یو پی میں باپ، بیٹے کی لڑائی، پھر صلح صفائی

محمد ریاض احمد

سیاسی لحاظ سے ہندوستان کی اہم ترین ریاست اترپردیش میں حکمراں سماج وادی پارٹی میں ایسی پھوٹ پڑگئی تھی جس کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی ۔ اترپردیش میں فی الوقت باپ اور بیٹا ایک دوسرے کے مقابل آگئے تھے ۔ ایس پی سربراہ ملائم سنگھ یادو نے اپنے فرزند اور چیف منسر اکھلیش یادو کو پارٹی سے 6 سال کیلئے خارج تک کردیا اور آئندہ چند دنوں میں وہ عہدہ چیف منسٹری سے اکھیلیش یادو کو ہٹاکر کسی اور کے نام کا اعلان کرنے والے تھے ۔ لیکن اس نازک مرحلہ پر اعظم خان نے آگے بڑھ کر باپ اور بیٹے میں صلح صفائی کرادی جس کے ساتھ ہی بی جے پی اور سنگھ پریوار میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی۔ اکھیلیش یادو نے 403 رکنی اسمبلی میں کم از کم 200 سے زائد ارکان اسمبلی کی تائید حاصل ہونے کا دعوی کردیا تھا ۔ اکھیلیش یادو کے کیمپ کا یہ بھی دعوی تھا کہ ریاستی اقتدار پر اکھیلیش کی گرفت مضبوط ہے ۔ اگرچہ ملائم سنگھ یادو اور کھیلیش دونوں کیمپ زیادہ سے زیادہ ارکان اسمبلی کی تائید حاصل ہونے کا دعوی کررہے تھے لیکن آثار و قرائن سے ایسا لگ رہا تھا کہ گورنر اکھیلیش یادو کو اسمبلی میں اکثریت ثابت کرنے کا موقع فراہم کریں گے اور اگر’ اُوپر‘ سے کوئی اشارہ ملتا  تو سماج وادی پارٹی کے دونوں گروپوں کو عین انتخابات سے قبل بے اثر کرنے کیلئے ریاست میں صدر راج قائم کردیا جائے گا ۔ یو پی جیسی اہم ترین ریاست میں اقتدار کیلئے باپ اور بیٹے کی رسہ کشی سے یہ بات واضح ہوگئی ہیکہ ہمارے ملک کی سیاست انتہائی گندی ہوگئی ہے اس قدر گندی کہ اس کے اکھاڑے میں اب  باپ بیٹا بھی ایک دوسرے کے خلاف کود پڑے ہیں اور سرعام ایک دوسرے کا گریباں پکڑ کر ایک دوسرے کی عزت اچھال رہے ہیں اور یہ سب کچھ حصول اقتدار کیلئے ہورہا ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہیکہ آخر سماج وادی پریوار میں پھوٹ کیوں اور کیسے پیدا ہوئی اس کیلئے کون ذمہ دار ہیں ؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کے جواب اعظم خان جیسے سینئر ایس پی لیڈر سے لیکر چیف منسٹر اکھیلیش یادو اور ان کے حامیوں کے پاس ہی ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو سماج وادی پارٹی میں نیتاجی ( ملائم سنگھ یادو )  نے امر سنگھ کو جب سے دوبارہ پارٹی میں شامل کیا

اور انہیں رکن راجیہ سبھا منتخب کروایا تب سے ہی اختلافات کا آغاز ہوا ویسے بھی امر سنگھ سیاسی جوڑ توڑ کیلئے کافی بدنام ہیں ۔ سماج وادی پارٹی کے  کٹر حامیوں کے خیال میں امر سنگھ کے باعث ہی ایس پی پھوٹ کا شکار ہوئی ہے اور امر سنگھ کو شائد امیت شاہ نے ایک خاص مشن کی تکمیل کیلئے سماج وادی پارٹی میں شامل کروایا اس لئے کہ سماج وادی پارٹی میں پھوٹ کا سب سے زیادہ فائدہ کانگریس یا مایاوتی کی بی ایس پی کو نہیں بلکہ بی جے پی کو ہوگا ۔ سنگھ پریوار ہر حال میں اترپردیش کو فتح کرنے کا خواہاں ہے ۔ نوٹ بندی کے نفاذ کے ذریعہ مودی نے اپنے پیر پر آپ کلہاڑی مارلی تھی لیکن ایسا محسوس ہورہا ہیکہ قسمت مودی اور بی جے پی کا ساتھ دے ر ہی ہے اور سنگھ پریوار کی حکمت عملی اثر کرتی جارہی ہے تب ہی تو یو پی میں ناکامی کی جانب تیزی  سے گامزن بی جے پی ، سماج وادی پریوار میں اختلافات سے پھر کامیابی  کی راہ پر لوٹ آئی ۔ اگر ملائم سنگھ یادو اور اکھیلیش اپنی بیوقوفی کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں تو بی جے پی کو اترپردیش میں اقتدار پر قابض ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا ویسے بھی بی جے پی اور مودی جی یو پی میں اقتدار کیلئے کچھ بھی کرسکتے ہیں ۔ گجرات کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں مسلمانوں کی نعشوں کے ڈھیر سے گذر کر مودی جی مرکز میں اقتدار کی کرسی تک پہنچے ہیں ۔ اب بھی اترپردیش میں باپ اور بیٹے کی لڑائی سے یو پی اسمبلی انتخابات میں جو 2019 کے عام انتخابات کا سیمی فائنل سمجھا جارہا ہے  بی جے پی فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہوتی ہے تو مستقبل میں اسے من مانی سے کوئی نہیں روک سکتا ۔
دوسری طرف پارٹی میں پھوٹ، اکھیلیش اور رام گوپال یادو کو خارج کئے جانے سے یہ بات واضح ہوگئی تھی کہ ملائم سنگھ یادو پارٹی کو اپنی مرضی کے مطابق چلانا چاہتے ہیں ۔ ملائم سنگھ نے اکھیلیش یادو کو یہ احساس بھی دلادیا ہیکہ وہ وہی باپ ہے جس نے اپنے بیٹے کو ہندوستان کا سب سے کم عمر چیف منسٹر بنایا اور اقتدار کے ایوانوں میں عزت و شہرت دلائی لیکن بیٹے نے جب نافرمانی کی تو وہ اسے نکال بھی پھینکا ۔ اکھیلیش یادو سے دراصل یہ غلطی سرزد ہوئی کہ انہوں نے اپنے والد کی طرز سیاست کو پسند نہیں کیا ۔

انہوں نے خود اپنے سگے چچا شیوپال سنگھ یادو سے دشمنی مول لی ۔ پارٹی میں مختار انصاری ، افضل انصاری اور عتیق احمد جیسے سیاستدانوں کو شامل کئے جانے کی شدت سے مخالفت کی جبکہ انہیں شائد یہ اندازہ نہیں کہ اترپردیش میں سیاست کرنے کیلئے جہاں دولت کی ضرورت ہوتی ہے وہیں طاقت بھی اہم کردار ادا کرتی ہے ۔ اکھیلیش یادو یہ بھی فراموش کر گئے تھے کہ آج کل کی سیاست میں شرفا کی نہیں غنڈوں ، فرقہ پرستوں ، غداروں ، مفاد پرستوں ، دھوکہ بازوں ، مکاروں کی ضرورت ہے ۔ سیاسی شعبہ میں وہی کامیاب ہوسکتا ہے جو زہراگلنے کا ماہر ہو جس کے دل میں انسانیت نام کی کوئی چیز نہیں جو عوام کو مذہب ، ذات پات اور علاقہ کے نام پر لڑانے میں ماہر ہو ۔ حقیقت یہ ہیکہ آج اروندکیجریوال جیسے بہت کم سیاستداں ہیں جو سچائی اور دیانتداری کے باعث اقتدار پر فائز ہوئے ہوں ۔ ایسے میں اگر اکھیلیش یادو حقیقت میں عوام کے خدمتگار ہیں اور ان کی نیت صاف ہو تو انہیں ناامید ہونے کی ضرورت نہیں ۔پھر بھی انہیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ باپ، باپ ہوتا ہے ۔
mriyaz2002@yahoo.com