غضنفر علی خان
عام انتخابات ہوں کہ اسمبلی انتخابات ان میں ملک کے حالات بدل جاتے ہیں۔ سچ جھوٹ اور جھوٹ سچ بناکر پیش کیا جاتا ہے ۔ رائے دہندوں کے آگے یہ مسئلہ ہوتا ہے کہ وہ کس کی بات صحیح سمجھے اور اس بنیاد پر کس پارٹی کو ووٹ دے۔ اس مرتبہ اترپردیش کے چناؤ غیر معمولی اہمیت کے حامل ہوگئے ہیں کہ خود بی جے پی اور پارٹی کے صدر امیت شاہ کے علاوہ وزیراعظم نریندر مودی نے ان چناؤ کو زندگی کی ہار اور جیت کا مسئلہ بنالیا ہے ۔ خاص طور پر ان دونوں لیڈروں نے مہم کے دوران نہ تو اس بات پر غور کیا کہ وہ کیا زبان استعمال کر رہے ہیںاور نہ یہ بات ان کے زیر غور رہی کہ اصل انتخابی مسائل کیا ہیں۔ کن باتوں کا ذکر کرنا چاہئے اور کن باتوں کو کہنے سے جمہوریت کے اس سب سے بڑ ے عمل یعنی انتخابات پر مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ امیت شاہ تو یہ کہہ کر اپنا دامن بچالیں گے کہ انہوں نے کوئی بات خلاف دستور یا انتخابی ضابطہ اخلاق کے برعکس نہیں کہی لیکن وزیراعظم اتنا آسانی سے اس الزام سے نہیں بچ سکتے کہ انہوں نے ذات پات اور مذہب کے حوالوں کا اپنی تقاریر میں غلط استعمال کیا۔ مجموعی حیثیت سے اترپردیش کی انتخابی مہم غیر معیاری اور خلاف ضابطہ اظہار خیال کے لئے یاد رکھی جائے گی ۔ مثال کے طور پر وزیراعظم کا مہم کے دوران یہ کہنا کہ ’’اکھلیش یادو کی حکومت در پردہ مسلم اقلیت کی خوشنودی کر رہی ہے اس کے لئے انہوں نے مثال بھی غلط پیش کی اور کہا کہ جس طرح ماہ رمضان میں برقی یا بجلی کی سربراہی بلا توقف ہوتی ہے۔ اسی طرح ہندو تہواروں کے موقع پر بھی ہونی چاہئے۔ کوئی مثال انہوں نے نہیں دی کہ اترپردیش کے کس ضلع میں کس گاؤں میں رمضان کے مہینے میں کٹوتی کے بغیر بجلی فراہم کی گئی یا یہ کہ کہاں کس دیہات یا شہر میں بجلی دیوالی یا اور تہوار کے موقع پر سپلائی نہیں ہوئی ۔ ان کا یہ کہنا کہ جس طرح مسلم قبرستانوں کیلئے جگہ فراہم کی جاتی ہے اس طرح سے ہندو شمشان گھاٹ کیلئے بھی زمین فراہم کی جائے۔ یہاں بھی انہوں نے برائے نام سہی یہ نہیں بتایا کہ ریاست اترپردیش میں وہ کونسے مقامات ہیں جہاں شمشان گھاٹ کے لئے زمین نہیں دی گئی یا ایسے مقامات کیلئے حکومت نے دوسرے فرقہ سے کوئی خاص رعایت برتی ہے۔
علاوہ ازیں ایسی غیر معیاری بات کا کہنا وزیراعظم کیلئے قطعی مناسب نہیں۔ وہ صرف کسی ایک طبقہ کے لیڈر نہیں ہیں بلکہ ہندوستان کے عوام کے منتخب کردہ وزیراعظم ہیں مزید یہ کہ یہ دعویٰ (جو انہوں نے کیا ہے) کوئی بنیاد نہیں رکھتا۔ اگر اس سے کوئی فائدہ ہوتا ہے تو بی جے پی کے خیال میں اکثریتی طبقہ کی ہمدردیاں بٹورنے کا ہی فائدہ ہوسکتا اور یہ طرز عمل ہر لحاظ سے غلط ہے۔ انتخابی مہم میں تقاریر مسائل کی بنیادوں پر کی جاتی ہیں۔ یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کس طبقہ کی آخری منزل کیلئے جگہ ہے یا جگہ نہیں ہے ۔ یہ بات خاص طور پر وزیراعظم نے کہی کہ انتخابی مہم کا گراف گرادیا ہے ۔ اگر وہ خود مہم کے سربراہ ہوکر ایسی چھوٹی باتیں کرتے ہیں تو پھر پارٹی کے دوسرے لیڈر جو ہمیشہ ہی مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے ہیں ، کس حد تک جاسکتے ہیں، اترپردیش میں ذات پات ، مذہب اور عقیدے کی بنیاد پر ووٹوں کے حصول کی تدبیر کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ نئی بات یہ ہے کہ خود مودی جی نے اس کی شروعات کیں۔ اس تمام کوشش کے دوران مختلف پا رٹیوں کے لیڈروں نے شخصی حملہ کرنے کا موقع نہیں کھویا۔ وزیراعظم نے بھی ایس پی کو مایاوتی کی ’’سمپتی پارٹی‘‘ قرار دیا تو مایاو تی نے وزیراعظم پرالزام لگایا کہ وہ فرقہ پرستی کو ہوا دے رہے ہیں۔ پتہ نہیں کون صحیح ہے اور کون غلط لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ تقریباً تمام پارٹیوں کے لیڈروں نے ایسی زبان اور ایسے الزامات ایک دوسرے پر عائد کئے ہیں جن پر سوائے افسوس کہ کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ 68 سال میں ہماری جمہوری قدریں کہاں سے کہاں پہونچ گئی اس بات پر تاسف کرنے والا بھی کوئی نہیں رہا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اخلاقی قدروں کا تصور ہی بدل گیا ہے ۔ اب دوسروں کی تذلیل کرنا بھی جائز کہلانے لگا ہے ۔ پہلے ایسا ہوتا تھا کہ الفاظ کے استعمال میں حد درجہ احتیاط برتی جاتی تھی ۔ دوسروں کی دل آزاری کرنے سے گریز کیا جاتا تھا ۔ ایک دوسرے سے صرف نظریاتی اختلاف کیا جاتا تھا ۔ پارٹیوں کی پالیسیوں پر بحث ہوا کرتی تھی ۔ کبھی شخصی تنقید نہیں کی جاتی تھی۔ اب نظریات ہی بدل گئے ہیں۔ شخصی حملوں اور خاندانوں کے نجی مسائل کو موضوع بحث بنایا جارہا ہے ۔ کون کس کا رشتہ دار ہے اسکو دیکھتے ہوئے انتخابات سے بے تعلق افراد کا بھی پوسٹ مارٹم کیا جارہا ہے ۔ کہاں تک روکے اس انحطاط کو ، اس اخلاقی پستی کو ۔ راقم الحروف کو اس اخلاقی ابتذال کا صد افسوس کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی خوف ہوتا ہے کہ آخر انتخابی مہم میں ساری سیاسی پارٹیوں کی یہ بے راہ روی ہمیں کہاں تک لے جائے گی ۔ ہم کس حد تک گرسکتے ہیں ۔ پارٹیوں میں انتخابات میں مقابلہ آرائی ہوتی ہے ۔ ہونا بھی چاہئے لیکن کچھ تو ملک کے دستور ، قانون اور انتخابی ضابطہ اخلاق کا پاس و لحاظ رکھنا چاہئے ۔ الیکشن کمیشن سے کوئی نہ کوئی پارٹی دوسری پارٹی کے خلاف شکایت کرتی ہے اور الیکشن کمیشن اپنی دستوری حیثیت کے مطابق کارروائی بھی کرتا ہے ۔ اس سے کچھ نہیں ہوگا۔ الیکشن کمیشن کا کیا قصور ہے ، وہ اپنے فرائض بحسن و خوبی انجام دے رہا ہے ۔
انتخابی مہم کے دوران فرقہ وارانہ جذبات کو مشتعل کرنے سے باز رکھنے کیلئے کمیشن ہر وقت پا رٹیوں کے دفاتر پر موجود تو نہیں رہ سکتا ۔ یہ خود ہماری سیاسی پارٹیوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے اپنے دامن میں جھانک کر دیکھیں اور اپنے اندر یہ حوصلہ پیدا کریں کہ کس طرح اپنی غلطی کا اعتراف کیا جاسکتا ہے۔ یہ حوصلہ جب تک سیاسی پارٹیوں میں پیدا نہیں ہوگا (اپنی غلطی کے اعتراف کا) تب تک کسی قسم کے سدھار کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ۔ اخلاقی گراوٹ نے گزشتہ چند برسوں میں تو اپنی حدیں پار کرلیں۔ یہ بھی پار ٹیوں کا شرمناک تضاد ہے کہ جب کبھی پارلیمنٹ یا اسمبلی میں ان کے اپنے مفادات کی بات آتی ہے جب کبھی سیٹنگ الاؤنس یا تنخواہوں ، بھتے اور دیگر مراعات میں اضافہ کی بات ہوتی ہے تو یہی پارٹیاں جو چناؤ مہم میں ایک دوسرے کے خون کی پیاسی تھیں باہم شیر و شکر ہوجاتی ہیں کیونکہ یہ ان کے ذاتی مفاد کا مسئلہ ہے ۔ یہاں نہ نظریاتی اختلافات کوئی رکاوٹ بنتے ہیں اور نہ کوئی دوسری اڑچن آڑے آتی ہے ۔ سب ایک زبان ہوکر اپنے مفادات کی حمایت کرتی ہیں۔ یہ عجب خودغرضانہ دوستی ہے کہ قومی مفادات کے تعلق سے تو سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کا گریباں ناپتی ہیں۔ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتیں ہیں لیکن اپنے مفاد کے تحفظ کے لئے ایک ہوجاتی ہیں ۔ قومی مسائل پر دشمنی کی حد تک اختلاف اور ذاتی مفادات کیلئے بلا شرط ایک دوسرے سے بھرپور تعاون بھی ہماری سیاسی پارٹیوں کی دو عملی کی تصویر ہے۔ اس گھٹیا انداز کو روز بروز عروج و فروغ مل رہا ہے اور پارلیمانی جمہوریت کی اعلیٰ و شریفانہ اقدار کو ہر روز زوال آمادہ کیا جارہا ہے۔