جانور کو بچانے انسان کی قربانی
دادری سے الور تک… مودی خاموش
رشیدالدین
مہذب سماج اور انسانیت کیلئے یہ طئے کرنے کا وقت آچکا ہے کہ آیا جانور کے مقابلہ انسانی زندگی کی کوئی اہمیت نہیں۔ ہندوستان میں فسادات اور دیگر تشدد میں بے قصور انسانی جانوں کا اتلاف کوئی نئی بات نہیں۔ آزادی کے بعد سے مسلم کش فسادات کی طویل تاریخ ہے جس پر انسانی حقوق کی تنظیمیں وقتی طور پر تشویش کا اظہار کرتی رہی ہے۔ کسی نئے واقعہ کے ساتھ ہی پرانے کو بھلادیا جاتا ہے ۔ فرقہ وارانہ منافرت کی بنیاد پر خون ناحق کا بہایا جانا ابھی تھما نہیں تھا کہ جانوروں کے تقدس کے نام پر ہلاکتوں کا رجحان ملک میں شدت اختیار کر رہا ہے ۔ انسان کے مقابلہ جانوروں کی اہمیت میں اضافہ ہوچکا ہے ۔ یہ رجحان ملک میں جارحانہ فرقہ پرست عناصر کے غلبہ کے بعد کچھ زیادہ ہی دکھائی دے رہا ہے ۔ اترپردیش کے دادری میں بیف کے مسئلہ پر اخلاق کے قتل سے راجستھان کے الور میں پہلو خاں کی ہلاکت تک اگر تمام واقعات کا جائزہ لیا جائے تو ان کے پس پردہ سازش کچھ اور ہی نظر آئے گی ۔ نفرت کے پرچارکوں کو جانوروں سے محبت محض ایک بہانہ ہے۔ اصل مقصد تو مسلمانوں میں دوسرے درجہ کے شہری کا احساس پیدا کرتے ہوئے انہیں پست ہمت کرنا ہے ۔ جانوروں سے محبت کے بہانے مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے اس احساس کی نفی کرنا مقصد ہے کہ ملک پر مسلمانوںکی حصہ داری دیگر طبقات کے مساوی ہے۔ ڈر اور خوف کا ماحول پیدا کرتے ہوئے مسلمانوں کو احساس کمتری میں مبتلا کرنے کی سازش ملک کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کی جانب پیش قدمی ہے۔ دادری میں اخلاق کے قتل کے بعد جانور کے نام پر تاحال 6 سے زائد ہلاکتوں کی اطلاعات ہیں۔ انسانیت کیلئے اہم سوال ہے کہ جانور کے مقابلہ انسانی جان کی اہمیت کیوں نہیں ؟ جانور کے تقدس کے نام پر بے قصور انسانوں کی جان لینے کی تعلیم کسی بھی مذہب اور دھرم نے نہیں دی ہے ۔ کوئی بھی دھرم گرو بتائے کہ جانور کو بچانے کیلئے انسان کو ہلاک کیا جاسکتا ہے ، جو کوئی بھی جانوروں کے رکھشک کے نام پر ظلم کر رہے ہیں، وہ مذہب کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں۔ مرکز میں نریندر مودی کے اقتدار نے نفرت کے سوداگروں کو بے لگام کردیا ہے ۔ جن ریاستوں میں بی جے پی سرکار ہے ، بیف اور گاؤ رکھشک کے نام پر نت نئے قانون بنائے جارہے ہیں۔ ملک میں قتل کے ملزمین ناکافی ثبوت پر بری ہوجاتے ہیں لیکن مخصوص جانور کاٹنے پر عمر قید کی سزا ناقابل ضمانت دفعات کے تحت مقدمات کے لئے قانون سازی کی گئی۔ اتنا ہی نہیں چھتیس گڑھ کے چیف منسٹر رمن سنگھ نے تو پھانسی کی سزا تجویز کرلی۔ ظاہر ہے کہ بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں اس طرح کے فیصلے اور اشتعال انگیز بیانات سے شر پسند عناصر کو ظلم و ستم کا لائسنس مل چکا ہے۔ اترپردیش میں یوگی راج کے بعد سے صرف جانوروں کے تحفظ پر توجہ مرکوز ہوچکی ہے ۔ گاؤ بھکتوں میں اگر ہمت ہو تو اپنی زیر اقتدار ریاست گوا میں گوشت پر پابندی عائد کر کے دکھائیں۔ یو پی ، گجرات ، راجستھان اور مدھیہ پردیش میں کمزوروں پر ظلم کو بہادری ظاہر کرنے والے ٹاملناڈو اور شمال مشرقی ریاستوں کا رخ کریں تو انہیں مناسب جواب ملے گا۔ ملک بھر میں جانور کے گوشت پر پابندی عائد کرنے کی بات کرنے والے نارتھ ایسٹ میں بیف سربراہ کرنے کا وعدہ کر رہے ہیں۔ کیا یہ ہندوستان کا حصہ نہیں ؟ دراصل ان کا نشانہ چونکہ مسلمان ہیں، لہذا اپنی سہولت اور ضرورت کے مطابق کارروائی کر رہے ہیں۔ آج بھی ہندوستان کا شمار بیف برآمد کرنے والے اہم ممالک میں ہوتا ہے اور اس کاروبار سے وابستہ افراد کی بی جے پی سے قربت ہر کسی پر عیاں ہے۔ چناؤ میں ان کمپنیوں نے بی جے پی کو بھاری ڈونیشن بھی دیا تھا۔
بیف کا مسئلہ آتے ہی سارا الزام مسلمانوں کے سر تھوپ دیا جاتا ہے۔ حالانکہ سروے کے مطابق بیف کا استعمال کرنے والوں میں مسلمان سے کہیں زیادہ دیگر طبقات ہیں چونکہ مسلمان Soft Target ہیں لہذا ہمیشہ ان کا خون جانوروں سے کمتر اہمیت کا مانا جاتا ہے ۔ اگر حکومت ملک بھرمیں بیف پر امتناع کا کوئی فیصلہ کرتی ہے تو مسلمانوں سے زیادہ دیگر طبقات احتجاج پر اتر آئیں گے ۔ ٹاملناڈو میں جانوروں کو دوڑانے کی رسم ’’جلی کٹو‘‘ پر جب سپریم کورٹ نے پابندی عائد کی تھی تو ٹاملناڈو کے عوام نے سپریم کورٹ کے فیصلہ کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ ٹامل عوام کے شدید جذبات کے آگے سپریم کورٹ اور مرکزی حکومت کو جھکنا پڑا۔ بڑے جانوروں کی قربانی کئی طبقات کے تہواروں کا اہم حصہ ہے لیکن کسی کی ہمت نہیں کہ تہواروں پر اعتراض کریں۔ راجستھان کے الور میں گاؤ رکھشکوں نے جس طرح مسلمانوں پر حملہ کر کے ایک کو ہلاک کردیا ۔ اس واقعہ پر مرکزی حکومت کی سرد مہری باعث افسوس ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی جو ہر مسئلہ پر ٹوئیٹ کرتے ہوئے عوام کو اپنے جذبات سے واقف کراتے ہیں لیکن الور کے واقعہ پر ان کا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جیسے تکنیکی خرابی کا شکار ہوگیا ہو۔ سب کا ساتھ سب کا وکاس اور تمام کے مذہبی جذبات کے احترام کا نعرہ لگانے والے مودی آخر خاموش کیوں ہیں ۔ دادری واقعہ سے لیکر آج تک حساس مسائل اور نفرت کے سوداگروں کی سرگرمیوں پر مودی کی خاموشی بدستور قائم ہے ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس انسانیت سوز واقعہ پر مودی پارلیمنٹ میں بیان دیتے۔ مودی اور راجستھان حکومت کی خاموشی سے یقیناً شرپسندوں کے حوصلے بلند ہوں گے ۔ اس واقعہ پر مرکز میں مسلم کوٹہ کے تحت شامل کئے گئے وزیر کا رویہ انتہائی شرمناک ہے جنہوں نے راجیہ سبھا میں اس واقعہ کا سرے سے انکار کردیا اور کہا کہ اس طرح کا کوئی واقعہ ہی پیش نہیں آیا۔ مختار عباس نقوی کے پیش نظر سنگھ پریوار کی خوشنودی ہے جبکہ ہر ٹی وی چیانل نے حملہ کے ویڈیو کو بار بار ٹیلی کاسٹ کیا ہے۔ ہندوستان کے تمام اخبارات ہی نہیں بلکہ نیویارک ٹائمز نے مسلمانوں کے خلاف مظالم اور عدم رواداری کے طور پر اس واقعہ کو پیش کیا۔ مختار عباس نقوی نے جب واقعہ سے انکار کیا تو نائب صدرنشین راجیہ سبھا کو واقعہ کی تحقیقات اور رپورٹ ایوان میں پیش کرنے کیلئے حکومت کو ہدایت دینی پڑی۔ دوسرے ایوان یعنی لوک سبھا میں وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے اس واقعہ کی تصدیق کی ۔ اگر مرکزی وزیر ہوتے ہوئے نقوی اس طرح کی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کریں تو پھر مسلمانوں سے انصاف کی کیا توقع کی جاسکتی ہے ۔ نقوی کے پاس اقلیتی امور کا قلمدان بھی ہے لیکن انہوں نے سنگھ پریوار کی چاپلوسی میں ہمیشہ دوسروں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
الہ آباد ہائی کورٹ نے بیف پر پابندی کے مسئلہ پر اہم فیصلہ سناتے ہوئے واضح کردیا کہ مکمل طورپر امتناع ممکن نہیں ہے کیونکہ غذا کا انتخاب ہر شخص کا دستوری حق ہے ۔ ہائی کورٹ کے اس فیصلہ سے واضح ہوگیا کہ بی جے پی کی سرپرستی میں گاؤ رکھشک مسلمانوں کے خلاف نفرت کا جو پرچار کر رہے ہیں، وہ غیر دستوری ہے۔ دستور نے بنیادی حقوق کے تحت ہر شہری کو اپنے مذہب پر چلنے کی مکمل آزادی دی ہے ۔ کوئی بھی پارٹی یا حکومت اکثریت اور طاقت کے بل پر من مانی نہیں کرسکتی۔ حکومت بھلے ہی کسی پارٹی کی ہو ، اسے دستور کی پابندی کرنی پڑے گی۔ اگر بیف کے مسئلہ پر سرگرمیاں شدت اختیار کرتی ہیں تو امکان ہے کہ عدلیہ اس معاملہ میں ضرور مداخلت کرے گی ۔ بے قصور افراد کو نشانہ بنانے والے مٹھی پر عناصر کو جان لینا چاہئے کہ وہ دراصل عوام کے صبر کا امتحان لے رہے ہیں۔ ملک کے عوام کی خاموشی کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔ ہندوستان کی آبادی کی اکثریت محبت ، رواداری اور بھائی چارہ پر یقین رکھتی ہے ۔ ہندوستان کے خمیر میں نفرت شامل نہیں ہے ، لہذا اگر ان سرگرمیوں کو روکا نہیں گیا تو عوام حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔ حکومت میں شامل افراد کو 1975 ء میں ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد جئے پرکاش نارائن اور مرارجی دیسائی کی قیادت میں اُٹھے عوامی انقلاب کو بھولنا نہیں چاہئے ۔ اس انقلاب نے خاتون آہن سمجھی جانے والی اندرا گاندھی کے اقتدار کا صفایا کردیا تھا ۔ ایمرجنسی اس قدر شدید تھی کہ عوام کھلی فضاء میں سانس لینے کے بارے میں سوچ رہے تھے لیکن جب عوام نے بغاوت کردی تو پھر اقتدار میں بیٹھے افراد کو خاک چاٹنی پڑی۔ یہی حال مرکز اور اترپردیش کے اقتدار میں بیٹھے لوگوں کا بھی ہوسکتا ہے ، اگر وہ ہوش کے ناخن نہ لیں۔ کسی بھی پارٹی کو اقتدار کے نشہ میں بے قابو نہیں ہونا چاہئے۔ عوام جنہوں نے اقتدار کے تخت تک پہنچایا ہے ، وہ انہیں بے دخل کرنے کی طاقت بھی رکھتے ہیں۔ ملک میں بیف ، سوریہ نمسکار ، طلاق ثلاثہ اور یوگا جیسے مسائل کے ذریعہ عوام کو بانٹنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ مخصوص مذہب کو مسلط کرنے کی کوششیں ہندوستان میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ ملک کی تاریخ میں راجہ مہاراجاؤں نے بھی کسی مخصوص مذہب کو مسلط کرنے کی کوشش نہیں کی۔ شیواجی اور مہارانا پرتاپ جیسے حکمراں بھی مسلمانوں پر بھروسہ کرتے تھے ۔ ان کی فوج میں مسلمانوں کو اہم عہدے دیئے گئے۔ دراصل فوج اور ایڈمنسٹریشن میں مسلمانوںکی نمائندگی ان کی قابلیت کی بنیاد پر تھی، اس وقت مختار عباس نقوی یا نجمہ ہبت اللہ جیسے موقع پرست افراد نہیں تھے ورنہ ان بادشاہوں کا حشر بھی برا ہوتا۔ ہندوستان میں مسلم بادشاہوں یا غیر مسلم ہر کسی نے رواداری کی روایات کو برقرار رکھا۔ سنگھ پریوار کی سرپرستی میں اگر بی جے پی ملک کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کا خواب دیکھ رہی ہے تو اسے جان لینا چاہئے کہ یہ اس کے زوال کا آغاز ہوگا۔ لکھنو کے شاعر حیدر علوی نے کیا خوب تبصرہ کیا ہے ؎
ہیں قتل گاہیں یہاں کوئی یار تھوڑی ہے
ہمارے واسطے باغ و بہار تھوڑی ہے