یعقوب میمن کو پھانسی … انصاف یا انصاف کا خون؟

صابر علی سیوانی
ہندوستان ہمیشہ سے امن و آشتی کا گہوارہ رہا ہے ۔ یہاں کی کثرت میں وحدت کی مثالیں دی جاتی رہی ہیں ۔ ملک میں امن و امان اور بھائی چارے کی فضا کو پوری دنیا رشک کی نگاہ سے دیکھتی رہی ہے ۔ لیکن حالیہ کچھ برسوں میں اس ملک کو فرقہ پرستوں کی نظر لگ گئی بلکہ یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ ملک میں بدامنی اور فرقہ واریت کی فضا اس وقت سے مسموم ہونی شروع ہوئی جب ظہیر الدین محمد بابر کی تعمیر کردہ  بابری مسجد کی شہادت (1992) عمل میں لائی گئی ۔ مٹھی بھر فرقہ پرستوں اور شرپسندوں نے بابری مسجد شہید کرکے جو اپنا کریہہ چہرہ دکھایا اور جس فرقہ پرستی اور نفرت انگیزی کا مظاہرہ کیا ، اس کی وجہ سے اس ملک کی شبیہ پوری دنیا  میں داغدار ہوگئی  ۔ اس واقعے سے نہ صرف مسلمانوں کو تکلیف پہنچی بلکہ ملک کے سیکولر اذہان والے کروڑوں افراد بھی کبیدہ خاطر ہوئے۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد سے فرقہ وارانہ فسادات کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ آج بھی تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے ۔ ’’ایک تو کریلا اور اس پر نیم چڑھا‘‘ والی کہاوت موجودہ حکومت پر پوری طرح صادق آتی ہے ۔ 2002 میں مسلم نسل کشی کا دامن پر داغ لئے نریندر مودی کو اس جمہوری ملک کے اقتدار کی باگ ڈور سونپ دی گئی ، جس کی وجہ سے فرقہ پرستوں کو مزید شہ ملا اور وہ ’’سیّاں بھئے کوتوال اب ڈر کاہے کا‘‘ کے مصداق کھلے عام نفرت انگیزی کا مظاہرہ زبان ، قلم ، جسم اور ہتھیاروں کے ذریعے کرنے لگے ہیں ۔ خاص طبقے سے تعلق رکھنے والے مجرمین کی سزاؤں میں بھی حکومت خاص دلچسپی لینے لگی ہے ۔ ورنہ کیا وجہ تھی کہ اجمل قصاب اور  افضل گرو کی پھانسی میں اتنی جلد بازی کی گئی ۔ خصوصاً افضل گرو کی پھانسی کو پوری طور پر سیاسی چمتکار قرار دیا گیا ۔ اور اب یعقوب میمن کو پھانسی دے دی گئی ۔ اسے بھی سیاسی کرشمہ سازی قرار دیا جارہا ہے  ۔

بابری مسجد کی شہادت (1992) کے بعد 1993 کے آغاز میں بمبئی میں فرقہ پرستوں نے بڑے پیمانے پر فساد برپا کرڈالا ، جس میں ہزاروں مسلمانوں کی جانیں گئیں ، ان کی جان و مال کا اتلاف ہوا ۔ کہا یہ جاتا ہے کہ اس فساد کے ردعمل کے طور پر بمبئی میں  12 مارچ 1993 کو 2 گھنٹے تک سلسلہ وار 12 بم دھماکے ہوئے۔ ان دھماکوں میں بمبئی کے اہم ترین مقامات کو نشانہ بنایا گیا ، جن میں ایئر انڈیا بلڈنگ ، بمبئی اسٹاک ایکسچنج ، پٹرول پمپ  نزد شیواجی پارک اور ورلی جیسے اہم مقامات شامل ہیں ۔ ان سلسلہ وار دھماکوں میں 257 افراد ہلاک اور 713 لوگ زخمی ہوئے تھے ۔ ان دھماکوں میں ٹائیگر میمن ، داؤد ابراہیم اور یعقوب عبدالرزاق میمن کو کلیدی ملزمین قرار دیا گیا ۔ ٹائیگر میمن اور داؤد ابراہیم تو ہندوستانی حکومت کے ہاتھ نہیں لگے ، لیکن یعقوب عبدالرزاق میمن کو حکومت گرفتار کرنے میں کامیاب ہوگئی ۔ اس پر الزام یہ ہے کہ اس نے ان سلسلہ وار بم دھماکوں کی سازش کی تھی ۔ ایک سازشی کے طور پر اسے گرفتار کیا گیا ۔

یعقوب میمن ان دھماکوں کے بعد کراچی چلا گیا تھا جہاں وہ اپنی اہلیہ راحین کے ساتھ رہنے لگا تھا ۔ بمبئی بم دھماکوں کے سلسلے میں چل رہے ٹرائل میں اپنا تعاون دینے کی غرض سے وہ ہندوستان آنے پر آمادہ ہوگیا حالانکہ ٹائیگر میمن نے یعقوب میمن کو ہندوستان واپس نہ ہونے کا مشورہ دیا تھا اور کہا تھا ’’تو مہاتما بننے مت جا‘‘ ۔ اسی عنوان کی سرخی کے ساتھ ٹائمز آف انڈیا کی 28 جولائی 2007 کی اشاعت میں ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی ۔ یعقوب میمن کو کٹھمنڈو ایئرپورٹ سے 5 اگست 1994 کو گرفتار کرلیا گیا ۔ 12 جولائی 2006 کو ٹاڈا کورٹ نے یعقوب میمن کو قصوروار قرار دیا ۔ اس کے تقریباً ایک سال بعد 27 جولائی 2007 کو ٹاڈا کورٹ کے جج پی ڈی کوڈے نے ٹاڈا ایکٹ کے تحت میمن کو سزائے موت سنائی ۔ میمن پر 3.75 لاکھ کا جرمانہ بھی عائد کیا گیا ۔  21 مارچ 2013 کو سپریم کورٹ نے ممبئی دھماکوں کے ملزم یعقوب میمن کو سزائے موت سنائی ۔ مئی 2014 میں یعقوب میمن کے ذریعہ داخل کردہ درخواست رحم کو صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی نے خارج کردیا تھا ۔ 10 اپریل  2015 کو میمن کے ذریعہ سپریم کورٹ میں داخل ریویو پٹیشن یعنی درخواست نظر ثانی کو عدالت نے رد کردیا ۔ 29 اپریل 2015 ء کو اسپیشل ٹاڈا کورٹ جج جی سناپ نے میمن کی سزائے موت کی تاریخ 30 جولائی مقرر کی ، جو میمن کی تاریخ پیدائش (30جولائی 1962) بھی ہے۔ مئی 2015 میں میمن نے سپریم کورٹ میں کیوریٹیو پٹیشن داخل کی ، جس میں اس نے سزائے موت کے خلاف انصاف طلب کیا تھا ۔ لیکن 21 جولائی کو سپریم کورٹ کے جج بنچ نے اس کی کیوریٹیو درخواست مسترد کردی ۔

23 جولائی کو ایک بار پھر میمن نے اپنی پھانسی پر حکم التواء جاری کرنے کی سپریم کورٹ سے اپیل کی ، جس پر سپریم کورٹ کے دو ججس کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے ۔ پھر اس معاملے کو چیف جسٹس آف انڈیا ایس ایچ دتو کے حوالے کیا گیا ۔ انھوں نے تین ججس کی بنچ تشکیل دی اور اس بنچ نے بالآخر 29 تاریخ کی رات کو اپنا فیصلہ سناتے ہوئے میمن کی پھانسی کی سزا من و عن برقرار رکھی اور بالآخر یعقوب میمن کو 30 جولائی کی صبح 6.30 بجے سے 7 بج کر 10 منٹ کے دوران ناگپور سنٹرل جیل میں پھانسی دے دی گئی ۔ میمن کی پھانسی کے بعد ملک بھر میں سیاست شروع ہوچکی ہے۔ مختلف ماہرین اور سیاسی قائدین کے ملے جلے تاثرات سامنے آرہے ہیں ۔ ڈگ وجئے سنگھ نے کہا ہے کہ ’’اس پھانسی سے حکومت اور عدالت کی ساکھ داؤ پر ہے‘‘ ۔ ششی تھرور نے اسے "State Sponsored Killing” قرار دیا ہے ۔ مجموعی طور پر یعقوب میمن کی پھانسی کو مکمل انصاف سے تعبیر نہیں کیا جارہا ہے ۔
میمن کو پھانسی دیئے جانے کے بعد کئی سوالات پیدا ہونے لگے ہیں جو نہایت گمبھیر ہیں اور جن کا جواب حکومت کو دینا چاہئے اور اگر حکومت ان سوالوں کا جواب نہیں دیتی ہے تو صاف ظاہر ہے کہ اس کی نیت میں کہیں نہ کہیں کھوٹ ضرور ہے ۔ سب سے اہم بات یہ کہ جب آپ کسی کو زندگی نہیں دے سکتے تو آپ کو کسی کی جان لینے کا بھی حق نہیں ۔

پہلا سوال تو یہ ہے کہ جب یعقوب میمن کراچی سے 1994 میں ہندوستان آیا ، تو اس کا مقصد یہی تھا کہ وہ بمبئی کے سلسلہ وار بم دھماکوں کے مقدمے میں اپنا تعاون دینا چاہتا تھا اور اس نے تفتیشی ایجنسیوں کو تعاون دیا ۔ لیکن اسے گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا ۔ اور جیل میں 20 سال کی سزا کاٹنے کے بعد اسے پھانسی دے دی گئی۔ ایسے میں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے جو خود اس نے بھی حکومت اور عدالت سے کیا کہ جب ایک شخص عمر قید کی سزا کاٹ لیتا ہے ( جو 14 سال سے شروع ہو کر 26 سال یا اس سے زائد ہوتی ہے) تو پھر اس شخص کو دوسری سزا کے طور پر پھانسی کیوں دی جائے ؟ ایک ہی جرم کی دو دو سزائیں کیوں ؟ حالانکہ یعقوب میمن نے عدالت سے یہ بھی درخواست کی تھی کہ اس کی موت کی سزا کو عمر قید میں بدل دیا جائے لیکن اس کی درخواست پر غور نہیں کیا گیا ۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ بمبئی بم دھماکوں کے سازشی کو جب 20 سال کے بعد پھانسی دے دی گئی تو ان سلسلہ وار بم دھماکوں کے کلیدی  ملزمین کو آخر کب سزا ملے گی ؟ کیا انھیں ہندوستان لانا اورانھیں سزا دلانا ممکن ہے ؟ یعقوب میمن کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ یہ تو میمن کے ساتھ دھوکہ ہے ۔کیونکہ وہ ہندوستان آیا تھا تاکہ مقدمات کے سلسلے میں وہ عدالت کی مدد کرسکے ۔لیکن عدالت نے اسے 20 سال کی سزا کے بعد پھانسی کی سزا دی ہے ۔

تیسرا سوال یہ ہے کہ جب سزا دینے کی بات آتی ہے تو اس سلسلے میں خاص طبقے سے تعلق رکھنے والے مجرمین کو سزا دینے میں حکومت یا عدلیہ اتنی جلد بازی کیوں کرتی ہے ۔ کیا راجیو گاندھی کے قاتلوں اور بیّنت سنگھ کو ہلاک کرنے والوں کو تختۂ دار پر لٹکایا گیا؟ کیا بمبئی فسادات (2003) میں ملوث بال ٹھاکرے اور شیوسینا کے کارکنان کو پھانسی دی گئی جن کو سری کرشنا کمیشن رپورٹ میں قصور وار قرار دیا گیا تھا ۔ آخر بال ٹھاکرے کو پھانسی کیوں نہیں دی گئی ۔ مکہ مسجد بم دھماکوں کی کلیدی مجرم پرگیہ سنگھ ٹھاکر اب تک زندہ کیوں ہے ؟ کیا اس کا قصور اب تک ثابت نہیں ہوا ہے ؟ سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو عدالت نے سزائے موت کیوں نہیں سنائی ۔ مالیگاؤں اور اجمیر شریف درگاہ کے بم دھماکوں میں شامل زعفرانی دہشت گردوں کو دار ورسن تک کیوں نہیں پہنچایا گیا جو سیکڑوں افراد کے قاتل ہیں ۔

چوتھا سوال یہ ہے کہ بابری مسجد انہدام کے ذمہ داران بلکہ اس مہم میں پیش پیش رہنے والے لال کرشن اڈوانی ،مرلی منوہر جوشی ، ونئے کٹیار، اوما بھارتی اور کلیان سنگھ وغیرہ کو اب تک سزائیں کیوں نہیں دی گئیں ، جنھوں نے ملک میں فساد پھیلانے کا کام کیا اور جن کے اشاروں پر بابری مسجد شہید کردی گئی ۔ چونکہ ان سیاسی قائدین کا تعلق بی جے پی سے ہے اور مرکز میں اسی کی حکومت ہے ، اس لئے انھیںان کے گناہوں کی سزا نہیں دی جارہی ہے ۔ آخر ایسا کیوں؟ حالانکہ سی بی آئی ان کے خلاف  چارج شیٹ بھی داخل کرچکی ہے۔ 23 برسوں بعد بھی یہ کیس ابھی تک ٹرائل کے مرحلے میں ہے ۔ اب تک کسی کو سزا نہیں ہوئی ۔ آخر ان مجرمین کو سرکاری سرپرستی کیوں حاصل ہے ؟
پانچواں سوال یہ ہے کہ گجرات فسادات (2002) میں ملوث اور جیل کی سزا کاٹ چکے مایا کوڈنانی اور بابو بجرنگی جیسے مجرمین کو اب تک سزائے موت کیوں نہیں دی گئی جو نرودا پاٹیہ اور دیگر علاقوں میں فساد برپا کرنے کے مجرم ہیں ، جبکہ بابو بجرنگی نے اس حاملہ خاتون کا شکم چاک کرکے اس کے بچے کو مار ڈالا تھا جو بچہ اس خاتون کے پیٹ میں پل رہا تھا ، خود وزیراعظم مودی کا رول گجرات فسادات میں مشکوک ہے ۔ کیا یہ لوگ یعقوب میمن سے کم گنہگار ہیں ؟۔ اگر ہیں تو اب تک انہیں پھانسی کیوں نہیں دی گئی ؟ انھیں اب تک پھانسی دی گئی ہوتی تو فسادات کا جو سلسلہ 2002 سے اب تک جاری ہے وہ ختم ہوگیا ہوتا ۔

چھٹا سوال یہ ہے کہ مظفر نگر فسادات میں ملوث زعفرانی دہشت گرد اب تک آزاد گھوم رہے ہیں ، انھیں اب تک سزا کیوں نہیں دی گئی بلکہ انھیں تو فساد کرانے کے لئے بی جے پی نے انعامات سے نوازا ہے ۔ ایسے کئی سوالات ہیں جو یعقوب میمن کو پھانسی پر لٹادیئے جانے سے پیدا ہورہے ہیں اور اس سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ حکومت کا منشا صاف نہیں ہے ۔ صرف سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لئے یہ سب کچھ ہورہا ہے ۔ اجمل قصاب اور افضل گرو کو بھی پھانسی صرف سیاسی مقصد برآری کے پیش نظر دی گئی ۔ افضل گرو کی پھانسی کے بعد کشمیر کے حالات بگڑے ، کہیں ایسا نہ ہو کہ اب بمبئی کی پُرامن فضا آلودہ ہوجائے ۔ وہاں پھر سے فسادات پھوٹ پڑنے کے امکانات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے ۔

یعقوب میمن کی پھانسی سے ایسا لگ رہا ہے کہ یہ انصاف نہیں ، انصاف کا قتل ہے ۔جب اسے سزائے موت دینی تھی تو 20 سالوں تک اسے جیل میں رکھ کر سزائے عمر قید کیوں دی گئی ؟ یہ فیصلہ دو چار برسوں میں بھی آجانا چاہئے تھا ۔ اس سے عدالت کی روایتی سست روی ظاہر ہورہی ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ انصاف میں تاخیر انصاف کا گلا گھونٹنے کے مترادف ہوتا ہے اور یہ اس کی زندہ مثال ہے ۔ کیا میمن کو پھانسی پر لٹکادینے سے حکومت کی شبیہ بہتر ہوجائے گی ۔ حکومت یہ دکھانا چاہتی ہے کہ وہ  دہشت گردی کو قطعی برداشت نہیں کرسکتی ، اسی لئے میمن کو پھانسی دے دی گئی ۔
اب جبکہ یعقوب میمن کو پھانسی دی جاچکی ہے تو ایسے دوسرے مجرمین کو پھانسی کی سزا دینے میں بھی اتنی ہی گمبھیرتا اور سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہئے ، جنھیں سپریم کورٹ پھانسی کی سزا سنا چکا ہے اور جن کی درخواست رحم صدر جمہوریہ نے مسترد کردی ہے ۔ انصاف کا تقاضہ تو یہ تھا کہ پہلے بابو بجرنگی ، مایا کوڈنانی اور بابری مسجد کو شہید کرنے والے اور اس کے سازش کنندگان کو میمن سے پہلے پھانسی دی جاتی ، اس کے بعد یعقوب میمن کو تختۂ دار پر لٹکایا جاتا ۔ اس پھانسی کو ہم انصاف نہیں بلکہ انصاف کا خون کہہ سکتے ہیں ۔ کہیں ایسانہ ہو کہ یہ پھانسی حکومت کے گلے کی پھانس بن جائے ۔ اب عدالت اور حکومت کو نہایت سنجیدگی سے پھانسی کی سزا ختم کئے جانے پر غور کرنا چاہئے کیونکہ اس سے دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہوسکتا ہے ۔ گزشتہ 11 برسوں میں چار مجرمین کو پھانسی دی گئی ہے ، جن میں سے تین کا تعلق سب سے بڑے اقلیتی طبقے سے رہا ہے ۔ کیا اُن کو پھانسی دینے سے دہشت گردی ختم ہوگئی ؟یا اب ختم ہوجائے گی ۔
mdsabirali70@gmail.com