۔19 نومبر : آر بی آئی کی آزادی کیلئے فیصلہ کا دن!

پی چدمبرم
احساس و ادراک کے حامل ایک مصنف نے نشاندہی کی ہے کہ حکومت اور سنٹرل بینک تین ٹانگوں والی دوڑ کی ٹیم کے مانند ہے؛ وہ یا تو مل کر دوڑیں گے یا پھر گرجائیں گے۔ نشوونما یا بڑھوتری اور قیمتوں کا استحکام جو کسی معیشت کے دو ناقابل اعتراض مقاصد ہیں، وہ بعض اوقات ایک دوسرے سے ٹکرا سکتے ہیں: جب افراطِ زر زیادہ ہو یا مائل بہ عروج ہو اور شرح ترقی کم یا انحطاط پذیر ہو؛ یا جب شرح ترقی بہت مضبوط ہو اور افراط زر کو بڑھانے کا خطرہ بن جائے۔ وزیر اقتصادیات (حکومت) اور گورنر (سنٹرل بینک) اپنے متعلقہ موقف اختیار کریں گے؛ وہ میٹنگ منعقد کریں گے؛ دونوں اپنے تشویش سے دیگر کو واقف کرائیں گے؛ اور حالات کو معمول پر لایا جائے گا۔ ملک کی حکمرانی میں بہت کچھ داؤ پر رہتا ہے کہ حکومت اور سنٹرل بینک اپنی حکمت عملی کو ہمیشہ تیار رکھیں۔
تاہم، آج ہمیں جو کچھ دیکھنے میں آرہا ہے ویسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کوئی ڈپٹی گورنر نے گورنر کی تائید و حمایت کے ساتھ سنٹرل بینک کی آزادی کے خیال کو ’کھوجنے‘ کی بات کی ہے، کوئی پبلک لیکچر دیتے ہوئے حکومت کو متنبہ کیا کہ اسے مارکیٹس کا عتاب سہنا پڑے گا۔ کبھی ایسا بھی نہیں ہوا کہ کسی وزیر فینانس نے ایک اور پبلک لیکچر کے ذریعے جواب میں کہا کہ جب بینکس بے اُصولی سے قرض دے رہے تھے تب آر بی آئی کی توجہ کہیں اور تھی۔ پہلے کبھی نہیں ہوا کہ کسی معتمد، معاشی امور نے مارکیٹ میں عارضی اُچھال کو دیکھ کر ڈپٹی گورنر کا اُن کی سنگین وارننگ پر مضحکہ اُڑایا ہو۔
محفوظ ذخائر پر نظریں گاڑھنا
مسئلہ کی شروعات آر بی آئی ایکٹ کے سیکشن 7 کو لاگو کرنا ہے جس کی سابق میں نظیر نہیں ملتی، جو عملاً گورنر کو ’عوامی مفاد‘ کے بعض معاملوں کے بارے میں حکومت کے ساتھ ’مشورہ‘ کرنے کا حکم دینا ہے۔ جو مسائل حکومت نے پیش کئے وہ کچھ اور باتوں پر پردہ ڈالنے والے ہیں۔ پریشان حال این بی ایف سیز (نان بینکنگ فینانشیل کمپنیز)کو زیادہ نقدی کی فراہمی، گیارہ پبلک سیکٹر بینکوں کے ضمن میں عاجلانہ اصلاحی عمل کی سختی میں نرمی لانا، اور ایم ایس ایم ایز (مائیکرو، اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزس) کو قرض کی فراہمی کیلئے خصوصی گنجائش رکھنا ایسے بے قابو اُمور تو نہیں کہ وزیر فینانس اور گورنر بات چیت کی میز پر بیٹھ کر اُن کو حل نہیں کرسکتے ہیں۔ پردے کے پیچھے کا حقیقی مسئلہ تو آر بی آئی کے ذخائر ہیں۔
آر بی آئی کے ذخائر بلحاظ 31 مارچ 2018ء یوں تھے :
.1 کرنسی اور گولڈ کی مکرر تعین قدر و قیمت کا ذخیرہ … 6,91,641 کروڑ روپئے
.2 ہنگامی فنڈ … 2,31,211
.3 فروغ اثاثہ جات فنڈ … 22,811
.4 سرمایہ کے مکرر تعین قدر و قیمت کا کھاتہ … 13,285
.5 بیرونی زرمبادلہ سے متعلق فارورڈ کنٹراکٹس کی قدر و قیمت کا کھاتہ … 3,262
.6 اصل سرمایہ کا ذخیرہ … 6,500
جملہ … 9,68,710 کروڑ روپئے
سلسلہ نمبرات 1، 4 اور 5 بلحاظ شرح تبادلہ اور شرح سود تغیر پذیر رہیں گے۔ دیگر تین ایسے ذخائر یں جو برسہا برس میں آر بی آئی کی سالانہ فاضل نقدی کے بڑے حصے کو محفوظ کرتے ہوئے جمع کئے گئے ہیں۔ آر بی آئی کا سالانہ فاضل اثاثہ حکومت اور آر بی آئی کے درمیان تناؤ کا معاملہ رہا ہے۔ ڈاکٹر وائی وی ریڈی پورا سالانہ فاضل اثاثہ حکومت کو منتقل کردینے پر غیررضامند تھے۔ ڈاکٹر رگھورام راجن نے اس مسئلہ کی یکسوئی کی، اور 2013-14ء سے پورا سالانہ فاضل اثاثہ حکومت کو منتقل کیا جانے لگا۔ لہٰذا، مستقبل میں کچھ بھی ذخائر کے مد میں سالانہ فاضل اثاثے سے جوڑا نہیں جائے گا (ویسے سالانہ فاضل اثاثہ کا حساب کس طرح لگایا جاتا ہے وہ بحث کا موضوع ہے)۔
کئی سوالات، مگر جوابات نہیں
حکومت بظاہر یہی سوچتی ہے کہ جمع کردہ ذخائر بہت زیادہ ہیں۔ آر بی آئی کے جملہ اثاثہ جات کے تناسب میں یہ 26.8 فیصد ہیں بمقابل اوسطاً 14 فیصد جو سنٹرل بینکس کے جائزے میں سامنے آیا ہے۔ حکومت کی نظریں کم از کم ایک تہائی ذخائر یعنی لگ بھگ 3,20,000 کروڑ روپئے پر لگی ہیں۔ اتفاق سے یہ رقم اُس رقم کے مشابہ ہے جس کی حکومت نے نوٹ بندی کے نتیجے میں غیرمتوقع فائدہ ہونے کی امید کی!حکومت کا کیس کمزور ہے اور وہ حسب ذیل سوالات کے جواب دینے عدم آمادہ ہے:
.1 مالی سال 2013-14ء سے پوری سالانہ فاضل رقم حکومت کو منتقل کی جارہی ہے۔ کیوں حکومت ایسے مسئلے کو دوبارہ چھیڑ رہی ہے جس کی یکسوئی کی جاچکی ہے؟
.2 ذخائر کی (اثاثہ جات کے متناسب) ممکنہ زیادہ سے زیادہ جسامت کے تعلق سے کوئی متفقہ بین الاقوامی قاعدہ نہیں ہے۔ کیوں حکومت کا خیال ہے کہ 26 فیصد بہت زیادہ ہے؟
.3 نیز، کیا ہندوستان کی صورتحال (شرح تبادلہ کی تغیرپذیری، افراط زر، سرمایہ کے بہاؤ) کا وہ ملکوں کی صورتحال سے کوئی تقابل ہے جن کا جائزہ لیا گیا ہے؟
.4 کیا حکومت نے آر بی آئی کے سیکشن 47 کا جائزہ لیا ہے جو یوں ہے کہ ’’منافع جات کا بقیہ حصہ مرکزی حکومت کو ادا کیا جائے گا‘‘؟
.5 چونکہ حکومت نے ادعا کیا ہے کہ اس کا مالی حساب برائے 2018-19ء درست ہے اور وہ مالی خسارہ کے نشانہ کی تکمیل کی راہ پر گامزن ہے، تو پھر کیوں حکومت کو رواں سال رقم درکار ہے؟
.6 حکومت گزشتہ 4 سال 6 ماہ سے کیا کرتی رہی اور ایسی کیا ہنگامی ضرورت آن پڑی کہ اپنی میعاد کے اختتام سے قریب ’’آر بی آئی کے اکنامک کیاپٹل فریم ورک کی اصلاح‘ کی فکر دامن گیر ہے؟ کیا یہ مسئلہ اگلی حکومت کیلئے نہیں چھوڑنا چاہئے؟
جو ٹوٹا نہیں اُسے جوڑنے کی کوشش!
حکومت اور آر بی آئی کیلئے سمجھ بوجھ کا راستہ ذخائر کے مسئلے کو بالائے طاق رکھنا اور فوری توجہ طلب فکرمندی پر اپنی توجہ مبذول کرنا ہے۔ دونوں کیلئے کچھ مشکل نہیں کہ این بی ایف سیز کیلئے لکویڈیٹی، پی سی اے (پرنسپل کامپوننٹ انالیسیس) قواعد پر نظرثانی، این پی ایز کے بوجھ تلے دبے منتخب شعبوں (جیسے برقی) کے معاملے میں صبر سے کام لینے، ایم ایس ایم ایز کو فراخدلانہ قرض، وغیرہ سے متعلق لائحہ عمل پر اتفاق کریں۔ ان میں سے ہر ایک بس اعداد و شمار اور ممکنہ حل ڈھونڈنے کا معاملہ ہے۔
تاہم، اگر حکومت آر بی آئی کے کیاپٹل فریم ورک کو ’ٹھیک کرنے‘ پر بضد ہے تو اس کے مقاصد غیردیانتدارانہ ہیں۔ اس سے بس یہی اخذ کیا جاسکے کہ حکومت کا مقصد ڈاکٹر اُرجیت پٹیل کو مستعفی ہونے پر مجبور کرنا، کسی لچکدار گورنر کو مقرر کرنا، اور آر بی آئی کو روایتی بورڈ کے زیرانتظام کمپنی میں تبدیل کردینا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے کہا تھا کہ 19 نومبر سنٹرل بینک کی آزادی اور ہندوستانی معیشت کیلئے فیصلہ کا دن رہے گا ۔