مجید صدیقی
آج کل ہماری پارلیمنٹ ایک نہ ایک متنازعہ مسائل پر مباحثہ کرکے اپنا وقت برباد کررہی ہے، جبکہ اس کا ایک ایک منٹ قیمتی ہواکر تا ہے۔ جس کے لئے ہندوستان کے کروڑوں محنت کش عوام کی خون پسینہ کی کمائی خرچ کی جاتی ہے تاکہ سیاست داں، بیوروک کریٹس ملک کو نئے نئے قوانین اور تجاویز سے آراستہ کرکے ترقی کی ڈگر پر لے آئیں جہاں مالی معاشی اور سماجی خوشحالی دیکھنے کو ملتی ہو۔ لیکن حکومت اور اپوزیشن کے درمیان پچھلے کئی اجلاسوں میں تعطل کی وجہ سے اجلاس کے باوجود نہ کوئی اہم بل پاس ہوا ہے (جی ایس ٹی) اور نہ کوئی ملک کے فائدے کے اہم پالیسی معاملے طے پائے ہیں۔ اس پارلیمانی تعطل کے لئے جہاں حکومت ذمہ دار ہے، وہاں اپوزیشن (جس میں کانگریس سب سے بڑی جماعت ہے) نے بھی کچھ سمجھداری اور دانشمندی کا مظاہرہ نہیں کیا ہے جس سے یہ تاثر لیا جاسکتا کہ کم از کم اپوزیشن کو ذمہ داری اور جوابدہی کا احساس ہے۔ آج کل پارلیمنٹ میں اور پارلیمنٹ کے باہر بھی ایک متنازعہ مسئلہ ’’اگسٹا ویسٹلینڈ ہیلی کاپٹر ڈیل‘ پر رشوت ستانی کا معاملہ بڑے زور و شور سے چل رہا ہے جس کی غڑض و غایت شاید یہ ہے کہ آئندہ ہونے والے 2017ء کے یو پی انتخابات کے لئے بی جے پی (نریندر مودی) کو ایک موضٰع مل جائے تاکہ وہ کانگریس کو ان انتخابات میں شکست سے دوچار کردے۔ مودی حکومت کے صدر بی جے پی یا تدبیر کی تو اس مسئلہ کے رونما ہونے کے بعد بانچھیں ہی کھل گئیں، کیوں کہ اس وقت وہ کسی موزوں، موضٰع کی تلاش میں تھے۔ اس کے علاوہ ان کے پاس اس انتخابات کے لئے بہت کچھ ہے جیسے دلت کارڈ کا استعمال، مغربی یو پی کو ذات پات کی بنیاد پر ایک کرنا اور مشرقی یو پی میں طبقاتی کشمکش کو ہوا دینا وغیرہ۔ خیر یہ باتیں آج ہمارا موضوع نہیں ہے۔
پارلیمنٹ جب دہل اٹھا جب صرف ایک دن پہلے حلف لینے والے سبرامنیم سوامی جنہیں راجیہ سبھا کا ممبر نامزد کیا گیا تھا، نے اپنے بیان میں کہا کہ ہیلی کاپٹر معاملہ میں صدر کانگریس سونیا گاندھی کے ملوث ہونے کا ان کے پاس ثبوت ہے۔ ان کے ہاتھ میں چند دستاویزات تھے جسے وہ باربار پارلیمنٹ میں (راجیہ سبھا) میں دکھارہے تھے۔ سونیا گاندھی کا نام اس ہیلی کاپٹر خریدی اور رشوت خوری کے معاملے میں آتے ہی کانگریس ارکان سونیا گاندھی جو ایوان میں موجود تھیں برہم ہوگئیں اور انہوں نے کہا کہ ’’میں نے غلط کچھ نہیں کیاہے، اور حکومت سی بی آئی کی جانچ کے ذریعہ معاملہ کی تہہ تک پہنچ سکتی ہے اور جو بھی ملوث ہوں انہیں سزا دے سکتی ہے۔‘‘
سبرامنیم سوامی سے ہندوستان کا ہر شہری، خصوصاً مسلمان اچھی طرح سے واقف ہیں۔ وہ ایک معاشیات کے اعلی تعلیم یافتہ ڈاکٹر ہیں اور پہلے امریکہ میں پروفیسر تھے اور ہم سمجھتے ہیں کہ ان کا امریکہ میں ہی رہنا بہتر تھا، کیوں کہ وہ جب سے آئے ہمیشہ ’’توڑ پھوڑ‘‘ کی سیاست میں مصروف ہیں۔ کبھی نیشنل ہیرالڈ کے سلسلے میں سونیا گاندھی اور راہول گاندھی کو پھنسانے کی کوشش کی، کبھی جئے للیتا چیف منسٹر ٹاملناڈو کو پھنساکر ان کی بددعا لی، اور باقی دنوں میں ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کی دل آزاری ان کا آج کل محبوب مشغلہ ہے۔ وہ رام مندر کی تعمیر کے سب سے بڑے علمبردار اور ہندوتوا کے حامی اور مسلمانوں کے ہیں۔ ایسا تو نہیں کہ ان کی بیٹی کے ایک مسلمان لڑکے سے شادی کے بعد سے وہ ذہنی طور پر مخالف مسلم ہوگئے ہوں، پتہ نہیں کیا بات ہے۔
انہوں نے صدر کانگریس سونیا گاندھی کو راست نشانہ بناتے ہوئے ایوان میں بیان دیا کہ ’’ان کے پاس ایسے شواہد موجود ہیں کہ سی بی آئی کو ان کے خلاف (سونیا گاندھی) ایکشن لیتے ہوئے ان پر قانونی جارہ جوئی کرنا چاہئے اور ان کا پاسپورٹ بھی ضبط کرلینا چاہئے۔ سوامی کے یہ الزامات یو پی اے حکومت کے دور میں ہیلی کاپٹر معاملت اور اس سلسلہ میں لی گئی رشوت سے متعلق ہیں۔ سوامی کی راجیہ سبھا میں شمولیت پر ہمیں ایک ضرب المثل یاد آگئی جیسے ’’کریلا وہ بھی نیم چڑھا‘‘۔ سوامی کے اس بیان پر موجودہ اپوزیشن کے کانگریس قائدین اندیپ سوجیوالا ابھیشیک سنگھوی اور غلام نبی آزاد نے بھی حکومت پر بھرپور وار کرکے، حقائق کی تحقیق سی بی آئی سے کروانے پر زور دیا ہے۔
ویسے ہم یہاں ایک بات کہنا چاہتے ہیں کہ سبرامنیم سوامی، اور بھاجپا قائدین ہندوستان کی سیاست میں سونیا گاندھی کے سامنے بچے ہیں اور سیاست کے کچے کھلاڑی ہیں اور مسز گاندھی کے تجربہ اور فراست کے سامنے شاید ہی بھاجپا کا کوئی قائد ٹک سکتا ہے ۔ جنہیں اکثر ’’آئرن لیڈی‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ مسز اندرا گاندھی اور ان کی بہو سونیا گاندھی دونوں ہی ’’خاتونِ آہن‘‘ ہیں۔ مثال کے طورپر اگر وہ آہنی دشمنی ارادہوں اور عزم مصمم سے کام نہ لیتیں تو آج آندھرا۔تہلنگانہ علیحدہ نہ ہوتے۔ علیحدہ تلنگانہ کی تشکیل ہی سونیا گاندھی کے تدبر، سیاست اور آہنی ارادوں کی رہین منت ہے۔ اس کے بعد ہمارے چیف منسٹر چندر شیکھر رائو کا یقین محکم، عمل پیہم رہا ہے جس کی وجہ سے آج ہم علیحدہ تلنگانہ میں سانس لے رہے ہیں۔
این ڈی اے I کے دورض حکومت میں جبکہ جارج فرنانڈیز وزیر دفاع بنائے گئے تھے، وہ اکثر ہمالیائی برفانی چوٹیوں پر تعینات فوجیوں کے حالات جانتے اور فوج کا حوصلہ بڑھانے بذریعہ ہیلی کاپٹر ان ہزاروں فٹ اونچی چوٹیوں کا سفر کیا کرتے تھے۔ چوں کہ یہ ’’چیتا‘‘ ہیلی کاپٹر اور ایم آئی8 ، روس سے لئے گئے ہیں پرانے ہوچکے تھے اور وہ زیادہ اونچی پرواز بھی نہیں کرتے تھے اس لئے ایک تجویز رکھی گئی تھی کہ ملک کی افواج سے ربط قائم رکھنے کے لئے نئے اور زیادہ اونچائی تک پرواز کرنے والے ہیلی کاپٹر خریدے جائیں۔ بعد میں اس وقت کے این ڈی اے کے وزیر دفاع جارج فرنانڈیز کو ڈیفنس کے تابوت اسکام میں مستعفی ہونا پڑا۔ اسی لحاظ سے اس وقت 2003ء میں قومی سلامتی مشیر برجیش مشرا کی صدارت میں میٹنگ ہوئی جس میں طے پایا کہ زیادہ اونچائی تک سفر کرنے والے اور زیادہ مسافروں کو لے جانے والے وی وی آئی پی چاپرس (ہیلی کاپٹرس) خرید نے کی سفارش کی گئی۔ یہاں یہ تذکرہ بے جا نہ ہوگا کہ حکومت کی تبدیلی کے بعد ان ہیلی کاپٹروں کو صدر جمہوریہ سونیا گاندھی ڈاکٹر منموہن سنگھ کے سفر کے لئے نئے ہیلی کاپٹروں کی خرید کی لئے 2010ء میں (12) ہیلی کاپٹروں کے لئے ایک معاہدہ اگسٹا ویسٹ لینڈ کمپنی سے کیا گیا جو کہ برطانیہ میں یہ چاپرس بناتی ہے اور اٹلی سے اس کا تجارتی اشتراک ہے۔ جو بات میٹنگ میں طے ہوئی تھی وہ تھی ہیلی کاپٹر (6,000) فیٹ کی بلندی تک پرواز کرتا ہو اور دوسری شرط یہ تھی کہ اس کا کیبن 1.83 میٹر تک اونچا ہو تاکہ کوئی گارڈ بھی کھڑا رہ سکے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ٹنڈرس میں جو قانونی نکات اور شرائط تھیں وہ تبدیل کردی گئیں جس کا شبہ اس وقت کے فضائیہ کے چیف منسٹر ایر مارشل ایس پی تیاگی پر ہے جو (2004-07) کارگزار رہے ان پر کیا جارہا ہے۔ تیاگی کے دور میں ہی ٹنڈرس میں من مانی تبدیلیاں کی گئیں تھیں، بتایا گیا ہے۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ جن شرائط پر دوسری فرانسیسی اور امریکی کمپنیوں کے ہیلی کاپٹر خریدے جانے والے تھے وہ یو پی اے دور حکومت میں بدل دیئے گئے جو ہیلی کاپٹر کی بلندی کی شرط 6,000 فٹ بلندی تک پرواز اور کیبن کی چوڑھائی اور لمبائی رکھی گئی تھی وہ بھی کم کردی گئی اور پروان صرف 4500 فٹ تک محدود کردی گئی تھی۔
اگسٹا ویسٹ لینڈ ہیلی کاپٹر جو کہ ایک اٹلی فرم فن میکانیکا کے ضم ہونے کے بعد منظر پر آئی ہے اسے 12 ہیلی کاپٹروں کا آرڈر دے دیا گیا (یو پی اے دور میں) جو کہ جملہ 3600 کروڑ کی ڈیل تھی جس پر معلوم ہوا کہ 360 کروڑ روپئے اٹلی اور ہندوستان کے درمیانی آدمیوں کو پہنچائے گئے۔
چونکہ محترمہ سونیا گاندھی کا تعلق بھی اٹلی سے ہی ہے اور وہ 1968 ء میں محترمہ اندرا گاندھی کی بہبو اور راجیو گاندھی کی بیوی بن کر بھارت آئیں، اس لئے بھاجپا قائدین سونیا گاندھی کے اس تعلق سے فائدہ اٹھاکر انہیں بیرونی شہری اور اٹلی سے تعلق پر اس اگسٹا ویسٹ لینڈ ہیلی کاپٹر ڈیل میں رشوت خوری کا الزام لگارہے ہیں۔
یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اگسٹا ویسٹ لینڈ کے کمپنی کے ہیلی کاپٹر خریدنے اور اسے فائدہ پہنچانے کی غرض سے ٹنڈرس میں تبدیلی اور دوسری معیاری ہیلی کاپٹر کمپنیوں جیسے امریکی کمپنی سکیوریٹی کو اس مقابلے سے دور رکھا گیا تھا۔ اے ڈبلیو ہیلی کاپٹر انگلینڈ میں اٹلی کی کمپنی کے تعاون سے تیار ہوتے ہیں۔
بی جے پی نے نریندر مودی وزیراعظم کی ایماء پر صدر کانگریس سونیا گاندھی، راہلو گاندھی نائب صدر کانگریس اور سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کو گھیرنے اور ان پر الزامات عائد کرکے بے بس کرنے کے لئے ایک پیانل تشکیل دیا ہے جس میں ارون جیٹلی، روی شنکر پرساد، منوہر پریکر، امیت شاہ اور سبرامنیم سوامی شامل ہیں جو سونیا گاندھی کو اس اسکام میں راست نشانہ بناتے ہوئے بہت سے غیر متعلقہ الزامات عائد کررہے ہیں۔
وینکیا نائیڈو کا کہنا ہے کہ ہم اس معاملہ کو حتمی اختتام لاجیکل اینڈ) تک پہنچائیں گے۔ منوہر پاریکر وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ عوام جاننا چاہتے ہیں کہ آخر کون کون سیاستداں اور بیوروکریٹ اس رشوت خوری سے مستفید ہوئے ہیں اور آخر یہ رشوت کی رقم کن کن لوگوں تک پہنچی ہے۔ ایک موقع پر تو سونیا گاندھی کے ساتھ ساتھ ان کے سیاسی مشیر احمد پٹیل کا نام بھی گھسیٹا گیا ہے۔ اس کے جواب میں احمد پٹیل نے جواب دیا ہے کہ اگر یہ ثابت ہوجائے کہ میں نے رشوت لی ہے تو مجھے پھانسی پر لٹکادیا جاسکتا ہے۔
راہول گاندھی کو بھی اس معاملت میں گھسیٹا جارہا ہے لیکن انہوں نے کہا کہ اگر مجھے نشانہ بنایا جاتا ہے تو میں ڈرنے کی بجائے خوش ہوتا ہوں۔
بھاجپا کی کانگریس کو اور صدر کانگریس کو نشانہ بنانے کی ساری حکمت عملی صرف ایک کاغذی نوٹ پر منحصر ہے اور اس کے اطراف گھومتی ہے۔ جس میں درمیانی آدمی جس نے رقومات کی تقسیم کی ہے جو کہ کرسچین مائیکل کے ہاتھ کا لکھا ہوا بغیر دستخط کا کاغذ ہے۔ جو پیٹر ہیولٹ کو لکھا گیا تھا۔ اٹلی کے کورٹ نے جب پہلے ہی اپنے فیصلے میں اس بنا دستخط کے نوٹ کو مسترد کردیا ہے تو اس کی اب کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی۔ اس نوٹ میں مسز سونیا گاندھی اور سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کے نام موجود ہیں۔ حالانکہ بی جے پی کو اپنے پہلے دور کے وقت جس میں حوالہ کیس میں ایک بغیر دستخط کے نوٹ میں جو ڈائری میں شامل تھا دستیاب ہوا تھا اور اس کا انہیں تجربہ بھی ہے اور اس ڈائری کے صفحے پر حوالہ کیس میں ایل کے اڈوانی، وی سی شکلا اور دوسرے 21 سیاستدانوں کے نام لکھے ہوئے ملے تھے لیکن، کورٹ نے اس کاغذ کو کوئی قانونی حیثیت نہیں کہہ کر کیس بند کردیا تھا لیکن اب وہی بی جے پی اسی طرح کے ایک کاغذی نوٹ پر اپنی ریت کی دیوار بنارہی ہے، جس کا انجام بھی حوالہ کیس کی طرح ہوسکتا ہے۔
کسرچین مائیکل کے نوٹ میں سونیا گاندھی کے ساتھ سابق وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ، پرنب مکرجی، احمد پٹیل، ویرپا موئیلی، آسکر فرنانڈیز، ایم کے نارائنن اور ونئے سنگھ کے نام بھی ہیں جو کہ سونیا گاندھی کے قریبی ایڈوائزرس ہیں کہا گیا ہے۔