یہاں گناہ ہوا کے چھپائے جاتے ہیں

رشیدالدین

مسلم پرسنل لا پر سوال… قیادتیں خاموش
رام مندر مسئلہ پر زعفرانی بریگیڈ متحرک
پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل ہوتے ہی سنگھ پریوار ملک پر زعفرانی ایجنڈہ مسلط کرنے کا کوئی بھی موقع گنوانا نہیں چاہتا۔ حکومت کی سرپرستی میں نفرت کے پرچارکوں کو کھلی چھوٹ مل چکی ہے۔ لوک سبھا نے پہلی مرتبہ بی جے پی کو اس قدر اکثریت حاصل ہوئی۔ لہذا آر ایس ایس اور سنگھ پریوار نے مخصوص ذہنیت سے ملک کو رنگنے کیلئے اپنی تمام تنظیموں کو متحرک کردیا ہے۔ سنگھ پریوار کو یقین ہے کہ آئندہ پھر کبھی اس قدر اکثریت حاصل نہیں ہوگی، لہذا جو بھی خفیہ ایجنڈہ ہے ، اس کو ہر طرح سے نافذ کرنے کی تیاری ہے۔ رام مندر، یکساں سیول کوڈ ، شریعت میں تبدیلی، نان و نفقہ حتیٰ کہ تبدیلی مذہب اور دینی مدارس کے نام پر تنازعات کو ہوا دی جارہی ہے۔ مقصد صرف ایک ہے کہ مسلمانوں کے دینی اور ملی تشخص کو ختم کیا جائے، ان میں عدم تحفظ اور احساس کمتری کا جذبہ پیدا کرتے ہوئے یہ باور کرایا جائے کہ وہ ہندوستان میں دوسرے درجہ کے شہری ہیں۔ انہیں ہمیشہ اکثریتی آبادی کا احسان مند ہونا پڑے گا۔ دستور نے اقلیتوں کو بھلے ہی مذہبی آزادی دی ہے لیکن یہ حکومت کی صوابدید پر منحصر ہے کہ کب تک عمل کرے۔ کچھ اسی طرح کے جذبات کے ساتھ سنگھ پریوار ملک پر مخصوص ذہنیت کو تھوپنے کیلئے بے چین ہے۔ وقفہ وقفہ سے مختلف عنوانات کے ذریعہ اقلیتوں پر مظالم اور فسادات جیسے تجربات کئے گئے۔ اب تو دینی مدارس پر بھی بری نظریں پڑنے لگی ہیں۔ سنگھ پر یوار نے نظم و نسق ، پولیس حتیٰ کہ عدلیہ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور اپنے ہم خیال افراد کو ہر سطح پر شامل کردیا گیا ۔ ان تمام سرگرمیوں کے دوران وزیراعظم نریندر مودی کی خاموشی دراصل ان کی تائید ہے۔ وہ صرف زبانی طور پر مذہبی رواداری اور سب کا ساتھ سب کا وکاس جیسی باتیں کرتے رہے اور آگے بھی کرتے رہیں گے لیکن ہوگا وہی جو ناگپور ہیڈکوارٹر چاہے گا۔ گزشتہ 20 ماہ میں نریندر مودی نے خود کو ایک سچا اور حقیقی سیوئم سیوک ثابت کیا ہے۔ مسلمانوں سے متعلق کسی بھی مسئلہ پر انہوں نے منہ نہیں کھولا۔

مسلمانوں پر مظالم اور ناانصافی کے معاملات کو درکنار وہ عید کی مبارکباد میں بھی کنجوسی دکھاتے رہے۔ ہاں مودی کو دیگر ممالک کے مسلم حکمرانوں سے بڑی محبت ہے۔ کسی کی سالگرہ پر پہنچ جاتے ہیں تو کسی کو تین ماہ قبل ہی سالگرہ کی مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ آئندہ ماہ وہ سعودی عرب جارہے ہیں۔ وہاں بھی اپنی اداکاری کے خوب جوہر دکھائیں گے۔ مسلم حکمرانوں سے جب اس قدر اظہار محبت اور وارفتگی ہے تو اس کا 10 فیصد بھی مسلمانوں کے ساتھ کیا جاتا تو عدم رواداری کے واقعات روکے جاسکتے تھے۔ نریندر مو دی مسلم سربراہان مملکت کو ایک گمشدہ دوست کی طرح گلے لگاتے ہیں لیکن شائد ہی کسی ہندوستانی مسلمان کو انہوں نے آج تک گلے لگایا ہو۔ حتیٰ کہ بی جے پی سے وابستہ مختار عباس نقوی اور شاہنواز حسین کو بھی یہ موقع نہیں ملا ہوگا۔ ہندوستان میں مذہبی آزادی کے دعوے ضرور ہیں لیکن امریکی ادارہ کو ویزا دینے سے انکار کردیا گیا۔ شائد اس خوف کے تحت کہیں مذہبی آزادی کی اصلیت آشکار نہ ہوجائے۔ شریعت اسلامی اور شعائر اسلام پر حملوں کے واقعات میں اضافہ ہوچکا ہے، جس کا مقصد امت مسلمہ کو دین سے دور کردینا ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ کوئی بھی قوم دین سے دوری کے نتیجہ میں نہ صرف گمراہی کا شکار ہوجاتی ہے بلکہ تباہی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ دینی ، ملی اور مذہبی تشخص کو پارا پارا کرنے کیلئے شریعت کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ ملک کی عدالتوں میں شریعت اسلامی کے خلاف فیصلوں کا صادر ہونا معمول بن چکا ہے ۔ شریعت کی غلط تاویل پیش کرتے ہوئے کئی ججیس نے یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کی سفارش کردی ۔ طلاق ، نان نفقہ اور دیگر مسائل میں شریعت کے خلاف جو فیصلے عدالتوں کے منظر عام پر آئے ہیں، انہیں چیلنج کرنے کی مثالیں بہت کم ہیں جس کے باعث عدلیہ کی تاریخ میں مخالف شریعت فیصلے دوسرے ججس کیلئے مثال بن رہے ہیں ۔ گزشتہ دنوں کیرالا ہائیکورٹ کے ایک جج نے تو حد کردی، مسلمان ہونے کے باوجود شریعت کی تمام حدود کو پھلانگتے ہوئے جج نے مرد کی طرح عورت کو چار شوہر رکھنے کے حق پر سوال اٹھایا۔ ہائیکورٹ کے مذکورہ جج نے یا تو شریعت اسلامی اور قرآن کا مطالعہ نہیں کیا یا پھر وہ خود ساختہ دانشور اور خدا بیزار شخصیت ہیں، جن کیلئے شرعی قوانین کا مذاق اڑانا کوئی بری بات نہیں۔ کل تک اسلام میں خواتین سے ناانصافی کا راگ الاپنے والی دنیا آج اسلام کی حقانیت کو تسلیم کرنے لگی ہے۔ اسلام نے عورت کو جو مقام دیا ہے، اس کا اعتراف دنیا کرنے لگی ہے۔ دنیا کے کسی بھی مذہب نے عورت کو وہ درجہ ، مقام ، عزت و اکرام اور رتبہ و احترام نہیں دیا جو کہ اسلام نے دیا ہے۔ اسلام کو اسی لئے دین فطرت بھی کہا جاتا ہے جبکہ دیگر مذاہب میں خاص طور پر یوروپی سماج میں عورت  محض ایک کماڈیٹی کے سواء کچھ نہیں۔ ایک مسلم جج نے شریعت کو چیلنج کردیا اور افسوس کہ مسلمانوں کی مذہبی اور سیاسی قیادتیں خاموش ہیں۔ اس طرح کے تبصرہ سے نہ صرف مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں بلکہ شریعت کی توہین ہوئی ہے۔ اس طرح کا مطالبہ کرنے والوں سے کوئی پوچھے کہ چار باپ میں وہ اپنے حقیقی باپ کا تعین کس طرح کریں گے؟ جج جیسے ذمہ دار عہدہ پر فائز ہوتے ہوئے اس طرح کا بیان جج کی حیثیت سے لئے گئے حلف کی خلاف ورزی ہے۔ جج بھی قانون سے بالاتر نہیں اور ان کا کام فیصلے درخواست گزاروں کی شریعت کے مطابق دینا ہے۔ لہذا وہ ہر مذہب کے پرسنل لا کے احترام کے پابند ہیں۔

مسلم پرسنل لا بورڈ کے ذمہ داروں کو چاہئے کہ وہ  نہ صرف اس گمراہ کن ذہنیت کا جواب دیں بلکہ قانون کے دائرہ میں قانونی کارروائی کے امکانات تلاش کریں تاکہ مستقبل میں اس طرح کے بیانات کو روکا جاسکے۔ انصاف کی کرسی پر فائز ہونے کے بعض حدود اور ضابطہ اخلاق ہیں۔ جج کے اس بیان پر مسلم اکابرین نے آج تک بیان جاری نہیں کیا۔ کیا شریعت اسلامی کے تحفظ کے دعوے یہی ہیں کہ صرف جلسے اور سمینار کرتے ہوئے قرارداد منظور کی جائے۔ دین اور شریعت کا تحفظ جدوجہد کا متقاضی ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ جو مسلمانوں کا نمائندہ ہے اس کے اکابرین کو ہنگامی اجلاس طلب کرنا چاہئے۔ کیا مسلم پرسنل لا بورڈ محض اصلاحی ادارہ میں تبدیل ہوچکا ہے کہ موقع ملنے پر اسلامی معاشرہ کی مہم چلائی جائے اور پھر خاموشی ۔ بورڈ کے اکابرین کو ادارہ کے قیام کے مقاصد کی طرف پلٹنا ہوگا۔ اب غیر نہیں خود اپنے بھی شریعت کا مذاق بنارہے ہیں۔ کیا اب بھی جاگنے کا وقت نہیں آیا۔ آج ان اکابرین کی کمی شدت سے محسوس کی جارہی ہے جنہوں نے شاہ بانو کیس میں سپریم کورٹ میں مخالف شریعت فیصلے کے خلاف ملک گیر سطح پر ایسی مہم چلائی تھی کہ راجیو گاندھی حکومت کو شریعت کے مطابق دستور میں ترمیم کیلئے مجبور ہونا پڑا۔ آج ہمیں شریعت کے تحفظ کیلئے اسی طرح کے بے لوث اور مخلص اکابرین پر مبنی قیادت کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف ملک میں پانچ ریاستوں کے مجوزہ اسمبلی انتخابات کے پیش نظر بی جے پی رام مندر مسئلہ کو ہوا دے رہی ہے، تاکہ ٹاملناڈو ، آسام اور مغربی بنگال میں فائدہ ملے۔ جن پانچ ریاستوں کیلئے انتخابات ہونے جارہے ہیں، ان میں ایک بھی ریاست بی جے پی زیر اقتدار نہیں اور نہ ہی کسی ریاست میں برسر اقتدار آنے کے امکانات ہیں۔ بی جے پی تین ریاستوں میں موقف بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کر رہی ہے۔ رام مندر مسئلہ کو ہوا دینے کا مقصد آئندہ سال اترپردیش انتخابات کی تیاری ہے۔ متنازعہ موضوعات کے ذریعہ ریاستوں میں اقتدار کا خواب دیکھنے والی بی جے پی شائد یہ بھول رہی ہے کہ وہ صرف 33 فیصد ووٹ سے مرکز میں برسر اقتدار ہے۔ لوک سبھا انتخابات میں 67 فیصد عوام نے مخالفت میں ووٹ دیا تھا۔ رام مندر کی تعمیر کیلئے ڈاکٹر سبرامنیم سوامی کو میدان میں اتارا گیا جو تنازعات کو ہوا دینے میں شہرت رکھتے ہیں۔ انہوں نے اس سلسلہ میں سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی جسے سماعت کیلئے قبول کرلیا گیا۔ اگر مسلمان خواب غفلت کا شکار رہیں تو عدالت کا فیصلہ کچھ بھی آسکتا ہے۔ ویسے تو ایودھیا میں عدالت کے حکم پر عارضی مندر قائم ہے اور پوجا پاٹ کی اجازت بھی دی گئی۔ سبرامنیم سوامی کی درخواست پر مسلم جماعتوں میں سناٹا ہے اور کوئی بھی اس صورتحال کی سنگینی اور نزاکت کو محسوس کرنے تیار نہیں۔ کہاں ہیں بابری مسجد ایکشن اور رابطہ کمیٹیوں کے ذمہ دار؟ مسلم پرسنل لا بورڈ میں بابری مسجد کمیٹی آخر کیا کر رہی ہے۔

ان کمیٹیوں سے وابستہ ایک ذمہ دار نے اترپردیش میں سرکاری عہدہ قبول کرلیا ہے۔ مسلمان یہ جاننا چاہتے ہیں کہ بابری مسجد مقدمہ میں کیا پیروی کی جارہی ہے۔ سبرامنیم سوامی کی درخواست کے خلاف کوئی اپیل کی گئی یا نہیں۔ سبرامنیم سوامی کی اس اپیل کو غیر اہم اور معمولی تصور کرنا قیادتوں کی بھول ہوگی کیونکہ وہ شخصیت اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہرافشانی اور عدالتوں سے رجوع ہونے کا طویل ریکارڈ رکھتی ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ سنگھ پریوار نے رام مندر مسئلہ پر انہیں آگے کردیا ہے۔ یہ وہی سبرامنیم سوامی ہیں جنہوں نے مسلمانوں کو حق رائے دہی سے محروم کرنے کیلئے عدالت میں درخواست دائر کی تھی۔ انہوں نے یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کی تائید کی اور 6 ڈسمبر 1992 ء کو بابری مسجد کی شہادت سے قبل ہی انہوں نے مسجد کو شہید کرنے کا اشارہ دیا تھا۔ اس طرح سنگھ پریوار سے ان کی قربت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ سبرامنیم سوامی وہ شخص ہیں جنہوں نے اس وقت اسرائیل کا دورہ کیا جب ہندوستان کے سفارتی تعلقات قائم نہیں ہوئے تھے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ اور دیگر سیاسی قیادتوں کو چاہئے کہ وہ شریعت اور بابری مسجد جیسے معاملات میں عدالتوں میں جاری کارروائیوں پر نہ صرف نظر رکھیں بلکہ مخالفت میں اپیل دائر کرتے ہوئے سازشوں کو ناکام بنائیں۔ منظر بھوپالی نے کیا خوب کہا ہے   ؎
یہاں گناہ ہوا کے چھپائے جاتے ہیں
چراغ خود نہیں بجھتے ، بجھائے جاتے ہیں