پارلیمنٹ میں ہنگامہ…13 ماہ میں بی جے پی کے برے دن
کرکٹ پر بھی ہندوتوا کا غلبہ
رشیدالدین
تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ جس طرح یو پی اے دور حکومت میں مختلف اسکامس اور اس میں ملوث وزراء کے استعفوں کی مانگ کرتے ہوئے بی جے پی پارلیمنٹ کی کارروائی میں خلل پیدا کرتی رہی، ٹھیک اسی طرح کانگریس اور دوسری اپوزیشن جماعتیں ان دنوں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی کارروائی روکے ہوئے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یو پی اے کی پہلی میعاد اسکامس سے محفوظ رہی جبکہ دوسری میعاد کے آخری ایام میں ڈاکٹر منموہن سنگھ حکومت کے کئی اسکامس منظر عام پر آئے جبکہ نریندر مودی حکومت کے 13 ماہ کی مدت میں کئی مسائل پیدا ہوگئے ہیں۔ حکومت کے ایک سال کی تکمیل کا جشن ابھی شروع نہیں ہوا تھا کہ اسکامس نے جشن کو گہن لگادیا۔ جس طرح بی جے پی نے یو پی اے حکومت کو گھیرنے کیلئے کئی دن پارلیمنٹ کی کارروائی چلنے نہیں دی، آج کانگریس کا وہی رویہ ہے اور اسے صرف ایک سال بعد ہی یہ موقع ہاتھ لگ گیا۔ یہ محض اتفاق ہی کہا جائے یا پھر تاریخ کا دہرانا کہ یو پی اے دور میں اسکامس پر وزیراعظم منموہن سنگھ خاموش رہے اور آج بھی سارے ہنگاموں پر نریندر مودی مہر بہ لب ہیں۔ 10 سال کی حکمرانی کے بعد کانگریس پارٹی کو جس قدر بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا ، اس کی مثال سابق میں نہیں ملتی۔ لوک سبھا میں اس کے ارکان کی تعداد گھٹ کر 44 تک پہنچ گئی جبکہ بی جے پی کو عوام میں حکومت کی مخالفت کا فائدہ ہوا اور لوک سبھا میں اکثریت حاصل ہوئی۔
انتخابی نتائج کے فوری بعد سیاسی مبصرین کا کہنا تھا کہ کانگریس کو دوبارہ ابھرنے کیلئے کافی عرصہ درکار ہوگا لیکن صرف 13 ماہ میں بی جے پی حکومت نے اپنی کرتوت کے ذریعہ کانگریس کو ابھرنے کا موقع فراہم کردیا۔ بہت کم ایسا دیکھا گیا کہ ایک سال کے عرصہ میں کوئی حکومت تنازعات کا شکار ہوئی ہو۔ نریندر مودی نے انتخابات سے قبل عوام سے جو وعدے کئے تھے، وہ تمام کھوکھلے ثابت ہونے لگے ہیں۔ 13 ماہ میں عوام کیلئے اچھے دن تو نہیں آئے لیکن بی جے پی اور نریندر مودی حکومت کے برے دنوں کا آغاز ہوگیا۔ صاف و شفاف حکومت اور کرپشن سے پاک نظم و نسق کے دعوے عوام میں مذاق کا موضوع بن چکے ہیں۔ جن بنیادوں پر مہم چلائی گئی تھی، آج وہی معاملات مودی حکومت کے گلے کی ہڈی بن چکے ہیں۔ عوام سے کئے گئے وعدے تو پورے نہیں ہوئے لیکن رسوائی اور عوامی ناراضگی مقدر بن چکی ہے۔ مودی نے ’’کھائیں گے اور نہ کھانے دیں گے‘‘ کا نعرہ لگایا تھا لیکن مرکز اور بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں کی کہانی کچھ اور ہی سچائی بیان کر رہی ہے۔ جن مسائل اور بنیادوں پر بی جے پی گزشتہ حکومت میں پارلیمنٹ کی کارروائی کو ٹھپ کرتی رہی ، آج کانگریس وہی کچھ کر رہی ہے۔ پارلیمنٹ وہی ہے، صورتحال بھی وہی ہے لیکن چہرے تبدیل ہوگئے۔ پارٹیاں وہی ہیں لیکن نشستیں تبدیل ہوگئیں۔ جمہوریت کی لاکھ خوبیوں کے باوجود اس کا ایک عیب یہی ہے کہ ہمیشہ اکثریت کا غلبہ رہتا ہے اور اپوزیشن کی آواز کچلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پارلیمنٹ میں آج وہی کچھ ہورہا ہے۔ شفافیت اور کرپشن کی بات کرنے والے آج ڈکٹیٹر شپ کے انداز میں دکھائی دے رہے ہیں اور مختلف افراد کے خلاف واضح ثبوت کے باوجود استعفیٰ کے لئے تیار نہیں۔ یہ تمام دراصل زوال کی علامتیں ہیں۔ کانگریس کو اسی روش پر اقتدار سے محروم ہونا پڑا تھا۔ گزشتہ 4 دن سے پارلیمنٹ کی کارروائی ٹھپ ہے
اور حکومت سنگین الزامات کو سیاسی مقصد براری کا نام دے کر دامن بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔ کانگریس پر ایوان کا وقت ضائع کرنے کا الزام عائد کرنے والی بی جے پی شائد یہ بھول رہی ہے کہ 15 ویں لوک سبھا میں 67 فیصد ایوان کا وقت ضائع کرنے کیلئے بی جے پی ذمہ دار ہے۔ ایک ہی سیشن میں 14 دن تک بی جے پی نے کارروائی چلنے نہیں دی۔ الزامات کا سامنا کرنے اور خاطیوں کے خلاف کارروائی کی جرات سے محروم بی جے پی نے کانگریس زیر اقتدار ریاستوں کے مسائل کو جوابی حملہ کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ ہزاروں کروڑ کے اسکام میں ملوث للت مودی کی مدد کرنے والے سشما سوراج اور وسندھرا راجے کو بچانا دراصل للت مودی کو بچانے کے مترادف ہے۔ اسی طرح ویاپم اسکام کے سلسلہ میں چیف منسٹر مدھیہ پردیش شیوراج سنگھ چوہان کی پشت پناہی کی جارہی ہے حالانکہ اس اسکام سے متعلق 40 سے زائد افراد کی مشتبہ حالت میں اموات واقع ہوئی ہیں۔ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود نریندر مودی لب کشائی کیلئے تیار نہیں۔ یہ وہی نریندر مودی ہیں جو انتخابی مہم کے دوران منموہن سنگھ کی خاموشی کا مذاق اڑاتے رہے۔ پارلیمنٹ کے پہلے دن نریندر مودی کچھ دیر کیلئے میڈیا سے روبرو ہوئے۔ 23 سیکنڈ میں ان سے 6 سوالات کئے گئے لیکن انہوں نے ایک کا بھی جواب نہیں دیا۔ ایسا نہیں تھا کہ سوالات سنائی نہیں دے رہے تھے یا پھر بچکانی سوال تھے جن کا جواب دینا مودی نے مناسب نہیں سمجھا۔ سوال وہ تھے جو ملک کے عوام کے ذہنوں میں ہیں اور عوام ان کا جواب مانگ رہے ہیں۔ ہر سطح پر عوام میں یہی مسائل زیر بحث ہیں۔ الغرض منموہن سنگھ کی 10 سالہ خاموشی کا ریکارڈ مودی نے 13 ماہ میں توڑ دیا۔ کسی نے درست کہا ہے کہ ’’بڑے مودی مہربان تو چھوٹے مودی پہلوان‘‘۔ پارلیمنٹ کی ہنگامہ آرائی پر مودی نے عوامی نمائندوں کو ذمہ داریوں کا احساس دلاتے ہوئے نصیحت کی کہ دنیا ہندوستان کی طرف دیکھ رہی ہے۔ نریندر مودی کو کوئی بتائے کہ دنیا صرف دیکھ نہیں رہی ہے بلکہ ہنس بھی رہی ہے۔دنیا یہ بھی دیکھ رہی ہے کہ مودی خواتین کے خلاف کارروائی سے خوف زدہ ہیں۔ دنیا یہ بھی دیکھ رہی ہے کہ مودی نے اپنی گھر والی کو مستحقہ مقام نہیں دیا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ جو شخص ایک عورت کو سنبھال نہ سکے ، وہ ملک کو کیا سنبھال پائے گا۔ گزشتہ دنوں جموں میں ایک تقریب کے دوران مودی نے دامادوں کے رشتہ پر طنز کیا۔ انہوں نے کہا کہ نظریاتی اختلافات کے باوجود کانگریسی قائد گردھاری لال ڈوگرا نے ارون جیٹلی کو داماد بنایا ۔ سونیا گاندھی کے داماد کا نام لئے بغیر مودی نے طنز کیا کہ اگر داماد کا انتخاب صحیح ہو تو ٹھیک ہے ورنہ آج کل دامادوں کے سبب کیا کیا باتیں کہی جارہی ہیں۔ نریندر مودی نے اسی تجربہ کی بنیاد پر تو یہ بات نہیں کی کیونکہ وہ داماد کے انتخاب کے موقف میں نہیں ہیں۔ بھلے ہی داماد کے انتخاب کے سلسلہ میں ارون جیٹلی کے خسر کا فیصلہ درست تھا لیکن مودی کو داماد چننے میں ان کے خسر نے صحیح انتخاب نہیں کیا، جس کے نتیجہ میں آج تک شریک حیات مستحقہ مقام سے محروم ہے۔
نریندر مودی حکومت کے ایک سال میں ملک کو ہندو راشٹر بنانے کے ایجنڈہ پر تیزی سے عمل کیا جانے لگا ہے۔ آر ایس ایس اور سنگھ پریوار اپنے ایجنڈہ پر کاربند ہیں اور انہیں حکومت کی مکمل سرپرستی حاصل ہے۔ تعلیم کو زعفرانی رنگ دینے سے لے کر ہندو عقائد اور رسوم و رواج کو دوسروں پر مسلط کرنا اسی ایجنڈہ کا حصہ ہے ۔ صرف 33 فیصد ووٹ سے برسر اقتدار آنے کے بعد ہندو ایجنڈہ پر عمل آوری کی یہ رفتار ہے ۔ اگر 50 فیصد سے زائد ووٹ حاصل ہوجائیں تو کیا ہوگا؟ ہر شعبہ حیات میں ہندوتوا ایجنڈہ اور مسلمانوں کو ہر سطح پر پیچھے ڈھکیلنے کی تازہ مثال ہندوستانی کرکٹ ٹیم ہے۔ ٹیم سے مسلم نمائندگی کی روایت ختم کردی گئی۔ گزشتہ دو بیرونی دوروں سے ٹیم میں ایک بھی مسلم کھلاڑی نہیں ہے۔ ایسا نہیں کہ مسلمانوں میں باصلاحیت کھلاڑی نہیں لیکن جب شامل کرنا ہی مقصود نہ ہو تو قابلیت اور صلاحیت کون دیکھے گا۔ محمد سمیع کے زخمی ہونے کے بعد سے ٹیم میں مسلم نمائندگی نہیں دی گئی۔ سری لنکا کے دورہ کیلئے ٹیم کے انتخاب میں ایک بھی مسلم کھلاڑی کو شامل نہ کرنا ہندوتوا ایجنڈہ کا حصہ ہے۔ ایک دور تھا جب ٹیم انڈیا میں 2 تا 3 مسلم کھلاڑی بیک وقت شامل رہے اور انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ۔ عابد علی ، سلیم درانی ، عباس علی بیگ اور منصور علی خاں پٹوڈی کو ہندوستانی کرکٹ کی تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ غلام محمد اور محمد اظہرالدین جیسے حیدرآبادی سپوتوں نے ٹیم انڈیا کی قیادت کی اور کامیابیاں دلائیں۔ منصور علی خاں پٹوڈی کی کپتانی کو آج بھی یاد کیا جاتا ہے ۔
یہ مسلمان کسی کی مہربانی یا احسان کے سبب ٹیم انڈیا کے کپتان یا ٹیم کا حصہ نہیں رہے بلکہ ان کی صلاحیت نے ان کو اس مقام تک پہنچایا۔ ظہیر خاں، عرفان پٹھان اور یوسف پٹھان آج بھی فارم میں ہیں لیکن سلیکشن کمیٹی کو تعصب اور فرقہ پرستی کی عینک اتارنی پڑے گی۔ کشمیر کے ابھرتے کھلاڑی پرویز رسول کو نظر انداز کرنا باعث حیرت ہے جبکہ ان کا مظاہرہ ٹیم میں موجود بعض دیگر کھلاڑیوں سے بہتر ہے۔ لیگ ٹورنمنٹس میں شاندار ریکارڈس قائم کرنے والے ذیشان علی پر بھی ہندوستانی سلیکٹرس کی نظریں نہیں پڑیں۔ آئی پی ایل میں اپنے آل راؤنڈ مظاہرہ سے شائقین کے دلوں میں جگہ بنانے والے سرفراز خاں بھی نظرانداز کردیئے گئے۔ شائد اس لئے کہ وہ مسلمان ہیں۔ برخلاف اس کے لیگ میچس کے بہتر مظاہرہ کرنے والے دوسرے کھلاڑیوں کو ٹیم میں جگہ دی گئی۔ فرقہ پرست طاقتیں یہ ہرگز نہ بھولیں کہ مسلمانوں کے بغیر ہندوستان کا تصور ادھورا ہے۔ اگر ملک ایک گلدستہ ہے تو مسلمان ان پھولوں کی خوشبو کی طرح ہیں۔ خوشبو نہ ہو تو پھول بھی کاغذمیں شمار ہوجائیں گے۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ سری لنکا ، ساؤتھ افریقہ ، انگلینڈ اور زمبابوے جیسے ممالک کے صلاحیتوں کی بنیاد پر مسلم کھلاڑیوں کو ٹیم میں جگہ دی۔ وی ایچ پی قائد اشوک سنگھل نے 2020 ء تک ہندوستان اور 2030 ء تک دنیا کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کا دعویٰ کیا ہے جو منگیری لال کے سپنے کے سوا کچھ نہیں۔ عمر کے اس حصہ میں جبکہ بچی کچی سانسوں کو شمار کرنے کا وقت ہے، اشوک سنگھل ہندو راشٹر کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ ویسے بھی عمر کے آخری حصہ میں اکثر لوگ سٹھیا جاتے ہیں۔ مرکزی حکومت اور پارلیمنٹ کی صورتحال پر منور رانا نے کیا خوب کہا ہے ؎
یہ سنسد ہے یہاں آداب تھوڑے مختلف ہوں گے
یہاں جمہوریت جھوٹے کو سچا مان لیتی ہے