محمد مصطفیٰ علی سروری
26 اکتوبر جمعہ کا دن تھا ، تلنگانہ کے ضلع ورنگل کے پوچماں میدان میں واقع شیواسائی مندر میں ستیہ نارائنا نام کا پجاری حسب معمول مندر کے لاوڈ اسپیکر پر بھجن بجا رہا تھا ۔ تبھی سید صادق حسین نام کا ایک نوجوان مندر کے پجاری کے پاس آتا ہے اور پجاری کواپنا مندر کا مائیک بند کرنے کو کہتا ہے ۔ دونوں کی بات چیت جھگڑے کا رخ اختیار کرلیتی ہے جس کے دوران صادق حسین ستیہ نارائنا نام کے اس ضعیف پجاری کو مارپیٹ کا نشانہ بناتا ہے جس کے نتیجہ میں وہ شدید زخمی ہوجاتا ہے ، مقامی عوام پجاری کو زخمی حالت میں دواخانہ لے جاتے ہیں۔ ورنگل کے دواخانے میں دوران علاج ستیہ نارائنا کی طبیعت مزید بگڑ جاتی ہے اور 31 اکتوبر کو پجاری کو بہتر علاج کیلئے حیدرآباد کے نمس دواخانہ میں شریک کردیا جاتا ہے جہاں پر دوران علاج بالآخر مندر کے پجاری کی موت واقع ہوجاتی ہے۔
آر ایس ایس کے ترجمان آرگنائز نے یکم نومبر کو اپنی رپورٹ میں لکھا کہ ’’امام کے حملے میں ورنگل کے پجاری کی موت ‘‘ آرگنائزر کے مطابق حملہ آور سید صادق حسین ایل بی نگر کی ایک مسجد کا امام ہے جس نے بڑی بے دردی کے ساتھ مندر کے پجاری پر حملہ کرتے ہوئے ان کی ہڈیاں تک توڑ دی تھی ، یکم نومبر کو مندر کی پجاری کی موت پر وشوا ہندو پریشد کے ورنگل یونٹ نے صادق حسین کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا ۔
سید ولی اللہ قادری آل انڈیا اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے سابقہ کل ہند صدر ہیں اور ورنگل ہی ان کا آبائی مقام ہے ، ورنگل کے ایک مندرمیں پجاری پر حملہ کی مذمت کرتے ہوئے انہوں نے ایک بیان جاری کیا تھا جس کو کئی مقامی اخبارات نے شائع کیا۔ ان کے مطابق پجاری پر حملہ کرنے والا شخص ذہنی طورپر صحت مند نہیں ، وہ اس حملے کی مذمت کرتے ہیں اور اس حملہ کو مذہب سے نہیں جوڑنے کی اپیل کی ۔ سید ولی اللہ قادری نے بذات خود ایم جی ایم ہاسپٹل پہنچ کر وہاں زیر علاج پجاری کی عیادت کی تھی ۔
قارئین آج کے اس کالم کے آغاز میں جس خبر کا میں نے ذکر کیا ، اس کو پڑھ کر اندازہ ہوگیا ہوگا کہ ایک مسلم نوجوان کے ہاتھوں مندر کے پجاری پرحملہ اور اس حملہ میںپجاری کا زخمی ہوکر دواخانہ شریک کیا جانا اور پھر دواخانے میں دوران علاج پجاری کی موت ہوجانا کس قدر قابل مذمت اور خطرناک واقعہ تھا ۔ مسلمانوں کی اکثریت یہی چاہتی تھی کہ ایک ذہنی معذور شخص کی حرکت کو پورے مذہب والوں کے ساتھ نہ جوڑا جائے اور الحمد اللہ یہ واقعہ کسی دوسرے ناخوشگوار واقعہ کا سبب نہ بنا لیکن اب میں آپ حضرات کی توجہ ورنگل (تلنگانہ) سے تقریباً ایک ہزار پانچ سو باون کیلو میٹر دور واقع مالویہ نگر دہلی سے آنے والی اس خبر کی جانب مبذول کروانا چاہتا ہوں جس کے متعلق اخبار ہندوستان ٹائمز نے یوں سرخی لگائی ۔ "madrasa Student Killed in Scuffle over Playing Space” ہندوستان ٹائمز کے رپورٹر انوت سریواستو کی رپورٹ کے مطابق جمعرات 25 اکتوبر کو جنوبی دہلی کے مالویہ نگر میں ایک علاقہ ہے ، بیگم پور کے نام سے جہاں پر واقع مدرسہ دارالعلوم فریدیہ کے آٹھ سال کے ایک طالب علم کی کھیلنے کی جگہ کو لیکر ہوئے جھگڑے میں موت واقع ہوگئی ۔ پولیس کے حوالے سے رپورٹ میں لکھا ہے کہ جمعرات کی صبح مدرسہ کے طلبہ اور مقامی بچوں کے درمیان مدرسہ کے سامنے والی زمین پر کھیلنے کے مسئلہ کو لیکر جھگڑا ہوگیا ۔ جھگڑے کے دوران مقامی بچوں نے (جی ہاں پولیس کے مطابق یہ سبھی نابالغ ہیں) آٹھ برس کے محمد عظیم کو لڑائی میں دھکیل کر گرادیا جس کے نتیجہ میں اس کی موت واقع ہوگئی ۔
دہلی پولیس نے آٹھ سال کے مدرسہ کے طالب علم کی موت کے الزام میں مقامی بستی کے چار لڑکوں کو گرفتار کرلیا ۔ قارئین دہلی کے مدرسہ فریدیہ کے آٹھ سالہ طالب علم کی موت کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے لیکن کیا بچوں کے درمیان ہوئی اس لڑائی کو بھی ہم ہجومی تشدد (Mob lynching) میں شمار کریں گے ۔ کتنا آسان ہے اردو خبر رساں اداروں ، صحافیوں اور اخبارات کو جلی حروف میں لکھ دیں کہ ہجومی تشدد کی اب مدرسوں پر دستک یا ہجومی تشدد سے اب مدرسہ کے بچے بھی محفوظ نہیں۔
یہاں ایک لمحہ کے لئے ٹھنڈے دل سے غور کریں، ایک مسلم نوجوان مندر کے پجاری پر حملہ کر کے اس کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے اور ہم بڑے ہی پر زور انداز سے اور پورے اصرار کے ساتھ اپیل کرتے ہیں کہ یہ ایک ذہنی معذور شخص کا انفرادی پاگل پن تھا ۔ اس واقعہ کو مسلم قوم اور مذہب سے ہرگز نہ جوڑا جائے۔ دوسری جانب مدرسہ فریدیہ کے طلباء کا مقامی بستی کے بچوں کے ساتھ جھگڑا ہوجاتا ہے اور نابالغ بچوں کے درمیان ہوئے اس جھگڑے میں ایک معصوم کی جان چلی جاتی ہے تو ہم اس واقعہ کو انفرادی طور پر دیکھنے کے بجائے پوری قوم و ملت کی شمولیت کو ضروری سمجھتے ہیں اور مسلمانوں کے نام نہاد دانشور حضرات مدرسہ کے طالب علم کی موت کو پوری مسلم قوم کے خلاف پھیلی نفرت اور فروغ پاتی ہوئی سیاست کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ ذرا سوچئے گا؟
یاد رکھئے گا مدہب کے نام پر عوام کو بانٹنا بڑا آسان کام ہے اور ایک تعمیری و مثبت سوچ رکھنے والی سرخی بنانا بڑا مشکل کام ہے ۔ لوگوں کو بانٹنے اور مسلمانوں کو نشانہ بنانے دشمنان قوم وملت جٹے ہوئے ہیں تو آپ خود تو ہوش کے ناخن گنیں۔ اردو اخبارات میں سنسنی خیز مواد چھاپ کر بعض احباب قانون ساز اداروں میں بھی جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئے اور اب اپنے ٹوئیٹر اکاؤنٹ سے لوگوں کے درمیان غلط فہمیوں کو بڑھاوا دینے کا گویا بیڑہ ہی اٹھالیا ہے۔ ’’کانگریس مسلمانوں کی جماعت‘‘ کہہ کر راہول گاندھی کی بات کا بتنگڑ بنایا گیا ۔ اب آٹھ سالہ مدرسہ کے طالب علم کے قتل پر قلم چلاکر پوری مسلم قوم کا اپنے آپ کو ٹھیکہ دار ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔
قارئین حضرات واقعی موجودہ وقت پورے ملک ہندوستان اور پوری قوم یعنی ہندوستانیوں کیلئے بڑا نازک ہے۔ ملک اور قوم کو بڑ ے بڑے چیالنجس درپیش ہیں، اس پس منظر میں ہندوستانیوں کو جوڑنے کی صحافت اور سیاست کرنے کی ضرورت ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے لکھا تھا کہ ’’آج اگر ایک فرشتہ آسمان کی بدلیوں سے اتر آئے اور دہلی کے قطب مینار پر کھڑے ہوکر اعلان کردے کہ سواراج 24 گھنٹے کے اندر مل سکتا ہے۔ بشرطیکہ ہندوستان ہندو مسلم اتحاد سے دستبردار ہوجائے تو میں سواراج سے دستبردار ہوجاؤں گا مگر اس سے دستبردار نہیں ہوں گا کیونکہ سواراج ملنے میں تاخیر ہوئی تو یہ ہندوستان کا نقصان ہوگا لیکن اگر ہمارا اتحاد جاتا رہا تو یہ عالم انسانیت کا نقصان ہوگا‘‘۔ (بحوالہ مولانا ابوالکلام آزاد جدید ہندوستان کے معمار صفحہ نمبر 56 )
ملک کی ترقی ہندوستانیوں کی ترقی اور مسلمانوں کی ترقی کیلئے آج بھی مولانا آزاد کی کہی بات صد فیصد لاگو ہوتی ہے ۔ ہندو مسلم اتحاد اگر جاتا رہا تو یہ عالم انسانیت کا نقصان ہوگا ۔
قارئین ذرا اس خبر کو یاد کیجئے جب دہلی ہائیکورٹ نے 1987 ء کے ہاشم پورہ میں 42 مسلمانوں کے قتل عام پر فیصلہ دیتے ہوئے اترپردیش کی (PAC) سے وابستہ 16 پولیس افسران کو سزائے عمر قید سنائی۔ حالانکہ ہاشم پورہ کے قتل عام کے متاثرین کو انصاف ملنے کیلئے (31) برس کا طویل عرصہ لگ گیا مگر اخبار انڈین اکسپریس کے فوٹو جرنلسٹ پروین جین کی عدالت میں بحیثیت گواہ پیشی اور ان کے فوٹوز کے نگیٹیوز کی پیشکشی کے بعد یہ بات ثابت ہوئی کہ 22 مئی 1987 ء جن 42 مسلمانوں کا قتل ہوا وہ بے قصور تھے اور پولیس کی گولیوں سے مارے گئے ۔ یوں انصاف کی راہ ہموار ہوئی ۔ پروین جین نے اس بات کو جاننے کے بعد بھی کہ پی اے سی نے جن (42) لوگوں کو گولی ماری وہ سب کے سب مسلمان تھے ، پولیس کے خلاف عدالت میں گواہی دینے آمادگی ظاہر کی ۔ پروین جین نے پولیس اور فوج کی اس کارروائی کی بھی تصویر کشی کی جب پولیس … مسلم نوجوانوں کوٹرکوں میں بھرکر لے جارہی تھی ، پر وین جین نے مسلم نوجوانوں کو گھروں سے اٹھالئے جانے کی تصاویر لینے مار بھی کھائی ، دھمکی بھی سنی اور تو اور جب (31) برسوں کے دوران مسلمانوں کے قتل عام کا مقدمہ مختلف عدالتوں میں چلتا رہا تب بالکلیہ رضاکارانہ طور پر اپنی تصاویر کو نہ صرف عدالت میں پیش کیا بلکہ گواہی دینے کیلئے بھی آگے آئے (بحوالہ دی سٹیزن رپورٹ 15 نومبر 2018 ئ)
5 ڈسمبر 1992 ء کو جب ایودھیا میں بابری مسجد کے انہدام کی ڈرل مشق کی جارہی تھی ، اس وقت بھی پروین جین بھیس بدل کر کارسیوکوں کے ساتھ ڈرل میں شامل ہوگئے اور ایسی تصاویر لی جس سے ثابت ہوتا ہے کہ بابری مسجد کا انہدام ایک منصوبہ بند سازش ہے ۔ پروین جین بابری مسجد انہدام کیس میں بھی ایک اہم عینی شاہد ہیں (12 نومبر 2018 ء وندنا کرلاکی اخبار انڈین اکسپریس میں رپورٹ)
اس وقت ملک میں بے چینی اور بدامنی کا ماحول کسی ایک کے لئے نہیں بلکہ پوری ہندوستانی قوم کیلئے تشویش کا باعث ہے ، اس ملک میں پروین جین کی طرح بے شمار غیر مسلم حضرات ہیں جو مسلمانوں کی حق تلفی اور ان کے ساتھ ظلم و زیادتی پر نہ صرف آواز اٹھا رہے ہیں بلکہ قانونی چارہ جوئی کا سامان فراہم کر رہے ہیں۔
فرقہ پرست اور نفرت کے علمبرداروں کا طبقہ بہت چھوٹا ہے اس طبقے میں سبھی برادران وطن کو شامل کرنا حماقت ہے۔ قارئین میں آپ کو لوگوں کو بتاؤں کہ گجرات کے بدنام زمانہ جس فرضی انکاؤنٹر میں سہراب الدین کو مارا گیا تھا ، اس کا بھانڈابھی وی ایل سولنکی نام کے گجرات پولیس کے ایک ہندو افسر نے پھوڑا تھا۔ گجرات کے سال 2002 ء کے فسادات کی لڑائی کون لڑ رہا ہے ، سب جانتے ہیں ۔ غیر مسلم برادران وطن انصاف کی لڑائی میں مسلمانوں کے ساتھ ہر اول دستہ کا رول نبھا رہے ہیں۔ خاص طور پر ایسے ماحول میں جب ملک میں انتخابات کا بخار بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے۔ مسلمان صرف مذہب کی بنیادوں پر اتحاد کا راگ الاپنا چھوڑیں کیونکہ دو الگ باتوں کو غلط ملط کرنا کسی طرح بھی صحت مند نہیں۔ ہاں مسلمانوں میں آپسی اتحاد ضروری ہے ایک ایسی قوم جو اقلیت کا موقف رکھتی ہے ، مذہب کی بنیادوں پر میدان سیاست میں کام کرنے لگے تو اکثریت کو بھی مذہب کے نام کا استعمال کرنے سے روکنا دشوار ہوجائے گا۔ مولانا آزاد توملک کو ایسی آزادی نہیں دلانا چاہتے تھے جہاں آزادی تو مل جائے مگر ملک کی عوام مذہب کے خانوں میںبٹ جائیں ۔ ان کے مطابق تو یہ عالم انسانیت کا نقصان ہوگا ۔ قارئین براہ کرم ہر واقعہ کو مذہب کی عینک سے دیکھنا بند کریں اورا پنے دلوں اور دماغ کے میل کو صاف کریں کہ بین مذہبی بھائی چارگی کی کہیں ضرورت ہو نہ ہو میدان سیاست میں اشد ضروری ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ہر طرح کے شر سے محفوظ رکھے اور اپنے سچے دوستوں کی پہچان کرنے اور ان کی قدر کرنے والا بنادے (آمین یا رب العالمین) بقول الطاف حسین حالی ؎
یہی ہے عبادت یہی دین و ایمان
کہ کام آئے دنیا میں انسان کے انسان
sarwari829@yahoo.com