یعقوب میمن کو پھانسی کی سزا غیر منصفانہ مسیح رحمن کے مضمون مطبوعہ انڈین ایکسپریس میں چشم کشا انکشافات

ظفر آغا
یعقوب میمن کو پھانسی پر چڑھانا چاہئے یا نہیں ؟ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد کہ یعقوب میمن کو ممبئی بم دھماکے 2003 معاملے میں پھانسی کی ہی سزا ہونی چاہئے ،یہ سوال ہندوستانی انگریزی میڈیا میں زیر بحث ہے ۔ اس سلسلے میں انڈین ایکسپریس اور ٹائمس آف انڈیا نے یعقوب میمن کو پھانسی کی سزا کے خلاف ایک بحث چھیڑدی ہے ۔ چنانچہ اس سلسلہ میں انڈین ایکسپریس پچھلے چند دنوں سے ایسے مضامین چھاپ رہا ہے جو میمن کو پھانسی کی سزا کے خلاف ہیں ۔ انڈین ایکسپریس کے جولائی 25 دہلی کے شمارے میں سینئر صحافی مسیح رحمان کا ایک مضمون چھپا ہے جو انہوں نے 4 اگست 2007 کو اسی اخبار کے لئے لکھا تھا ۔ رحمان ان دنوں انگلینڈ کے مشہور روزنامہ گارجین کے لئے ہندوستان کے نامہ نگار ہیں ۔ وہ ایک عرصے تک انڈیا ٹوڈے کے ساتھ وابستہ رہے جہاں ہم دونوں ایک ہی وقت میں صحافت کرتے تھے ۔ رحمان صاحب کا یہ مضمون انصاف کی ایک آواز ہے جو سپریم کورٹ اور ہندوستانی عوام کو سننی چاہئے ۔ اسی غرض سے راقم الحروف مسیح رحمان کے مضمون کا ترجمہ ذیل میں پیش کررہا ہے جو پیش خدمت ہے ۔

’’یعقوب میمن سے 3 سال قبل میری پہلی ملاقات آج بھی مجھے اچھی طرح یاد ہے ۔ ایک میلی کچیلی سی قمیض اور شلوار میں میمن دہلی کے سی بی آئی دفتر کے ایک کمرے میں تڑپ  رہا تھا ۔ خوبصورت اور باریش وہ نوجوان کوئی مجرم نظر نہیں آرہا تھا اور اس کے چہرے پر عجیب سا کرب تھا ۔ میں نے بحیثیت ایک صحافی ایسا کوئی مجرم نہیں دیکھا تھا ۔ میرا پہلا ردعمل یہی تھا کہ پولیس نے اسکو torture کیا ہوگا ۔ لیکن میرا اندیشہ غلط نکلا، دراصل میں ایک عجیب مخمصے میں تھا ۔ اس کو یہ نہیں سمجھ میں آرہا تھا کہ آیا اس نے خود کو ہندوستانی پولیس کے حوالے کرکے صحیح کیا ہے یا غلط ۔ یہ بات آج تک کسی نے بیان نہیں کی ہے اور میں آج میمن کی کہانی لکھ رہا ہوں جس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اسکو کو سزائے موت ملی ہے وہ اس کے شک کو سچ ثابت کرتی ہے ۔ مجھے اس بات کا پورا احساس ہے کہ بہت سے ہندوستانی میرے اس مضمون سے بہت ناراض ہوں گے ۔ لیکن میمن خاندان کے ساتھ پاکستان سے لوٹنے کے بعد جو سلوک ہوا وہ آپ کو بظاہر غیر منصفانہ ہی نہیں بلکہ بے رحمانہ بھی معلوم ہوگا ۔

دراصل یعقوب میمن کچھ اپنی ایماء پر اور کچھ پولیس کی کوشش سے اتفاقاً ہندوستانی ہاتھوں میں آگیا ۔ وہ کراچی سے کاٹھمنڈو ایک طیارے کے ذریعہ جولائی 1994 میں نیپال پہونچا ۔ وہ وہاں اپنے ایک رشتے کے بھائی وکیل سے مشورہ کرنے آیا تھا ۔ وہ (میمن) ممبئی بم دھماکوں سے اپنا نام الگ کرنا چاہتا تھا ۔ اس کے علاوہ تمام دوسرے میمن (داؤد اور ایوب کے علاوہ) بھی اس معاملے میں اپنے کو دھماکوں سے الگ کرنا چاہتے تھے ۔ یعقوب میمن کے وکیل بھائی نے اس کو مشورہ دیا کہ وہ اور اس کے دیگر عزیز دھماکوں میں اگر ملوث بھی نہ ہوں تب بھی ہندوستان میں ان کے خلاف ماحول بہت خراب ہے اور ان کو انصاف کی امید نہیں کرنی چاہئے ۔ حالانکہ یعقوب خود کو ہندوستانی پولیس کے حوالے کرنے کے ارادے سے آیا تھا ۔ اس کے پاس کوئی بہت سامان بھی نہیں تھا ۔ اس کے سامان میں کچھ اہم دستاویز ، کچھ آڈیو اور ویڈیو کیسٹ تھے جس میں ممبئی بم دھماکے کے معاملہ میں پاکستان کے ملوث ہونے کے ثبوت تھے ۔ یعقوب ان تمام ثبوتوں کے ساتھ جب کاٹھمنڈو ہوائی اڈے سے گزر رہا تھا اور اس کے بریف کیس کی اسکریننگ ہورہی تھی تو اس میں ایک بہت بڑے تالے کی چابی چمکی جو ایک بندوق جیسی لگی ۔ چنانچہ وہ بریف کیس کھولا گیا اور اس میں سے میمن خاندان کے ہندوستانی پاسپورٹ برآمد ہوئے اور یعقوب میمن کو فوراً روکا گیا اور آخر 4 اگست کو اسے سی بی آئی کے حوالے کردیا گیا ۔ جب یعقوب کراچی نہیں پہونچا تو وہاں اس کے اہل خانہ کو شک ہوگیا کہ یعقوب نے اپنے ارادے کے مطابق خود کو ہندوستانی پولیس کو سونپ دیا ۔ چنانچہ وہ سب لوگ (سوائے داؤد اور ایوب کے) کراچی سے فوراً دبئی روانہ ہوگئے ۔ جب سی بی آئی یعقوب میمن کو ہندوستان لائی تو وہاں سی بی آئی نے اس کی زبانی میمن خاندان کی ممبئی بم دھماکوں میں ملوث ہونے کی سنسنی خیز کہانی سنی جو کچھ یوں تھی۔
دراصل میمن خاندان اکثر و بیشتر دبئی جایا کرتا تھا ۔ یہاں تک کہ ایوب نے دبئی کی شہریت قبول کرلی تھی اور اپنی بیوی روبینہ کے ساتھ وہیں بس گیا تھا ۔ مارچ 1993 میں ممبئی بم دھماکوں سے کچھ قبل ایوب نے یہ اصرار کیا کہ اس برس پورا خاندان دبئی میں ہی عید منائے ۔ چنانچہ تقریباً تمام میمن خاندان عید اور ممبئی بم دھماکوں سے ذرا قبل دبئی کے لئے روانہ ہوگیا ۔ ممبئی بم دھماکوں کی خبر کے بعد یکایک داؤد ابراہیم وہاں سے غائب ہوگیا ۔ اس بات سے تمام میمن گھرانے کو یقین ہوگیا کہ داؤد ابراہیم ممبئی بم دھماکوں میں ملوث ہے ۔ اسکے ایک ہفتے کے بعد داؤد نے اپنے پورے خاندان کو کراچی منتقل کردیا جہاں بغیر کسی ویزے کے ان سب کو پاکستان میں داخلے کی اجازت مل گئی ۔ اس بات سے میمن خاندان کو یہ بھی اندازہ ہوگیا کہ ممبئی دھماکوں میں پاکستان کا ہاتھ تھا ۔
اس بات سے داؤد کے والد عبدالرزاق اس قدر غصے میں تھے کہ انہوں نے کراچی پہنچتے ہی سب کے سامنے داؤد ابراہیم کے منہ پر زور سے چار چھ تھپڑ لگادئے ۔ داؤد اپنا غصہ پی گیا اور باپ کی مار پر خاموش رہا لیکن اس نے یہ نہیں تسلیم کیا کہ اس نے کوئی غلطی کی ہے ۔ اسی طرح جب داؤد کے اہل خانہ نے خود کو ہندوستانی پولیس کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا تب بھی داؤد نے یہ فیصلہ منظور نہیں کیا بلکہ داؤد نے اس سے کہا کہ تم گاندھی وادی بن کر جارہے ہو لیکن وہاں آتنک وادی قرار دیئے جاؤگے ۔ یہ بات یعقوب میمن نے عدالت کو بھی بتائی ۔

کراچی میں میمن خاندان کو نئے ناموں کے ساتھ رہنا پڑا ۔ وہاں ان کو 20 کمروں کا ایک بہت بڑا مکان مل گیا ۔ لیکن داؤد اور ایوب کے علاوہ باقی سب میمن افراد کو اس بات کا بہت صدمہ تھا کہ اپنے وطن میں ان کو غدار اور دہشت گرد قرار دیا جارہا ہے ۔ ان کو اس بات سے بھی پریشانی تھی کہ وہ پاکستان میں کسی کو اپنی اصل پہچان نہیں بتاسکتے تھے … چنانچہ یعقوب نے اپنے گھر والوں کو یہ رائے دی کیونکہ وہ تمام لوگ باضابطہ دھماکوں میں ملوث نہیں ہیں ۔ اس لئے ان کو ہندوستان جا کر خود کو ہندوستانی پولیس کے حوالے کردینا چاہئے ۔ بقول ایک افسر کے ان کو یہ یقین تھا کہ ہندوستان میں ان کو انصاف ملے گا ۔ اور وہ آخرکار آزاد ہوجائیں گے ۔ میمن خاندان کو یہ خیال ہوا کہ محض یعقوب میمن کو معمولی سزا ملے گی اور باقی سب رہا ہوجائیں گے ، کیونکہ وہ اپنے ساتھ ممبئی دھماکوں میں پاکستان کے ملوث ہونے کے ایسے ثبوت لے کر جائیں گے جو ہندوستان کو کہیں دستیاب نہیں تھے ۔ ایک آفیسر کے بقول یعقوب کو یہ بھرم تھا کہ آخر پورا ملک اس کی اس بات پر اسکا شکر گزار ہوگا ۔
بہرکیف میمن ہندوستان آگئے اور گرفتار ہوگئے ۔ لیکن انکی گرفتاری کے بعد میڈیا میں شور مچ گیا کہ میمن خاندان ، پاکستان حکومت اور اس وقت کی راؤ حکومت کے درمیان کوئی ڈیل ہوئی ہے ۔ حالانکہ اس وقت کے سی بی آئی چیف نے مجھ سے بہت غصے میں کہا کہ کوئی ڈیل نہیں ہوئی ہے اور سی بی آئی میمن خاندان کو سرکاری گواہ نہیں بنائے گی ۔ میڈیا میں ڈیل کے شور سے (اس وقت کی) راؤ سرکار ڈر گئی اور یہ طے ہوا کہ میمن خاندان کے خلاف دہشت گردی کا الزام لگایا جائے ۔ سارے میمن خاندان کو جو پاکستان سے لوٹے تھے وہ قید کرلئے گئے یہاں تک کہ ان کی بیویاں اور بہویں اور ذہنی مرض میں مبتلا سب سے چھوٹا بھائی یوسف بھی گرفتار کرلیا گیا اور سب پر دہشت گردی کے الزام میں مقدمہ قائم ہوگئے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ سی بی آئی چیف وجے راماراؤ نے جب مجھ سے کہا تھا کہ میمن خاندان کے ساتھ حکومت کی کوئی ڈیل نہیں تھی یہ بات سولہ آنے سچ تھی اور یہی بات میمن خاندان کی واپسی کو اور زیادہ قابل قدر بناتی ہے (اس سے یہ ثابت ہوتا ہے) ۔ میمن خاندان کو یہ یقین تھا کہ وہ پورے معاملے میں بے گناہ ہیں ۔ ان کو یہ بھی یقین تھا کہ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے جہاں ان کے ساتھ انصاف ہوگا اور عدالت میں ان کو انصاف ملے گا ۔ لیکن (ہندوستان کے تعلق سے) ان کی تمام امیدوں پر پانی پھر گیا … روبینہ کو زندگی بھر کی سخت سزا ملی کیونکہ داؤد کے لوگوں نے دھماکوں میں جس ماروتی وین کا استعمال کیا تھا وہ ان کے نام پر تھی ، حالانکہ اس وقت وہ ممبئی میں مقیم بھی نہیں تھی ۔ وہ چھ سال قبل دبئی منتقل ہوچکی تھی ۔ عیسی اور یعقوب (جو سخت علیل تھے) ان کو بھی زندگی بھر کے جیل ہوگئی ۔ ان کے خلاف محض اتنا ثبوت تھا کہ ان کے فلیٹ اور گیاریج میں ممبئی بم دھماکوں کی سازش رچی گئی تھی ۔
یعقوب میمن کو سزائے موت سنائی جاچکی ہے ۔ اس کے خلاف یہ الزام ہے کہ اس نے کچھ لوگوں (دھماکوں میں ملوث تھے) کے لئے گاڑیوں کا انتظام کیا اور بعد میں ان کے دبئی کے ٹکٹ خریدے … لیکن یعقوب یہ کام پہلے بھی کرتا تھا کیونکہ وہ داؤد کے حوالا بینک اکاؤنٹ جانتا تھا ، جن کا استعمال داؤد چاندی کی اسمگلنگ کے لئے کرتا تھا ، یہ ثابت نہیں کرتا کہ یعقوب میمن بم دھماکوں کی سازش سے واقف تھا ۔ لیکن اس کے خلاف ایک الزام یہ بھی ہے کہ اس نے اپنے ڈرائیور کو ایک بیگ اس لئے دیا تھا کہ وہ اس کو داؤد کے ساتھیوں کو دے دے اور اس بیگ میں ہینڈ گرینیڈ تھے ۔ یعقوب نے اس الزام کو مسترد کردیا ہے لیکن ڈرائیور نے منظور کیا ہے  ۔ لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ہتھیاروں کی لین دین ممبئی انڈر ورلڈ کی زندگی کا ہمیشہ سے ایک جز رہا ہے ۔ چنانچہ اگر یعقوب میمن کو اس بات کی خبر تھی کہ اس بیگ میں کچھ ہتھیار تھے تب بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یعقوب میمن کو ممبئی بم دھماکوں کی سازش کی پہلے سے اطلاع تھی …‘‘
مسیح رحمان کے اس مضمون نے یعقوب میمن کی پھانسی کی سزا کو ایک نیا موڑ دے دیا ہے ۔ یعقوب کے وکیل نے سپریم کورٹ کے سامنے ایک اور عرضی پیش کی ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یعقوب کو اس کی امیدوں کے مطابق کوئی فیصلہ ہوتا ہے یا پھر یعقوب میمن آخرکار تختۂ دار پر چڑھے گا !