یوپی کے انتخابی نتائج دعوتی نقطہ نظر سے بعض تشویشناک پہلو

محمد الیاس ندوی بھٹکلی
دنیا میں فیصلے خوش فہمیوں پر نہیں حقائق پر ہوتے ہیں:۔ اترپردیش میں انتخابات کے عوام کے لیے غیرمتوقع لیکن خواص کے لیے عین متوقع نتائج پر جو تبصرے اور تجزیے مجموعی طور پر سننے ، دیکھنے اور پڑھنے کو مل رہے ہیں وہ بحیثیت مسلمان اور امت دعوت حیرت میں ڈالنے والے ہیں ،اکثر لوگوں کاکہنا ہے کہ ووٹنگ مشینوں میں ہیرا پھیری ہوئی اور یہ اسی کا نتیجہ تھا ، بعضوں کا خیال ہے کہ مسلمانوں کے آپسی انتشار اور ان کے ووٹوں کی تقسیم نے زعفرانی پارٹی کو اکثریت میں پہنچایا، کچھ ملّی قائدین مسلمانوں کو تسلّی دے رہے ہیں کہ مسلمانوں کے خلاف یہ ان کا وقتی اتحاد ہے ،خود ان میں اس قدر خلفشار ہے کہ چند ہی دنوں میں یہ لوگ آپس میں لڑجھگڑکراقتدار سے محروم ہوجائیں گے۔
مسلمانوں کو درحقیقت اسلامی تاریخ میں اسی طرح کی خوش فہمیوں اور غیر حقیقی توقعات نے نقصان پہنچایاہے ، انسان کو اپنی کمزوریوں اورشکست کا جائزہ لینے غلطیوں کا احساس دلانے اور کمیوں وخامیوں کا اعتراف کرانے اور آئندہ کے لیے اپنی اصلاح کرانے میں یہی توقعات اور خوش فہمیاں رکاوٹ بنتی ہیں،اس لیے دانشمندی کا تقاضہ یہ ہے کہ انسان حقیقت پسند بنے اور اپنے اوپر آنے والے مسائل کے محرّکات کا جائزہ لے اور اس کی روشنی میں اپنی اصلاح کی کوشش بھی کرے اور آئندہ کی منصوبہ بندی بھی۔

ملک کے انتخابی نتائج کا دعوتی تجزیہ :۔ ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرناچاہیے کہ ہمارے برادرانِ وطن کی ایک بڑی تعداد نے یوپی میں اس زعفرانی جماعت کو پھر ایک مرتبہ اپنی اکثریت سے اقتدار تک پہنچادیاہے ،سوال یہ ہے کہ کچھ برسوں پہلے کے گجرات کے انسانیت سوز ہندومسلم فسادات کے باوجود اور ساری دنیا میں اس بات کو مجموعی طور پر تسلیم کئے جانے کے باوجود کہ یہ فسادات منصوبہ بند طریقہ پر ہوئے تھے اوراس بات کو جاننے کے باوجود کہ جوشخص صرف ایک چھوٹی سی ریاست میں باشندگان وطن کو آپس میں جوڑ کرنہیں رکھ سکا وہ پورے ملک کے ہم وطنوں کو کیسے جوڑ کر رکھ سکے گا ہمارے غیر مسلم بھائیوں نے ان کو کیوں ووٹ دیا،جب کہ اس جماعت کے عزائم صاف تھے، وہ کھل کر انتخابی جلسوں میں اس کا اعلان بھی کررہے تھے کہ مسلمانوں کو وہ یکساں سول کوڈ پر مجبور کردیں گے،رام مندر تعمیر کریں گے، دوسرے الفاظ میں مسلمانوں کووہ اس ملک میں دوسرے درجہ کا شہری بناکر چھوڑدیں گے، ان سے ان کے مذہبی حقوق چھینیں گے،ان کاجینا دوبھرکریں گے اورپْرسکون ماحول میں رخنہ ڈالیں گے، یہ سب جانتے ہوئے بھی ہمارے ہم وطنوں نے یوپی میں دوبارہ آخران کو حکومت کی باگ ڈورکیوں سونپی ،ہمارا سوال یہ ہے کہ ہمارے خلاف چند لوگوں کے ان برے اور اسلام دشمن ارادوں پر ان کروڑوں بندگانِ خدا نے لبیک کیوں کہا اور تائیدکیوں کی جو چندسالوں سے نہیں بلکہ صدیوںسے ہمارے ساتھ رہتے اور اٹھتے بیٹھتے ہیں ، دوسرے الفاظ میں ہمارے خلاف ان بھگوا طاقتوں کے ارکان نے جو منفی پروپیگنڈے کئے ،افواہیں پھیلائیں، ہم کو ملک دشمن اورہمارے اس مذہب اسلام کوجو سراپا امن وسلامتی پر مشتمل ہے تشدّد اوردہشت گردی کا مذہب ثابت کرنے اور اس کے متعلق غلط تاثرات ان کے ذہنوں میں پیوست کرنے کی جوکوششیں کیں اس میں وہ کیسے کامیاب ہوئے۔
ہمیں اس پورے تناظر میں خود اپنا جائزہ لینے اور ان حالات کا دعوتی تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے کہ ان کی ان منفی کوششوں کے کامیاب ہونے میں ہمارا اپنا قصور کتناہے؟ اور ہم سے اس سلسلہ میں کہاں کوتاہی ہوئی ہے ؟ ہم صدیوں سے ان کے ساتھ زندگی بسرکررہے ہیں ،اس کے باوجود وہ ہم سے بدظن ہیں، اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ معاشرتی زندگی میں ان کے ساتھ ہمارے باہمی اشتراک کے باوجود ہم نے کبھی خود ان کو دنیا اور آخرت میں کامرانی سے ہمکنار کرنے والے سچے مذہب اور اس کائنات کے مالک حقیقی کا ان کے سامنے تعارف کرانے ،توحید ورسالت اور آخرت کی عقلی، فطری اور منطقی ضرورتوں کو بیان کرنے کی کوشش نہیں کی ، ہم امت اجابت تو بن کر رہے ،امت دعوت کے اپنے فرض منصبی کوبھول گئے ،عبادت ومعاملات کے دینی وشرعی فرائض کو تو ہم اپنے مذہب کا جز سمجھتے رہے لیکن دعوت وتبلیغ کے اپنے فرض عین کو بھول گئے، درحقیقت دعوتی فرائض کی ادائیگی میں ہماری اسی کوتاہی نے آج اس ملک ہی میں نہیں بلکہ پورے عالم میں ہمیں یہ ناگفتہ بہ دن دکھائے،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ان گئے گذرے حالات میں بھی ہمارے اس ملک سے بڑھ کر پوری عالمی سطح پر دعوت کے لیے موزوں کوئی اورملک نہیں ہے ، یہاں کے باشندوں کو توحید ورسالت کے پیغام کو سمجھانا جتنا آسان ہے کسی اورملک میں نہیں،جتنے نرم دل لوگ مجموعی طورپر ہمارے اس ملک کے ہیں کسی اور خطہ کے نہیں،یہ الگ بات ہے کہ پوری ہندوستانی اسلامی تاریخ میں نہ ہم نے اور نہ ہمارے مسلم حکمرانوں نے اس زریں دعوتی موقع سے فائدہ اٹھایا۔
ہم امت دعوت ہیں، ہم صرف بصارت ہی نہیں بصیرت کے بھی حامل ہیں، ذہانت ہی ہمارا امتیاز نہیں بلکہ فراست بھی ہماری پہچان ہے ،ہم فقہ سے ہی نہیں بلکہ تفقہ سے بھی آراستہ ہیں ،اس لیے ہمیں دل کی آنکھوں سے اپنے اوپرآنے والے ان منفی حالات کا تجزیہ کرنے اور اس کے تدارک کی کوشش کرنی چاہیے،اس پوری دنیامیں خالص توحید کے علمبردار ہونے اور اللہ تعالی کی سب سے محبوب امت ہونے کے باوجود ہم کو اس طرح شرمناک صورت حال کا سامنا کیوں کرناپڑا؟ اللہ تعالی نے ہم پر ان ظالم حکمرانوں کو کیوں مسلط کیا؟ اس پر ہمیں سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے،مساجد،دینی مدارس ،اسلامی تحریکات ،تنظیموں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور بظاہر اس کے نظر آتے مثبت اثرات کے باوجود ملّی اتحاد سے ہم آخرکیوں دور ہوتے جارہے ہیں؟ ملّی اتحاد کے لیے کی جانے والی کوششیں کیوں کارگر نہیں ہورہی ہیں، ذاتی مفادات اور نفسانی اغراض نے ہم میں انتشار کی یہ کیفیت کیوں پیداکی ہے ؟ اس کے وجوہات واسباب کا ہمیں سنجیدگی سے جائزہ لینا چاہیے، اگرپورے قرآن مجید پر نہ سہی صرف چند آیات پر بھی ہماری نظر ہو تو اس کے اصل محرّک اورسبب کو جاننے میں ہمیں دیر نہیں لگے گی۔

اسلامی تاریخ شاہد ہے کہ ظالم حکمرانوں کے تسلط کی شکل میں مسلمانوں کو اللہ تعالی کی طرف سے سزا ان کی بداعمالی ہی کی وجہ سے دی گئی ہے معاملہ جب حد سے آگے بڑھتاہے تبھی بے پناہ رحم کرنے والے رب کی طرف سے سخت دل لوگوں کو اہل ایمان پر مسلط کیا جاتاہے،اسی لیے ہمیں دربارنبوت سے ہمیشہ یہ دعاکرنے کے لیے کہاگیاہے ، ائے ہمارے رب:۔ ہمارے گناہوں اور کرتوتوں کی پاداش میں ہم پر بے رحم وظالم حکمرانوں کو مسلّط نہ فرما:’’اللّٰہْمَّ لاَتْسَلِّط عَلَینَا بِذْنْوبِنَا مَن لاَیَخَافْکَ فِینَا وَلایَرحَمْنَا‘‘ دراصل اس معجزانہ دعاکے اندر ہی ہمیں اس وقت ملک میں ہی نہیں بلکہ عالم اسلام میں درپیش ناگفتہ بہ حالات کے اسباب کے ساتھ اس کا علاج بھی بتایاگیا ہے کہ ہمارے گناہوں اور کرتوتوں کی پاداش ہی میں یہ ظالم حکمراں ہم پر مسلط کئے گئے ہیں ،اس سے نجات کا واحدراستہ اللہ تعالی سے اپنے تعلق میں استحکام ،اپنی اصلاح اور اپنے اعمال واخلاق کی درستگی ہے۔
ہردرد کی دوا ہے صلّ علی محمد:۔ اس ملک میں ہمارے ان سیاسی وسماجی سب مسائل کا جو اس وقت ہمیں در پیش ہیں اگر سنجید گی سے تجزیہ کیا جائے تو اس کے پس پردہ صرف ایک محرک نظر آتا ہے اور وہ اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے ان کے دلوں میں موجود خدشات، شبہات اور غلط فہمیاں ہیں، اگر اس پر ہم سنجیدگی سے توجہ دیں اورایک کامیاب حکیم کی طرح اصل مرض کی تشخیص کرتے ہوئے اس کے ازالہ کی کوشش کریں تو سرے سے ہمارے ان سب مسائل ہی کا خاتمہ ہو جائے۔

ہمیں جسم کی مختلف ظاہری بیماریوں کا علاج کرنے کے بجائے بدن میں ہونے والے اس مرض کے ازالہ کی کوشش کرنی چائیے جس کی وجہ سے آئے دن نت نئے امراض کی طرح امت مسلمہ کے سامنے اس طرح کے مسائل آرہے ہیں، ہمیں حکمت عملی ،خیرخواہی اور ہمدردی کے جذبہ کے ساتھ اپنے برادران وطن تک اس دعوت کو پہنچانا چاہئے جس میں خود ان کی ہمیشہ ہمیشہ کی کامیابی مضمر ہے، جدید ترقیات کی روشنی میں اسلام کی حقانیت کو ثابت کرنا اس وقت جتنا آسان ہے ماضی کی تاریخ میں کبھی اتنا آسان نہیں تھا، اسی طرح ہمیں دعوت کے میدان میں جدید وسائل واسباب کا بھی شرعی حدود کے اندررہتے ہوئے بھرپور استعمال کرناچاہئے اوراپنے ان برادران انسانیت تک بھی توحید ورسالت اور آخرت کے دلائل پہنچانے چاہئیں جو کسی وجہ سے نہ ہمارے پاس آرہے ہیں اور خاص حالات کی وجہ سے ہم بھی ان تک نہیں پہنچ پارہے ہیں، آپ کہیں گے کہ نہ ہم ان کے پاس جاسکتے ہیں اور نہ وہ ہمارے پاس آرہے ہیں پھر ان تک اپنی بات پہنچانے کا کونسا طریقہ رہ جاتا ہے ،ہم نے اعزاز دے کر اپنا پیغام سنانے کے لئے اپنے جلسوں میں ان کو مدعو کیا ،وہ نہیں آئے ،ہم نے ان تک قرآن پہنچانا چاہا، انھوں نے اس کو قبول نہیں کیا، ہم نے پیام حق ان کو سنانا چاہا، وہ سننے کے لئے تیار نہیں ہوئے لیکن آپ کے ان سب دلائل کے باوجود ہمیں اس کا اعتراف کرنا پڑے گا کہ اس جدید ٹیکنالوجی کے دور میں ہم ان کے پاس گئے بغیر بھی ان تک اپنا پیغام پہنچا سکتے ہیں، ان کے نہ چاہتے ہوئے بھی اسلام کی حقانیت ان کی نظروں سے گذار سکتے ہیں اورغیر محسوس طریقہ پر بھی اللہ کا پیغام ان کو سننے پر مجبور کیا جاسکتا ہے ،ٹرافک سگنل پر کچھ سکینڈ ہم رکتے ہیں ، کیا دائیں بائیں بے ہودہ اشتہارات کی ہورڈنگ پر ہمارے نہ چاہتے ہوئے بھی نظر نہیں پڑتی ؟ بریگنگ نیوز کے درمیان مختصر وقفہ میں کیا مخرب الاخلاق تصویریں ٹی وی چینلوں میں ہماری نظروں سے نہیں گذرتیں؟ کیا ہماری عدم خواہش اور منشا کے باوجود ہمارے موبائیل ، واٹس آپ ، ای میل اور فیس بک پر غلط پیغامات ہمیں موصول نہیں ہوتے ؟ یہ الگ بعد ہے کہ ہم اس کو پڑھ کر بعد میں ڈیلیٹ بھی کردیتے ہیں لیکن نظر تو بہرحال اس پر پڑہی جاتی ہے، جب اہل باطل نہ چاہنے کے باوجود ہمیں اپنے نظریات اور افکار کو سننے اور دیکھنے پر مجبور کرسکتے ہیں تو ہم اہل حق اسی حکمتِ عملی، وسائل اور ٹیکنالوجی کو اپنا کر اس کائنات کے تنہا مالک کا ان ہی کی نجات و فلاح کا ابدی پیغام ان کی نظروں سے کیوں نہیں گذار سکتے؟ہم دعوت کے میدان میں نت نئے تجربات سے کیوں پیچھے رہتے ہیں؟ ایک نئی جگہ ہم دوکان لگاتے ہیں ،کیا دوکان کے نہ چلنے پر دوتین ماہ کے اندر ہی اپنی دوکان بند کردیتے ہیں؟ نہیں بلکہ ہم واقعی اگر تاجر ہیں تو پہلے مرحلے میں یہ سوچتے ہیں کہ ممکن ہے اسٹاف نااہل ہے، اس کو تبدیل کیا جاتا ہے، پھر بھی فائدہ نہیں ہوتا تو سوچتے ہیں شاید دوکان کا باہری منظر اور اندر کا فرنیچر گاہکوں کو ترغیب دلانے میں ناکام ہے ،اس کو تبدیل کرتے ہیں،پھر بھی گاہک نہیں آتے تو دوکان کا ایٹم یعنی سامان ہی بدل دیتے ہیں، سال بھر کی کوششو ں کے باوجود بھی جب مثبت اثرات نظر نہیں آتے تو دوکان ہی کو اس جگہ سے دوسری جگہ منتقل کردیتے ہیں ،ان سب کوششوں کا بھی جب اثر نظر نہیں آتا تو جدید اور نئے تشہیری اسباب اختیار کرتے ہیں، یہاں تک کہ ایک دن وہ آجاتا ہے کہ رزّاق حقیقی آپ کے صبر و تحمل سے خوش ہوکر کاروبار میں اتنی ترقی سے نوازتے ہیں کہ آپ خود حیرت میں رہ جاتے ہیں لیکن افسوس ہمارا یہی دماغ جو تجارت میں نت نئے تجربات کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے دعوت کے میدان میں پرانے تجربات کے علاوہ کچھ نئے تجربات اور حکمت کے ساتھ اس میدان میں کچھ نئے اسباب کو اختیار کرنے کے متعلق سوچنا بھی گوارہ نہیں کرتا، اگر تجارت کی طرح ہمارا دل و دماغ بھی دعوت کے میدان میں استعمال ہونے لگے تو چند ہی سالوں میں ہمارے اس ملک کی جو فضا ہوگی وہ نہ صرف مسرت آمیز بلکہ حد سے زیادہ خوش کن ہوگی ،برادران وطن کی نئی نسل کو جو اسکولوں اور کالجوں میں زیر تعلیم ہے اور جو کل کو جاکر حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے والے ہیں ابھی سے منصوبہ بندی کے ساتھ اسلام سے قریب کرنے کی کوشش کی جائے تو صرف دس سال کے بعد اس برصغیر کی اسلام کے حق میں جو پرامن فضا ہوگی وہ تصور سے زیادہ حیرت انگیز ہوگی،اپنے اس دعوتی فریضہ کی ادائیگی کے بغیر ہمیں اس ملک میں اپنے برادران وطن کی طرف سے اپنے اوپر ہونے والے ناگہانی مظالم کے باوجود اللہ تعالی کی مدد و نصرت کی امید نہیں رکھنی چاہئے، اس لئے کہ انسانوں کی نظروں میں تو وہ ظالم اور ہم مظلوم ہیں لیکن ان تک اسلام کی دعوت اور توحید کا پیغام نہ پہنچانے کی وجہ سے اللہ تعالی کے پاس وہ مظلوم اور ہم ظالم ہیں اور اس دعوتی فریضہ کی ادائیگی میں کوتاہی کی تلافی کے بغیر ہم اللہ رب العزت کی مدد کے مستحق نہیں بن سکتے۔
اسلامی تاریخ میں اس سے بڑھ کر ظالم وجابرخود مسلم حکمراں ہم پر مسلط ہوچکے ہیں ،خود اس ملک میں بھی ہماری امت اس طرح کے دسیوں ظالم اصحاب اقتدار کا سامنا کرچکی ہے اور اہل اسلام ہربار ایک نئے عزم کے ساتھ میدان عمل میں واپس آئے ہیں، ہمارے خلاف برے عزائم رکھنے والی یہی جماعت اس سے پہلے بھی اس ملک میں اقتدار میں آچکی ہے، آپ کہیں گے کہ پہلے وہ اکثریت میں نہیں تھے دوسرے کے تعاون سے حکومت میں آئے تھے اس لیے وہ اپنے برے عزائم کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچاسکے، لیکن اس مرتبہ خطرہ ہے کہ وہ ہمارے خلاف دستوری اعتبار سے ترمیم کرکے مسائل پیداکریں اور یکساں سول کوڈوغیرہ نافذ کریں۔