نئی دہلی- گذشتہ لوک سبھا الیکشن کے بعد سے یکے بعد دیگرے انتخابات میں فاتح رہنے والی بی جے پی کو سنہ 2018 نے جہاں سخت دھچکا دیا وہیں تین ریاستوں میں فتح کے ساتھ کانگریس میں نئی زندگی کا صور پھونک گیا۔
رواں برس ہونے والے انتخابات پر اگر نظر ڈالیں تو ابتدا میں شمال مشرقی ریاستوں میں ہوئے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے گذشتہ ساڑھے چار سال سے جیت کا سلسلہ برقرار رکھا لیکن اس کے بعد ہونے والے لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات کے ضمنی الیکشن میں بی جے پی کی شکست کا آغاز ہوا اور رواں برس 2018 کے اسمبلی انتخابات میں اسے سخت جھٹکے لگے ۔
تین اہم ریاستیں اس کے ہاتھ سے نکل گئیں۔ گذشتہ ساڑھے چار سال میں میں اسے پہلی بار کانگریس سے براہ راست مقابلے میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔مدھیہ پردیش ، چھتیس گڑھ اور راجستھان میں جیت سے کانگریس میں نئی جان پڑ گئی۔
اسی سال بی جے نے تریپورہ میں بائیں بازو کو شکست فاش دی۔ بی جے پی نے ناگالینڈ میں نیشنل ڈیموکریٹک پروگریسیو پارٹی کے ساتھ اتحاد کی حکومت بنائی اور میگھالیہ میں نیشنل پیپلس پارٹی کو حمایت دی، لیکن وقتاًفوقتاً مختلف ریاستوں میں لوک سبھا اور اسمبلی ضمنی الیکشن کی انتخابی لائحہ عمل میں کانگریس کی ترکش سے نکلنے والی تیر سے وہ خود کو بچا نہیں سکی۔
رواں برس مختلف ریاستوں کی 18 اسمبلی سیٹوں پرضمنی انتخابات منعقد ہوئے ، جن میں کانگریس نے سب سے زیادہ آٹھ سیٹوں پر جیت حاصل کی جبکہ بی جے پی ، جھارکھنڈ مکتی مورچہ، ترنمول کانگریس کے حصے میں دو دو سیٹیں جبکہ آر جے ڈی ، ایس پی، سی پی آئی ایم اور جے ڈی (ایس) کے کھاتے میں ایک ایک سیٹیں آئیں۔
کانگریس ضمنی اسمبلی انتخابات میں شان کوٹ (پنجاب) پلوس کڈے گاؤں (مہاراشٹر)، آمپاتی (میگھالیہ) آر کے نگر (تمل ناڈو) جے نگر (کرناٹک)، جام کھانڈی (کرناٹک، مانڈل گڑھ (راجستھان) اور کولیویڑا (جھارکھنڈ) سیٹوں پر فتحیاب ہوئی۔
بی جے پی کو دو سیٹ تھرالی (اتراکھنڈ) اور جسدن (گجرات)، جھارکھنڈ مکتی مورچہ کو دو سیٹ گومیا اور ملی (جھارکھنڈ) اور ترنمول کانگریس کودو سیٹ مہیش تلا اور نوآپاڑہ (مغربی بنگال)، جبکہ ایس پی نے نور پور (اترپردیش)، سی پی آئی ایم نے چینگانور (کیرل) آر جے ڈی نے جوکی ہاٹ (بہار) اور جے ڈی (ایس) نے رام نگر (کرناٹک) سیٹ پر جیت درج کی۔
لوک سبھا ضمنی انتخابات میں کانگریس نے راجستھان میں اجمیر اور الور سیٹ پر جیت درج کی۔ ایس پی اتر پردیش کی گورکھپور، پھول پوراور راشٹریہ لوک دل کیرانہ سیٹ پر قابض ہوئی۔ بی جے پی نے پال گھر (مہاراشٹر) آر جے ڈی نے ارریہ (بہار) نیشنلسٹ کانگریس پارٹی نے بھنڈارا گوندیا (مہاراشٹر) ترنمول کانگریس نے الوبیریا (مغربی بنگال) سیٹ پر فتح حاصل کی۔
مئی میں کرناٹک اسمبلی الیکشن بی جے پی کے لیے کافی پریشان کن رہا۔ وہاں اسمبلی میں سب سے بڑی پارٹی بننے کے با وجود اسے اقتدار سے محروم رہنا پڑا۔ کانگریس نے یہاں تیز حرکت دکھائی اور نتائج آنے سے قبل ہی جے ڈی (ایس) کے ساتھ مل کر حکومت بنانے اور ایچ ڈی کمارا سوامی کو وزیر اعلیٰ کا منصب دینے کا اعلان کر دیا۔ بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھنے کے سلسلے میں کانگریس کا یہ عمل کافی سراہا گیا۔
کرناٹک اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے 104 سیٹیں جیتیں، لیکن اکثریت کے اعداد و شمار تک نہیں پہنچ سکی۔ کانگریس نے 78 اور جے ڈی (ایس) نے 37 سیٹیں حاصل کیں۔ بی ایس پی نے ایک سیٹ پر جیت حاصل کرکے جنوبی ہند میں اپنا کھاتہ کھول دیا۔ سب سے زیادہ سیٹوں پر جیت کی بنیاد پر بی جے پی نے حکومت کا دعویٰ کیا۔
اس سلسلے میں بی جے پی کے قد آور رہنما بی ایس یدیورپا نے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے حلف بھی لے لیا، لیکن اسمبلی میں اکثریت ثابت کرنے سے قبل ہی انہوں نے استعفیٰ دے دیا۔ کانگریس نے اپنے اراکین اسمبلی کو سخت نگرانی رکھااور انھیں بکھرنے نہیں دیا۔ کانگریس کا یہ لائحہ عمل کامیاب رہا۔
بعد ازاں کانگریس ۔جے ڈی (ایس) کی متحدہ حکومت بنی اور مسٹر کماراسوامی وزیر اعلیٰ کے منصب ہر فائز ہوئے ۔
سنہ 2018 کے نومبر اور دسمبر میں پانچ ریاستوں راجستھان، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، تیلنگانہ اور میزورم کے اسمبلی انتخابات میں پانسہ بالکل پلٹ گیا اور کانگریس نے بی جے پی سے تین ریاستیں چھین لیں۔ راجستھان میں ہر پانچ برس کے بعد تبدیلیٔ اقتدار کی روایت بر قرار رہی ۔
یہاں کانگریس بر سر اقتدار آئی اور مدھیہ پردیش میں اس نے 15 برس سے قابض بی جے پی کا قلع قمع کر دیا۔ چھتیس گڑھ میں بھی چوتھی مرتبہ پورے اعتماد کے ساتھ اقتدار پر بی جے پی کے قابض رہنے کی منصوبہ سازی کرنے والے رمن سنگھ کے طلسم کو کانگریس نے خاک میں ملا دیا اور امید سے بڑھ کر 90 سیٹوں میں سے 68 سیٹیں جیت کر ایک طرح سے بی جے پی کا صفایا کر دیا۔
بی جے پی محض 15 سیٹوں پر سمٹ کر ر ہ گئی۔ تیلنگانہ میں قبل از وقت اسمبلی انتخابات میں علاقائی پارٹی تیلنگانہ راشٹر سمیتی (ٹی آر ایس) کا ہی دبدبہ قائم رہا۔ اس نے 88 سیٹیں جیت کر مسلسل دوسری بار حکومت بنائی۔ کانگریس کو 19 سیٹیں ملیں جبکہ بی جے پی کے ہاتھ محض ایک سیٹ آئی۔
کے سی آر کے نام سے معروف چندر شیکھر راؤ دوبارہ تیلنگانہ کے دوبارہ وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے ۔
دوسری جانب میزورم اسمبلی انتخابات کے نتائج کانگریس کے لیے منفی رہے اور اسے یہاں اقتدار سے بے دخل ہونا پڑا۔ میزورم اسمبلی انتخابات کا ایک پہلو یہ بھی رہا کہ یہاں الیکشن میں شکست کے ساتھ ہی شمال مشرقی ہندوستان میں کانگریس کا آخری قلعہ بھی منہدم ہو گیا۔
پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کو آئندہ برس 2019 میں ہونے والے لوک سبھا الیکشن کے لیے سیمی فائنل کے طور پر دیکھا گیا۔
بی جے پی کے زیر اقتدار تین ریاستوں میں فتح کے بعد کانگریس میں نیا جوش و ولولہ پیدا ہو گیا۔
سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ پانچ ریاستوں کے انتخابی نتائج نے بی جے پی کی قیادت والی نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے ) کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے ۔