مقبوضہ بیت المقدس ،4دسمبر (سیاست ڈاٹ کام) فلسطین کے صدر محمود عباس نے امریکہ کو خبردار کیا ہے کہ بیت المقدس (یروشلم) کو اسرائیل کی راجدھانی قرار دینے کے فیصلے سے وائٹ ہاؤس خطے کے لیے امن کی کوششوں کو خطرے میں ڈال دے گا۔سرکاری نیوز ایجنسی وفا کے مطابق محمود عباس کا کہنا تھا کہ بیت المقدس (یروشلم) کو اسرائیل کا راجدھانی کے طور پر قبول کرنا یا بیت المقدس میں امریکی سفارت خانے کے حوالے سے کوئی قدم سے ‘خطے میں امن کے مستقبل کے لیے خطرات بڑھیں گے اور یہ ناقابل قبول ہے ‘۔خیال رہے کہ امریکی عہدیداروں نے کہا تھا کہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ جاریہ ہفتہ یروشلم کو اسرائیل کے دارالخلافہ کے طور پر قبول کرسکتے ہیں جس سے امریکی سفارت خانے کی بیت المقدس منتقلی کے ان کے ممکنہ فیصلے کی تاخیر کا اثر زائل ہوگا۔دوسری جانب اسرائیل بیت المقدس(یروشلم) کو اپنا راجدھانی قرار دیتا ہے لیکن عالمی برادری کا موقف ہے کہ شہر کی شناخت کا معاملہ امن مذاکرات کے ذریعے حل ہونا چاہیے جبکہ فلسطین اسرائیل کے قبضے کو غیرقانونی قرار دیتا ہے ۔فلسطین بیت المقدس کو اپنا راجدھانی قرار دیتا ہے جہاں اسرائیل نے 1967 میں قبضہ کیا تھا۔حماس نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ہم اس طرح کے اقدام کے حوالے سے خبردار کرتے ہیں کہ اگر بیت المقدس سے متعلق کوئی ظالمانہ فیصلہ اپنایا گیا تو فلسطینی عوام سے انتفاضہ بحال کرنے کا مطالبہ کریں گے ۔بعد ازاں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ‘یروشلم’ یا بیت المقدس میں اسرائیل کی جانب سے کسی بھی قسم کی کارروائی یا دباؤ اور طاقت کے استعمال کو غیر قانونی قرار دینے اور اس سے گریز کرنے کے حوالے سے اسرائیل مخالف قرار داد پیش کی گئی۔یہ قرار داد ان رپورٹس کے بعد ہی پیش کی گئی تھی کہ ٹرمپ انتظامیہ اپنے سفارت خانے کو بیت المقدس منتقل کرنے پر غور کر رہی ہے ۔اس قرار داد کے حق میں سب سے زیادہ 151 ریاستوں نے ووٹ دیا جبکہ 6 ریاستوں امریکا، کینیڈا، مائیکرونیزیا کی وفاقی ریاستوں، اسرائیل، جزائر مارشل، ناورو نے قرارد کی مخالفت میں ووٹ دیا۔اس کے علاوہ 9 ریاستوں آسٹریلیا، کیمرون، وسطی جمہوری افریقہ، ہونڈراس، پناما، پاپوا نیو گنی، پیراگوائے ، جنوبی سوڈان اور ٹوگو نے قرارداد پر ووٹ دینے سے گریز کیا۔