک ہتھیار کو استعمال کیلئے دیا جاچکا ہے۔ الیکشن کمیشن کے کیمرے ہوسکتا ہے کسی ریلی میں سیاسی تقریر پر نظر رکھیں یا نیوز چیانلوں عقابی نگاہ قائم رکھیں، لیکن لاکھوں ٹویٹس، واٹس ایپ پیامات اور فیس بک پوسٹوں کی نگرانی کون کرے گا جو فرضی خبروں اور نفرت کے پرچار کو ملاتے ہوئے سیاسی ماحول کو مکدر کرنے کے واضح مقصد کے ساتھ بھیجے جارہے ہیں۔
منتشر سیاسی ماحول میں شہریوں سے حقیقت کا پتہ لگانے کی توقع رکھنا ایسا ہی ہے جیسے بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارمس سے ’ڈیجیٹل جنگل‘ میں کھلی بھیانک مخلوق کو یونہی چھوڑ دینے کی ذمہ داری کو نظرانداز کرنا۔ محض کسی پیام کی نشاندہی ’فارواڈیڈ‘ کے طور پر کردینا شاید ہی کوئی بھروسہ مند، ہائی ٹیک حل اس مسئلے کا ہوسکتا ہے جو تمام قانونی تنقیح سے بچنے کیلئے ٹکنالوجی کی منفرد خاصیت سے پیدا ہوتا ہے۔ ابھی تک قوانین سوشل میڈیا کے جنگجوؤں سے ہمیشہ ایک قدم پیچھے ہی رہے ہیں۔ ان عناصر کی نشاندہی کرنا جو اکثر مخفی شناخت کے تحت غلط معلومات کے ’میزائیل‘ چھوڑنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، نگرانی کرنے والی ایجنسیوں کے دائرۂ کار سے کافی دور ثابت ہوئے ہیں۔ کیا کوئی سنجیدگی سے توقع رکھتا ہے کہ دیہی مدھیہ پردیش میں کوئی پولیس کانسٹبل یا کوئی ضلعی عہدہ دار نگرانی کرے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے ممکنہ طور پر کیا اشتعال انگیز پیامات پھیلائے جارہے ہیں۔ نیم خواندہ مقامی پولیس اور ٹکنالوجی کے اعتبار سے اچھی طرح لیس سیاسی قوت کے درمیان جھڑپ میں صرف ایک ہی ونر ہوسکتا ہے۔
سال 2014ء میں بی جے پی نے حدود کو آگے بڑھاتے ہوئے انتخابی مہم کے نئے قواعد پیش کئے۔ لہٰذا، انتخابی منشور ووٹنگ کے دن جاری کیا گیا؛ ریلیوں اور روڈ شوز کو براہ راست نشر کیا گیا جبکہ پڑوسی علاقے میں پولنگ جاری تھی۔ ہر معاملے میں انتخابی ضابطہ اخلاق کو بے وقعت کاغذ کے ٹکڑے تک گھٹا دیا گیا، صاف طور پر عاجز الیکشن کمیشن اپنے اختیار کو بروئے کار لانے سے قاصر رہا۔ 2019ء میں اسی نوعیت کی زیادہ چیزیں دیکھنے کو ملیں گی۔ کم از کم سیاستدانوں کی بے احتیاط صاف ظاہر ہے اور اس کی گرفت کی جاسکتی ہے؛ اب جو سوشل میڈیا آرمی کا استعمال کیا جارہا ہے وہ طاقتور ہیں لیکن دکھائی نہ دینے والی فورس ہیں، جو کسی بھی دائرۂ کار کے اختیار سے باہر ہیں۔ وہ ہمارے انتخابی مہم کے سانچے کو ہمیشہ کیلئے تبدیل کردینے کے درپے ہیں۔
اضافی بات : رواں سال کے اوائل کرناٹک انتخابات کے دوران ایک گاؤں کے ٹی اسٹال پر ایک نوجوان نے مجھے بتایا کہ وہ کانگریس کے حق میں کبھی ووٹ نہیں دے گا کیونکہ راہول گاندھی کی تین بیویاں ہیں! اس نے پھر بڑی دلچسپی سے مجھے ایک واٹس ایپ ویڈیو دکھایا کہ کانگریس لیڈر ایک مسجد میں تین برقعہ نشین خواتین کے ساتھ عبادت کررہے ہیں۔ ایک فرضی ویڈیو میں جو گزشتہ دنوں کرناٹک میں پھیلایا گیا وہ آنے والے کل سارے ہندوستان میں وائرل کیا جاسکتا ہے!