یہ کیا ہوگیا ہے ہماری پارلیمنٹ کو

غضنفر علی خان
ہندوستان کی پارلیمنٹ لوک سبھا اور راجیہ سبھا دو ایوانوں پر مشتمل ہے ۔ دستور کے مطابق کوئی قانون سازی دونوں ایوانوں کی منظوری کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ ان کی منظوری سے قبل ایوانوں میں ان پر بحث بھی ضرور ہوتی ہے ۔ ان مراحل سے گزرنے کے بعد مسودہ قانون صدر جمہوریہ ہند کو ان کی منظوری کیلئے روانہ کیا جانا چاہئے جو یا تو منظوری دیتے ہیں یا پھر ایوان کی نظر ثانی کیلئے مسودہ قانون حکومت کو واپس کردیتے ہیں۔ یہ طریقہ کار مسلمہ اور قطعی طور پر دستوری ہے۔ آج کل کوئی مسودہ قانون نہ تو بحث کیلئے پیش ہوتا ہے اور نہ ہی ایوان میں بحث ہوتی ہے کیونکہ ان قانونی اور قاعدوں کی تکمیل سے پہلے ہی حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کی مخالفت شروع کردیتے ہیں۔ یہ رویہ اپوزیشن اورحکومت (برسر اقتدار جماعت) دونوں نے اختیار کر رکھا ہے بلکہ ایوان میں کوئی بھی کارروائی نہ ہوسکے، اس کے لئے سیاسی پارٹیاں اجلاس سے پہلے ہی اپنی اپنی حکمت عملی تیار کرلیتی ہیں، نہ صرف یہ بلکہ باقاعدہ طور پر میڈیا کو بتادیا جاتاہے کہ وہ کیا کرنے والے ہیں۔ جاریہ سیشن میں بھی ان ہی حریفانہ روایت کا چلن دیکھا جارہا ہے ۔ سیشن شروع ہوئے ایک ہفتہ کا عرصہ گزر چکا ہے

لیکن دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے سب سے مقتدر ایوان میں کوئی کارروائی نہیں ہوسکتی۔ اپوزیشن کسی نہ کسی مسئلہ پر اڑ جاتی ہے اور حکمراں پارٹی اپنے موقف پر اٹل رہتی ہے ۔ جس سے نقصان یہ ہوتا ہے کہ اہم قانونی سازی نہیں ہوتی ، وقت ضائع ہوتا ہے ۔ ایوان میں ارکان بالا بھی یہی رویہ اختیار کرتے ہیں۔ عوامی ٹیکس سے وصول شدہ رقم صرف ارکان کے الزامات اور جوابی الزامات پر صرف ہوجاتی ہے۔ آخر کب تک ہماری پارلیمنٹ یونہی وقت ضائع کرتی رہے گی ۔ جمہوری ادارے لب کشائی کرتے بھی ہیں لیکن پارلیمنٹ میں وہی ہوتا ہے جو اپوزیشن اور حکومت چاہتی ہے ۔ ان کا طریقہ کار بے حد منفی ہوگیا ہے اور اس سیشن کی بات لیجئے تو صرف اتنا سا معاملہ بلکہ اپوزیشن بالخصوص کانگریس پارٹی کا اصرار ہیکہ داغدار مرکزی وزیر سشما سوراج اور دونوں داغدار چیف منسٹرس وسندھرا راجے سندھیا اور مدھیہ پردیش کے چیف منسٹر شیوراج سنگھ چوہان کو جب تک ان کے عہدوں سے ہٹایا نہ جائے گا تب تک کوئی کارروائی نہیں ہوسکتی ۔ بی جے پی کی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ان وزراء کے استعفے کے مسئلہ پر ایوان میں بحث کرنے کیلئے تیار ہے

لیکن کانگریس اور دیگر اپوزیشن جماعتیں کہہ رہی ہیں جب تک یہ داغدار لوگ اقتدار کی کرسیوں پر رہیں گے ، وہ کسی مباحثہ کی اجازت نہیں دیں گے ۔ جہاں تک حکومت کا تعلق ہے وہ بلا شبہ ان لیڈروں کا دفاع کر رہی ہے ، جن کے خلاف سنگین الزامات ہیں، جس کے ثبوت بھی دستیاب ہیں۔ روزانہ اخبار پڑھنے والے کسی عام شہری کو بھی یہ معلوم ہے کہ کس طرح سشما سوراج نے حکومت کو مطلوب ملزم آئی پی ایل کے سربراہ للت مودی کو ان کی بیمار بیوی کے پاس پرتگال جانے کیلئے ملک کے وزیر خارجہ کی حیثیت سے خلاف قانون للت مودی کی مدد کی تھی ، یہ بھی سبھی کو معلوم ہے کہ چیف منسٹر راجستھان وسندھرا راجے سندھیا اور ان کے صاحبزادے رکن پارلیمنٹ بھی ہیں، للت مودی سے رقمی فائدہ حاصل کیا تھا ۔ شیوراج سنگھ چوہان چیف منسٹر مدھیہ پردیش کی ریاست میں ویاپم اسکینڈل ہوا اور اس سلسلہ میں 47 اموات ہوچکی ہیں۔ پوری ریاستی مشنری اس اسکینڈل میں ملوث ہے، تحقیقات بھی ہورہی ہیں، معاملہ عدالت سے بھی رجوع کیا جاچکا ہے ۔ اب ان کا چیف منسٹر کے عہدہ پر برقرار رہنا کسی صورت میں بھی درست نہیں ہے ۔ ان تمام تلخ حقائق کے باوجود مودی حکومت ان کے (چیف منسٹر مدھیہ پردیش) کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتے ہوئے ان کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے ، جو کسی بھی اعتبار سے درست نہیں ہے ۔ اپوزیشن نے یہ نہیں کہا کہ وہ مباحث نہیں چاہتی ہے ۔ البتہ اس مطالبہ پر سختی سے قائم ہے کہ ان تینوں سیاست دانوں کو پہلے مستعفی کیا جائے اور اسکے بعد پارلیمان میں تمام اسکینڈلس پر مباحث ہوں گے ۔ بظاہر اپوزیشن کا موقف صحیح ہے ، حکومت کیوں سمجھتی ہے کہ داغدار سیاست دانوں ، چیف منسٹروں اور مرکزی وزیر خارجہ کے استعفیٰ سے ساری کائنات درہم برہم ہوجائے گی، کونسا پہاڑ ٹوٹ پڑے گا ۔ کیا ان تینوں کو مستعفی کرنے سے مودی حکومت کا تختہ الٹ جائے گا ۔ کیا وہ اقتدار سے بے دخل ہوجائے گی ۔ کئی برسوں بعد تو مرکز میں ایک پارٹی نے پارلیمنٹ میں فیصلہ کن اکثریت حاصل کی ہے ۔ موجودہ حکومت کو نہ چند ارکان کے انحراف کا کوئی خطرہ ہے

اور نہ اپوزیشن میں اتنا دم ہے کہ وہ اس کا تختہ الٹ دے ۔ پھر کیا وجہ ہے کہ مودی حکومت مٹھی بھر کانگریسی ا رکان (44) سے اس قدر خوف زدہ ہے ۔کونسی چیز ہے جو بی جے پی کو اتنی احتیاط برتنے اور ملک و قوم کا اتنا روپیہ پیسہ ضائع کرنے پر مجبور کر رہی ہے ۔ اس سوال کا ایک ہی جواب ہوسکتا ہے کہ بی جے پی نے وزیر اور چیف منسٹروں کے استعفیٰ کے معاملے کو وقار کا مسئلہ بنالیا ہے، اگر حکمراں پارٹی کے دو چار وزراء بدعنوانی کے مرتکب ہوتے ہیں تو اس کے ہندوستانی عوام ساری پارٹی کو اس کے لئے ذمہ دار قرار نہیں دیں گے۔ پارٹی اپنی جگہ قائم رہے گی ۔ اس کا وقار بھی متاثر نہیں ہوگا ۔ اپوزیشن کو بھی یہ سوچنا چاہئے کہ ان تینوں کے استعفیٰ سے ملک کی تقدیر بدل جائے گی۔ یہ تینوں ہٹ جائیں تو ان کی طرح ذہنیت رکھنے والے دوسرے پیدا ہوجائیں گے ۔ بدعنوانی اور سیاست دانوں میں چولی ، دامن کا ساتھ ہوتا ہے اور ایک بی جے پی ہی نہیں ملک کی کوئی سیاسی پارٹی بدعنوان سیاست دانوں سے خالی نہیں ہے ۔ یہاں ساری سیاسی پارٹیاں یکساں طور پر ایسے افراد کو پناہ دیتی ہیں جن کے خلاف مجرمانہ سرگرمیوں کا ایک طویل  ریکارڈ ہوتا ہے ۔ کانگریس یا کوئی دوسری پارٹی (شاید کمیونسٹ پار ٹیاں ایسا نہ کرتی ہوں) ۔ اس پس منظر میں اگر دیکھا جائے تو ان اسکینڈلس پر بحث ہونی چاہئے اور اگر ایوان میں یہ غالب رائے ہو کہ انہیں استعفیٰ دینا چاہئے یا خود ان کا ضمیر انہیں آواز دے اور وہ عہدہ چھوڑدیں تو معاملہ بڑی آسانی سے ختم ہوسکتا ہے ۔ فی الحال حکمراں پارٹی اور اپوزیشن دونوں ہی غلطی پر ہیں۔

دونوں کو اپنے اپنے دامن میں جھانک کر دیکھنا چاہئے کہ کس نے کب اور کتنی بڑی غلطی کی ہے لیکن دونوں میں سے کسی کو بھی یہ حق نہیں کہ وہ جن کے کاندھوں پر پاؤں رکھ کر  آج اقتدار تک پہنچے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ عوام کے جائز اور دستوری حقوق سے محروم کریں۔ اس وقت تو دونوں ہی اپنی سوچ کے غلط ہونے کا کوئی احساس نہیں رکھتے۔ اسی پارلیمنٹ کے اجلاس میں کانگریس کے لوک سبھا میں فلور لیڈر ملکارجن کھرگے نے کہا تھا کہ ان کی پارٹی کارروائیوں میں رکاوٹ ڈالنے کی حکمت عملی پر گامزن ہے ۔ مسٹر کھرگے نے یہ بھی کہا تھا کہ پچھلی مرتبہ جبکہ بی جے پی اپوزیشن ہی تھی تب پارٹی کے ایک سینئر لیڈر اور موجودہ مرکزی وزیر مسٹر ارون جیٹلی نے کہا تھا کہ ’’رکاوٹ ڈالنا بھی ایک طرح کی حکمت عملی ہے ۔ اپوزیشن کا ہتھیار ہے، چنانچہ آج کانگریس رکاوٹ ڈالنے کے اس طریقہ کار پر ہی عمل پیرا ہے ۔ کانگریس نے ایوان کی کارروائی میں رکاوٹ ڈالنے کا یہ فن بی جے پی لیڈر سے ہی سیکھا تو پھر بی جے پی کس منہ سے جاریہ سیشن میں کانگریس کے طرز عمل پر اعتراض کرسکتی ہے ۔ اس لئے کچھ بولنے سے پہلے ایک ذمہ دارسیاست داں کو سو بار سوچنا چاہئے کہ اس کی کہی ہوئی بات کیا رنگ لائے گی ۔ رکاوٹ ڈالنے کو اپنا حربہ کہنے والے بی جے پی لیڈر آج کف افسوس مل رہے ہیں کہ میں نے یہ کیا غضب کیا کہ میری کہی ہوئی بات آج پارٹی اور حکومت کے لئے وبال جان بن گئی۔