اقوام متحدہ۔ 3 نومبر ۔(سیاست ڈاٹ کام) شورش زدہ یمن میں انسانی حالات دن بہ دن بدتر ہوتے جارہے ہیں۔اقوام متحدہ اور دنیا کی دوسری حقوق انسانی کی تنظیمیں بار بار اپیل کررہی ہیں ،لیکن وہاں متحارب دھڑوں نے ان کی اپیلوں کو ایک کان سے سنکر دوسرے سے نکال دیا ہے ۔ایک بار پھر اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل اینٹونیو گوٹریس نے تمام فریقین سے یمن میں جاری کارروائیوں کو فوری طور پر روکنے کی اپیل کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ یمن میں ’’شدید قحط کا سامنا ہوسکتا ہے جس کا تجربہ ہمیں دہائیوں سے نہیں ہوا ہوگا‘‘۔ پاکستان کے روزنامہ ’ڈان‘ کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے سربراہ نے صحافیوں کو بتایا کہ انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے لاپرواہی کا وقت نہیں اور امن کی خاطر تعمیری کارروائیوں کی رفتار کو مضبوط کرنا ضروری ہے۔اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ مارک لووکوک نے گزشتہ ہفتہ ہی خبردار کیا تھا کہ یمن میں شدید قحط کے واضح خطرات موجود ہیں جس سے ملک کی آدھی آبادی ایک کروڑ 40 لاکھ افرد متاثر ہوسکتے ہیں۔یاد رہے کہ یمن میں 2014 میں حوثی باغیوں کی جانب سے عالمی طور پر تسلیم شدہ حکومت کو گرانے کے بعد بحران نے جنم لیا تھا اور سعودی سربراہی میں حکومتی اتحادی 2015 ء سے ان کے خلاف جنگ میں مصروف ہے ۔اینٹونیو گوٹریس کا کہنا تھا کہ مخالف فریقین کو بحرانی کیفیت کے خاتمہ اور امن کے قیام کیلئے مذاکرات پر آمادہ کرنے کی خاطر زیادہ سے زیادہ ممالک شریک ہیں۔انہوں نے اتحادی فورسز اور حوثی باغیوں پر زور دیا کہ وہ رواں ماہ کے اواخر میں اقوام متحدہ کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات میںاختلافات اور رکاوٹوں کو مذاکرات کے ذریعہ ختم کردیں۔اینٹونیو گوٹریس نے زور دیتے ہوئے کہا کہ گنجان آباد علاقوں سمیت ہر جگہ تشدد کو فوری طور پر روکنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ میرا مقصد فریقین کو تنازع کو سمجھنے کے لیے اپیل کرنا ہے کہ جو موقع مل رہا ہے اس کو حاصل کریں اور اگر ایسا نہ ہوا تو انسانی صورت حال مزید گھمبیر ہوگی اور اگلے برس دنیا کو یمن میں ایک قحط سے نمٹنا ہوگا۔ گوٹریس نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ یہ آواز غالب آئے گی۔