یونیورسٹیوں میں بھی ذات پات کا ٹکراؤ

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری         خیر اللہ بیگ
تعلیمی ادارے کی گود میں ہر طالب علم کی زندگی کے حسین ترین سال گزرتے ہیں اور خاص کر یونیورسٹیوں میں گذارے ہوئے پل عمر کی آخری حد تک یاد رہتے ہیں۔ حیدرآباد کی یونیورسٹیوں میں ان دنوں حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی میں دلت اسکالر روہت ویمولاکی خودکشی کا واقعہ شدید سیاسی رُخ اختیار کر گیا ہے۔ دلت طالب علم بھی یونیورسٹی تعلیم کے حصول کے ساتھ اپنی زندگی کے حسین لمحوں کو گذارنا اپنا حق سمجھتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیئے۔ لیکن کسی بھی تعلیمی ادارہ کا بہتر سے بہتر نظام جسے برے لوگوں، سیاستدانوں کے ہاتھ  چڑھ جاتا ہے تو ایسے ہی واقعات رونما ہوتے ہیں۔ گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کے انتخابات کے دوران حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی میں دلت طالب علم کی خودکشی گرما گرم سیاسی موضوع بن گئی۔ یونیورسٹیوں میں طلباء یونینوں اور ان کی سرپرست سیاسی پارٹیوں کی بالادستی کی کوشش جب بدامنی کی حد تک بڑھ جاتی ہے تو تعلیمی ادارہ احتجاجی گڑھ میں تبدیل ہوجاتا ہے۔
تلنگانہ تحریک میں عثمانیہ یونیورسٹی کے طلباء نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، اس کے بعد یہاں بیف فیسٹول منایا جانے لگا تو مختلف بیف فیسٹول گروپس نے دھمکیوں کے ساتھ عثمانیہ یونیورسٹی کے امن کو درہم برہم بنانے کی ہر ممکنہ کوشش کی۔ حیدرآباد  یونیورسٹی میں بھی اعلیٰ ذات اور دلتوں کی نمائندگی کرنے والی طلباء تنظیموں کا ٹکراؤ بڑھتا جارہا تھا، اے بی وی پی ( اکھیل بھارتیہ ودیارتھی پریشد ) کو بی جے پی کی سرپرستی حاصل ہے اور دلت طلباء نے اپنی یونین اے ایس اے ( امبیڈکر اسٹوڈنٹس اسوسی ایشن ) قائم کیا ۔ ان دونوں طلباء تنظیموں کے درمیان مختلف مسائل پر ٹکراؤ تھا سب سے بڑا ٹکراؤ یعقوب میمن کو سزائے موت دینے کے خلاف امبیڈکر اسٹوڈنٹس اسوسی ایشن کے احتجاج تھا، جب اس کا سخت نوٹ لیتے ہوئے اے بی وی پی نے مرکز کی بی جے پی قیادت کا سہارا لیا تو یہ مسئلہ طالب علم کی موت کا سبب بنا۔ روہت ویمولا کی خودکشی کی وجوہات کیا ہیں، اس کا پتہ چلانے کے لئے شفاف اور جامع تحقیقات ضروری ہیں۔ یونیورسٹی میں دلت طلباء کا مسلمانوں کی جانب جھکاؤ اور یعقوب میمن کی موت کی مخالفت میں تصادم کی اصل وجہ نہیں ہوسکتی اس کے پیچھے کئی خفیہ واقعات ہوسکتے ہیں۔
مرکز میں وزیر بنڈارو دتاتریہ، وزیر فروغ انسانی وسائل سمرتی ایرانی کے ناموں کو دلت اسکالر کی موت سے جوڑا جارہا ہے۔ یونیورسٹی میں طلباء اور پروفیسرس میں نظریاتی گروپ بندیوں کی وجہ سے تعلیمی  امن درہم برہم ہورہا ہے۔ بعض گروپس کا الزام ہے کہ یونیورسٹی میں چند پروفیسرس ایسے بھی ہیں جو نوجوانوں کو گمراہ کررہے ہیں اور فرقہ پرستی کے زہر کو پھیلا کر نفرت کا ماحول پیدا کیا جارہا ہے۔ دلت طالب علم کی خودکشی کی تحقیقات کے نتائج کب برآمد ہوں گے یہ تو سیاسی  منشاء پر منحصر ہے۔ اس وقت تعلیمی اداروں میں سیاسی پارٹیوں نے جس طرح کی گروہ بندیاں بنائی ہیں یہ طلباء کے تعلیمی مستقبل کیلئے خطرناک ہے۔ بزرگوں نے کہا ہے کہ تعلیم تین طرح کی ہوتی ہے، اول جو جینا سکھاتی ہے، دوم کمانا سکھاتی ہے اور تیسری وہ جو جینا اور کمانا دونوں سکھاتی ہے لیکن ہندوستانی تعلیم کو سیاسی مقاصد کا اکھاڑہ بناکر چوں چوں کا مربہ بے سمت بناکر ہماری نسلوں کو تباہ کرنے والا بنایا جارہا ہے۔ آپ نے غور کیا ہوگا کہ ہر دور میں حکمرانوں کو کسی کام میں نقصان نہیں ہوتا۔ عوام کی اکثریت کو بیشتر کاموں میں نفع نہیں ہوتا، اس کے اسباب کیا ہیں، یہ غور بھی کوئی نہیں کرتا، اور ہر پانچ سال بعد اپنے لئے نئی حکومت منتخب کرلی جاتی ہے۔ اب گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن انتخابات میں بھی عوام کو اپنی پسند کا کارپوریٹر منتخب کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ گریٹر حیدرآباد کے مسائل سے ہر شہری واقف بھی ہے اور ہر روز ان مسائل کا سامنا کرتا رہتا ہے۔ مگر ووٹ دینے کے دن یہ تمام مسائل یکلخت بھول کر آزمودہ پارٹیوں اور لیڈروں کو ہی ووٹ دیتے ہیں۔
بی جے پی نے تلگودیشم سے اتحاد کرکے شہر کے 63ڈیویژنوں میں اپنے امیدوار کھڑے کئے ہیں۔ تلگودیشم کو 87 ڈیویژنوں میں دلتوں کو ناراضگی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی خودکشی واقعہ کو مرکز میں بیٹھ کر ذات پات کا مسئلہ بنانے والے قائدین نے علاقائی طور پر بی جے پی کو کمزور اور اس کی اتحادی جماعت تلگودیشم کی ساکھ کو دھکا پہنچایا ہے۔ طالب علم کی خودکشی بھی ایک ایسے وقت ہوئی جب شہر میں سرگرم انتخابی مہم جاری ہے۔ لیکن اس انتخابی مہم میں بیشتر پارٹیوں کے قائدین نے اس واقعہ کو موضوع نہیں بنایا۔ جو قائدین علاقائی اور محلہ واری مسائل سے واقف ہیں انہیں عوام کے قریب جانے اور ان سے ووٹ دینے اپیل کرنے کا پورا حق ہے۔ انتخابات میں ایسے بھی امیدوار ہیں جو ڈیویژنس کی حد بندی اور خواتین کو ایس سی، ایس ٹی تحفظات دینے کے بعد پہلی مرتبہ انتخابی میدان میں ہیں ان کی انتخابی مہم ایک چابی والی گڑیا کی طرح دکھائی دے رہی ہے۔ یہ خواتین نہ تو مسائل سے واقف ہیں اور نہ ہی عوامی شکایات کا انہیں اندازہ ہے۔ تاہم بعض خاتون امیدواروں کا گھرانہ سیاسی ہے تو یہ خواتین رائے دہندوں پر اثر انداز ہونے میں کامیاب ہورہی ہیں۔
کئی ڈیویژنس ایسے ہیں جہاں رشتہ دار ایک دوسرے کے خلاف امیدوار ہیں۔ کہیں ماں ۔ بیٹے لڑرہے ہیں تو کہیں بیوی ۔ شوہرکو للکار رہی ہے۔ کہیں ساس ۔ بہو اور کہیں خسر اور داماد کا جھگڑا بھی انتخابی مہم کا حصہ بن رہا ہے۔ لیکن ان پارٹیوں کے سربراہوں کے لئے یہ سوچنے کی توفیق کیوں نہیں ہوتی کہ وہ انتخابی محاذ آرائی کی خاطر رشتہ داریوں میں کیوں رخنہ ڈال رہے ہیں۔ اس طرح سیاسی پارٹیاں اور ان کے سربراہوں نے بیٹھے بٹھائے انتخابی مقابلہ کو خاندانی جھگڑا بنانے کا کام کیا ہے، لیکن ہوسکتا ہے کہ یہ بھی سیاسی پارٹیوں کی کوئی چال ہے کیونکہ شہر کے ایسے ڈیویژنس بھی ہیں جہاں پارٹی کے باغی قائدین مقابلہ کررہے ہیں۔ پرانے شہر میں مقامی جماعت سے بغاوت کرکے دوسری پارٹی میں شامل ہونے والے قائدین کی تقاریر اور بیان بازیوں سے عوام نے یہ اندازہ کرلیا ہوگا کہ یہ امیدوار اپنی سرپرست پارٹی کے قائدین کے خلاف جس طرح کی شعلہ بیانی اور للکارنے والے جملوں کا استعمال کررہے ہیں کہیں اس میں سرپرست پارٹی کے قائدین کی ہی کوئی حکمت عملی تو نہیں۔ عوام کا ماننا ہے کہ مقامی جماعت کے لیڈروں کے خلاف لب کشائی کی کوئی بھی ہمت نہیں کرسکتا، اب یہ لوگ اندھا دھند طریقہ سے مقامی قیادت پر برس پڑ رہے ہیں اور اس کے جواب میں مقامی قیادت کی خاموشی کے کئی رازدارانہ پہلو ہوسکتے ہیں۔ یہ سب انتخابات کے بعد نتائج ہی بتائیں گے کہ کون کس کا ہے اور کس نے عوام کو بے وقوف بنایا ہے۔
kbaig92@gmail.com