ممبئی دھماکوں کا فیصلہ … بابری مسجد کے خاطیوں کو سزا کب
مائنمار پر احتجاج شریعت پر خاموشی … مودی کا مائنمار اسٹڈی ٹور
رشیدالدین
ممبئی سلسلہ وار بم دھماکوں کے خاطیوں کو خصوصی عدالت نے آخر کار سزا سنادی۔ 5 کے منجملہ 2 کو موت اور 3 کو قید کی سزا دی گئی۔ مارچ 1993 ء کے سلسلہ وار بم دھماکوں کے مقدمات کے فیصلے خصوصی عدالتوں کی جانب سے وقفہ وقفہ سے صادر کئے جارہے ہیں ۔ ان مقدمات کی عاجلانہ یکسوئی کے سلسلہ میں تحقیقاتی ایجنسیاں بشمول سی بی آئی اور حکومت کو بھی دلچسپی ہے، جس کا اندازہ تیز رفتار عدالتی کارروائیوں سے ہورہا ہے ۔ اسی نوعیت کے بعض دیگر مقدمات ممبئی بم دھماکوں سے پہلے سے عدالتوں میں زیر التواء ہیں۔ عوام کو ان مقدمات کے فیصلوں کا انتظار ہے۔ اسی میں سے ایک بابری مسجد شہادت کا مقدمہ ہے۔ 6 ڈسمبر 1992 ء کو بابری مسجد شہید کی گئی اور اس کے دوسرے سال ممبئی بم دھماکے ہوئے۔ دونوں معاملات کی تحقیقات سی بی آئی نے کی تھی لیکن بابری مسجد شہادت کے ذمہ داروں کو آج تک سزا کا اعلان نہیں کیا گیا جبکہ تحقیقات میں یہ ثابت ہوچکا ہے کہ سازشی کون تھے۔ نوعیت کے اعتبار سے دونوں مقدمات کی حساسیت اور سنگینی یکساں ہے، پھر انصاف رسانی میں تاخیر کیوں ؟ کیا برسر اقتدار پارٹی سے تعلق کے سبب فیصلہ کو ٹالا جاسکتا ہے ؟ ملک کے قانون اور دستور کو پامال کرتے ہوئے بابری مسجد شہید کی گئی اور اس سازش میں ایل کے اڈوانی، مرلی منوہر جوشی ، اوما بھارتی ، ونئے کٹیار ، سادھوی رتھمبرا اور دوسروں کے نام شامل ہیں جن کے خلاف چارج شیٹ بھی داخل کی گئی تھی ۔ جس طرح ممبئی بم دھماکوں کے متاثرین کو انصاف دلانے کی فکر کی گئی ، اسی طرح بابری مسجد شہادت کے متاثرین کو بھی انصاف کا انتظار ہے۔ مسجد کی شہادت کے ذمہ دار کھلے عام گھوم رہے ہیں، ان میں سے بعض مرکزی کابینہ میں بھی شامل کئے گئے ۔
مسجد کے تحفظ کے لئے سپریم کورٹ نے حلفنامہ داخل کرتے ہوئے کارسیوکوں کو کھلی چھوٹ دینے والے کلیان سنگھ کو گورنر شپ تحفہ میں دی گئی۔ قانون اور عدلیہ پر اٹوٹ ایقان رکھنے والے انصاف پسند شہری یہ سوال کر رہے ہیں کہ ممبئی بم دھماکوں سے قبل کے اس مقدمہ کا فیصلہ آخر کب آئے گا۔ بم دھماکوں کے فیصلوں میں دی گئی سزا کی تعمیل بھی کی جارہی ہے لیکن اس سے پہلے کہ مقدمہ میں کوئی پیشرفت نہیں، شائد اس لئے کہ یہ افراد بی جے پی کے مارک درشک منڈلی کا حصہ ہیں۔ حکومت اور تحقیقاتی اداروں کو صرف مخصوص معاملات میں ہی یہ اصول کیوں یاد آتا ہے کہ ’’انصاف میں تاخیر ، انصاف سے محروم رکھنے کے مترادف ہے‘‘۔ یہ اصول ہر مقدمہ پر لاگو ہوناچاہئے ۔ عدالتوں کے ذریعہ انصاف رسانی کا یہ حال ہے کہ دوسری طرف حکمراں طبقہ کی سرپرستی کرنے والے سنگھ پریوار کے نزدیک عدالتوں کا کوئی پاس ولحاظ نہیں۔ بابری مسجد کا مسئلہ عدالتوں میں زیر دوران ہے لیکن رام مندر کی تعمیر کیلئے تیاریاں تیز کردی گئی ہیں۔ عدالت کی جانب سے جوں کا توں موقف کی ہدایت کے باوجود اینٹوں کی منتقلی جاری ہے جو سراسر توہین عدالت کے زمرہ میں آتا ہے۔ اترپردیش میں بی جے پی اقتدار اور یوگی ادتیہ ناتھ کے چیف منسٹر بنتے ہی زعفرانی بریگیڈ کے حوصلے بلند ہوگئے۔ وشوا ہندو پریشد نے آئندہ سال سے تعمیر کے آغاز کا منصوبہ تیار کرلیا ہے ۔ 1992 ء میں بی جے پی راج نے سپریم کورٹ کے احکامات کو بے خاطر کرتے ہوئے مسجد شہید کی تھی، اب تو مرکز اور ریاست دونوں جگہ بھگوا پرچم لہرا رہا ہے۔ ایسے میں کیا گیارنٹی ہے کہ آئندہ بھی عدالت کے فیصلہ کا احترام ہوگا۔ جس طرح مسجد منہدم کی گئی ، اسی طرح مندر کی تعمیر کا آغاز ہوسکتا ہے۔ یوگی راج میں ہر چیز ممکن ہے اور سنگھ پریوار کو کھلی چھوٹ مل چکی ہے۔ ویسے بھی یوگی ادتیہ ناتھ عدالت کی پرواہ کئے بغیر عارضی مندر کے درشن کرچکے ہیں ۔ بات جب مندر کی چل پڑی ہے تو مندر کیلئے رتھ یاترا نکالنے والے ایل کے اڈوانی کا حشر دنیا کے سامنے ہے۔ پارٹی میں وہ روزانہ توہین اور بے عزتی کے کڑوے گھونٹ پینے پر مجبور ہیں۔ اپنے وقت کے مرد آہن اڈوانی نے خواب میں بھی اپنوں کے ہاتھوں رسوائی کو نہیں دیکھا ہوگا۔ نریندر مودی نے اس عہدیدار کو اپنے کابینہ میں شامل کرلیا جس نے اکتوبر 1990 ء میں سومناتھ سے ایودھیا جانے والی اڈوانی کی رتھ یاترا کو بہار میں روک دیا تھا اور اڈوانی کو گرفتار کرلیا تھا۔ راج کمار سنگھ نے ضلع مجسٹریٹ کی حیثیت سے جو کارروائی کی، اس کے بعد ہی زعفرانی پارٹی قومی سیاسی منظر میں ایک مضبوط قوت کے طور پر ابھر سکی۔ بعض مبصرین راج کمار سنگھ کی شمولیت کو اڈوانی کی توہین اور انہیں ذہنی اذیت دینے کا ذریعہ قرار دے رہے ہیں لیکن اس معاملہ میں ہماری رائے مختلف ہے۔ اڈوانی کی گرفتاری اور رتھ یاترا کو روکنا دراصل سیول اور پولیس نظم و نسق میں آر ایس ایس کے نمائندوں کی موجودگی کا واضح ثبوت ہے ۔ اگر اڈوانی کو گرفتار نہ کیا جاتا تو وہ قومی ہیرو کس طرح بنتے اور بی جے پی کو ملک میں ابھرنے کا موقع کس طرح ملتا۔ رتھ یاترا کو روک کر بی جے پی کی خدمت کی گئی جس سے دو ارکان پارلیمنٹ کی پارٹی 1996 ء میں 161 ارکان پارلیمنٹ تک پہنچ گئی۔ اسی کارنامہ کے انعام کے طور پر راج کمار سنگھ کو مرکزی وزارت داخلہ میں شامل کیا گیا اور اس وقت اڈوانی ملک کے وزیر داخلہ تھے۔ 2013 ء میں راج کمار نے باقاعدہ بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی ۔ اگر وہ بی جے پی کے ہم خیال اور اڈوانی کے پسندیدہ نہ ہوتے تو وزارت داخلہ میں کیوں شامل کیا جاتا ۔ پارٹی کی سیاسی اڑان کا سبب بننے والے عہدیدار کو مودی نے مرکزی وزارت کا تحفہ پیش کیا۔ الغرض حکومت بھلے ہی کسی پارٹی کی ہو لیکن سیول اور پولیس ایڈمنسٹریشن میں ہر سطح پر آر ایس ایس کے نمائندوں کی موجودگی سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ جہاں ضرورت ہو وہ اپنے عمل سے اس کا اظہار کرتے ہیں۔
مائنمار میں روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی نے دنیا بھر میں حقوق انسانی کے دعویداروں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے لیکن چونکہ متاثرین مسلمان ہیں لہذا اقوام متحدہ اور نام نہاد عالمی طاقتیں صورتحال سے آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں۔ 54 سے زائد مسلم ممالک میں کسی نے برادر کشی کے خلاف کارروائی تو دور کی بات ہے ، مائنمار حکومت سے سخت لہجہ میں گفتگو تک نہیں کی ۔ عالم اسلام میں ترکی کے صدر طیب اردغان واحد مرد مجاہد ہے جنہوں نے نہ صرف وارننگ دی بلکہ پناہ گزینوں کیلئے امدادی کاموں کا آغاز کیا۔ مالدیپ نے مائنمار سے نسل کشی کے خلاف بطور احتجاج تجارتی تعلقات منقطع کرتے ہوئے بڑے عرب دولتمند ممالک کو نئی راہ دکھائی ہے۔ مائنمار کا مسئلہ صرف بیواؤں کی طرح آنسو بہانے اور ماتم کرنے کا نہیں بلکہ یہ ایکشن کا وقت ہے۔ کب تک مسلمان ظلم سہتا رہے گا اور عرب و اسلامی دنیا تماشائی بنی رہے گی۔ ظلم سہنے اور ظلم پر خاموش رہنا دونوں ظالم کی طرفداری کے مترادف ہے ۔ ہندوستان میں مسلم جماعتیں اور تنظیمیں اس مسئلہ پر احتجاجی اجلاس ، جلسے اور مذمتی قراردادوں کا سہارا لے رہے ہیں۔ یقیناً احتجاج ضرور ہونا چاہئے لیکن آسان مسائل پر احتجاج اور حساس مسائل پر ڈر ، خوف اور مصلحت کا شکار کیوں ؟ روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کے خلاف اپنے اپنے مقامات پر روایتی انداز میں مذمت کے بجائے اگر ہمت ہو تو دہلی میں مائنمار کے سفارتخانہ کا گھیراؤ کریں جو حقیقی معنوں میں حمیت کا مظاہرہ ہوگا۔ دنیا بھرمیں یہ پیام جائے گا کہ ہندوستانی مسلمانوں کا جذبہ ایمانی زندہ ہے۔ افسوس کہ ہم نے میٹھا کھانے کی سنت کو تو مضبوطی سے تھام لیا لیکن اللہ کی راہ میں جدوجہد کی سنت کو بھلا بیٹھا۔ عزیمت اور جدوجہد کا راستہ ہی دنیا و آخرت میں سرخروئی کا باعث بنتا ہے۔ مائنمار حکومت کے خلاف بیانات میں چونکہ کوئی جوکھم اور خطرہ نہیں ، لہذا ہر مقرر سینہ سپر ہونے اور قربانی دینے کی باتیں کر رہا ہے لیکن شریعت کے معاملہ میں کمزور بیانات دیئے گئے۔ سپریم کورٹ نے طلاق ثلاثہ پر مخالف شریعت فیصلہ سنایا لیکن سیاسی اور مذہبی قیادتیں اسے مخالف شریعت کہنے سے بھی خائف ہیں اور مصلحت کے نام پر فیصلہ کا خیرمقدم کیا گیا۔ شریعت کے تحفظ کیلئے کسی نے جدوجہد کا اعلان تک نہیں کیا اور مسئلہ کو سلادیا گیا۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کا اجلاس بھی عام حالات کی طرح اپنی پسند کے مقام اور تاریخ پر منعقد کیاجارہا ہے۔ مائنمار میں مسلمانوں پر مظالم کے دوران نریندر مودی اچانک مائنمار پہنچ گئے۔ انہوں نے وہاں کی سربراہ آنگ سان سوچی سے ملاقات میں مسلمانوں پر مظالم کا مسئلہ نہیں چھیڑا اور ان سے یہی امید تھی ۔ برخلاف اس کے انہوں نے مسلمانوں کو انتہا پسند قرار دینے حکومت مائنمار کے موقف کی تائید کی۔ کیا سابق چیف منسٹر گجرات مائنمار میں نسل کشی کے اسٹڈی ٹور پر تھے تاکہ اس بات کا اندازہ ہوجائے کہ ان کے دور میں گجرات میں جو نسل کشی ہوئی وہ سنگین تھی یا مائنمار کی نسل کشی میں شدت ہے۔ مودی سے ملاقات کے ساتھ ہی آنگ سان سوچی نے مائنمار کا تقابل کشمیر سے کردیا تاکہ فوجی کارروائیوں کو حق بجانب قرار دیا جائے۔ انڈونیشیا کی عالمی کانفرنس کے اعلامیہ میں جب نسل کشی کا ذکر کیا گیا تو ہندوستانی وفد نے اس اعلامیہ سے لاتعلقی کا اظہار کردیا۔ اس طرح ہندوستان مذمت توکجا مسلمانوں کی نسل کشی پر اظہار تشویش کیلئے بھی تیار نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ جب گجرات میں مسلمانوں کی ہلاکت پر مودی نے آج تک افسوس نہیں جتایا تو ان کے نمائندے کس طرح مائنمار کے مسلمانوں سے ہمدردی کرسکتے ہیں۔ بی جے پی کے تین سالہ دور حکومت میں مختلف عنوانات سے ہجوم نے مسلمانوں کو کئی مقامات پر قتل کیا لیکن مودی دل سے افسوس بھی نہ کرسکے۔ اس طرح نسل کشی کے معاملہ میں برما کی قیادت اور نر یندر مودی ہم خیال اور ہم مشرب ثابت ہوئے ہیں۔ موجودہ حالات پر کسی شاعر نے کیا خوب ترجمانی کی ہے ؎
یہ حادثات نہ سمجھیں ابھی کہ پست ہوں میں
شکستہ ہوکے بھی ناقابل شکست ہوں میں