ہند ۔ پاک وزرائے اعظم کی مجوزہ ملاقات ’’اس دوستی کا نام ابھی زیر غور ہے‘‘

غضنفر علی خان
ہندوستان اور پاکستان کے وزرائے اعظم نے روس کے شہر اینا میں سنگھائی کانفرنس کے دوران ایک ملاقات میں ، روس اور چین کے مبینہ اصرار پر باہمی بات چیت کرنے سے اتفاق کرلیا ۔ ملاقات بھی ہوئی اور مشترکہ بیان بھی جاری ہوا جس میں دونوں ممالک نے تمام دو طرفہ مسائل پر تبادلہ خیال کرنے اور ان کا حل تلاش کرنے کی کوشش سے اتفاق کرلیا ۔ ان مسائل میں بمبئی حملہ کے اصل ملزم ذکی الرحمن لکھوی کی دوبارہ گرفتاری اور اس تعلق سے مقدمہ کی ازسر نو سماعت سے بھی اتفاق ہوا ۔ ملاقاتیں اور دوستی بڑھانے کی کوششیں کوئی نئی بات نہیں ۔ اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ دونوں ملکوں کے سربراہوں سے لیکر وزرائے خارجہ ، خارجی امور کے سکریٹریز ، بارڈر سیکورٹی فورسس اور پاکستانی رینجرس میں ملاقاتیں ہوچکی ہیں ۔ امن کی بحالی کی خواہش بھی دیرینہ ہے اور دونوں طرف ہے پھر بھی دونوں میں نہ تو مکمل امن و دوستی ہوسکی اور نہ مکمل جنگ ہوسکی ۔ امن اور دوستی ہندوستان اور پاکستان کی سیاسی حکمت عملی اور مصلحت اندیشی کے ہمیشہ یرغمال بنے رہے اور شاید آئندہ بھی رہیں گے ۔ امن دوستی صرف تمناؤں اور خواہشات ، سیاسی بیان بازی سے حاصل نہیں ہوتی اس کے لئے عزم و حوصلہ کی ضرورت ہوتی ہے ۔ دوستی جب تک سیاسی مصلحتوں کے حصار میں بند رہے گی تب تک وہ پائیدار نہیں ہوسکتی ۔ یہی بات ہند ۔ پاک دوستی کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے ۔ فریقین اپنے اپنے اٹل موقف پر قائم ہوتے ہوئے کبھی کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں کرسکے ۔ پاکستان کا قیام غیر منقسم ہندوستان کی تاریخ کا ایک دردناک باب ہے ، لیکن اب یہ بحث لاحاصل ہوگئی ہے اور اپنا اطلاق بھی کھوچکی ہے کہ تقسیم ہند کی وجوہات کیا تھیں ۔

تقسیم ایک حقیقت ہے ایک تاریخی اور جغرافیائی سچائی ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ تقسیم کے بعد بننے والے ممالک خواہ ہمیں پسند ہوں یا نہ ہوں وہا ںہمارے پڑوسی بن جاتے ہیں ۔ ہندوستان میں بھی تقسیم کے مخالفین تھے اور آج بھی ہیں خود مولانا ابواالکلام آزاد قیام پاکستان کے مخالف تھے لیکن پاکستان کے قیام کے بعد مولانا نے اس حقیقت کو تسلیم کرلیا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد مولانا نے کبھی پاکستان کے بارے میں کچھ نہیں کہا ۔مولانا کے علاوہ دیگر قومی رہنماوں نے جن میں پنڈت جواہر لال نہرو بھی شامل ہیں کبھی پاکستان کی مخالفت نہیں کی ۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔ بی جے پی کے سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے کہا تھا کہ ’’دوست بدلے جاسکتے ہیں پڑوسی نہیں‘‘ اور ان کی کہی ہوئی بات کو پارٹی کے لیڈر آج بھی موقع بہ موقع دہراتے ہیں ۔ دوسری طرف پاکستان میں مخالف ہندوستان عناصر ہیں ، جو بہت زیادہ سخت گیر موقف رکھتے ہیں ، جن کے دل و دماغ مسئلہ کشمیر پر ہی رکے ہوئے ہیں ۔ یہ عناصر پاکستان کی سیاست پر گہرا اثر رکھتے ہیں جبکہ ہندوستان میں مخالف پاکستان عوامل کم و بیش بے اثر ہوگئے ہیں ۔ اس فرق نے ساری صورتحال بگاڑ کر رکھ دی ہے ۔ پاکستان کا سانحہ ہے کہ وہاں کبھی جمہوریت اپنے اصلی معنوں میں پنپ نہیں سکتی ۔ ایک ایسی صورت ہمیشہ پاکستان میں رہی جبکہ منتخبہ جمہوری حکومتوں پر فوج کی گرفت رہی ۔ پاکستان میں جب بھی جمہوری حکومت کا تختہ الٹا اس کے پیچھے فوج ہی کا ہاتھ تھا ۔ یہ روایت آج بھی قائم ہے ۔ خود موجودہ وزیراعظم نواز شریف بھی فوج کی بغاوت اور خود ساختہ جلاوطنی کے شکار رہے ۔ بے۔نظیر بھٹو مرحومہ کا بھی یہی حشر ہوا ۔ ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو کو تو فوج نے بیدخل کرنے کے بعد پھانسی پر لٹکادیا ۔ فوج اور جمہوری حکومت پاکستان کی سیاسی تقدیر بن گئی ہے ۔ یہ کبھی بھی ایک دوسرے سے محفوظ فاصلہ safe distance نہیں رکھ سکے ۔ آج بھی یہی ہورہا ہے نواز شریف اور وزیراعظم مودی یہ طے کرلینے کے باوجود کہ آئندہ سارک چوٹی کانفرنس کے موقع پر دونوں کی ملاقات ہوگی لیکن چند ہی دنوں میں پاکستان کی حکومت کے مشیر برائے صیانتی امور سرتاج عزیز نے یہ کہہ دیا کہ وزرائے اعظم کی ملاقات اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک مسئلہ کشمیر کا مشترکہ بیان میں تذکرہ نہ ہو ۔

ابھی تک تو پاکستانی فوج کے سربراہ وہاں کے  وزیراعظم کو ڈرایا دھمکایا کرتے تھے اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ نواز شریف حکومت کے مشیر بھی ان کے فیصلے سے اختلاف کررہے ہیں ۔ سیول سرونٹ کی حیثیت سے سرتاج عزیز کا یہ بیان بالکل غلط ہے ۔ وہ اپنے وزیراعظم سے ایسے اہم اور نازک مسئلہ پر اختلاف نہیں کرسکتے ۔ تعجب کی بات تو یہ ہے کہ سرتاج عزیز کے بیان کی نواز شریف نے تردید نہیں کی ۔ سوال یہ ہے کہ سرتاج عزیز کس کی ایماء پر سب کچھ کہہ رہے ہیں ۔ کیا وہ بھی پاکستانی فوج کے دباؤ میں ہیں یا پھر ڈپلومیٹ ہونے کے ناطے وہ پاکستان کے انتہا پسند عناصر کو خوش رکھنے کے لئے مسئلہ کشمیر کی آڑ لے رہے ہیں ۔ پاکستان کی داخلی صورتحال کچھ ہو وہاں کونسی طاقتیں ہند و پاک مجوزہ بات چیت کی مخالفت کرتی ہیں اس سے ہندوستان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کی وزارت خارجہ ایسے منفی بیانات کی پروا کئے بغیر وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعظم مودی کی ملاقات کے لئے تیار ہے ۔ پاکستان کے وزیراعظم نے تو اس افتاد کے بارے میں کچھ نہیں کہا ۔ یہ ہندوستان کا طریقہ ہے کہ اپنے وزیراعظم کے طے شدہ پروگرام یا ملاقات کے بارے میں حکومت کا کوئی عہدہ دار یا مشیر کوئی تبصرہ نہیں کرتا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان میں بھی انتہا پسند تنظیمیں موجود ہیں جو ہند ۔پاک مذاکرات اور ملاقات کی سخت مخالف ہیں ، لیکن ان کی مخالفت حکومت اور وزیراعظم کو متاثر نہیں کرسکتی ۔ دوستی کیسے ہوسکتی ہے

جبکہ پاکستان مشروط رویہ اختیار کرتا ہے ۔ دوست تو وہ ہوسکتا ہے جو دوستی کی خاطر قربانی دینے کے لئے آمادہ ہو یہاں تو بات ہی دوسری ہے ۔ شرائط کے بغیر پاکستان بات چیت کے لئے آمادہ نہیں ہے ۔ اگر ان گنجلک حالات میں دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کی ملاقات ہوتی ہے تو اس کے فیصلہ کن انداز میں کامیاب ہونے کے امکانات نہیں ہیں ۔ ہندوستان اور پاکستان میں یہ غیر یقینی امن اور دوستی برصغیر کے لئے کتنی نقصان دہ ہے اسکا پاکستان کو اندازہ نہیں ہے ۔ پھر یہ بھی صحیح ہے کہ پاکستان ماضی میں اتنی مرتبہ اپنا موقف بدلا ہے کہ اس پر اعتماد کرنا دشوار ہے ۔ کارگل جنگ نے تو دوستی کا بھرم ہی توڑ دیا ، لیکن بین الاقوامی روابط اور تعلقات میں ایسے فریب اور دھوکے عام بات ہے ۔ ممالک کے درمیان دوستی اورمفاہمت کے لئے دو طرفہ کوشش چاہئے ۔ اتنی مرتبہ ناکامی کے بعد آج بھی ہندوستان دوستی کے لئے ہاتھ بڑھاتا ہے تو یہ اس کے سیاسی طور پر بالغ ہونے کا ثبوت ہے ۔ بات چیت نتیجہ خیز ہو یا نہ ہو دو طرفہ مذاکرات کو جاری رکھا جانا چاہئے ۔ کیونکہ اسکے بند ہوجانے سے اور بھی گھٹن کی فضا پیدا ہوتی ہے ۔ مجوزہ بات چیت سے بہت زیادہ توقعات کرنا کسی بھی طرح سے درست نہیں ہے ۔ کیونکہ 67 سال سے بگڑتے سدھرتے تعلقات ایک نشست یا ایک ملاقات میں نارمل نہیں ہوسکتے ۔ ان کے بہتر ہونے کی کوشش ضرور ہونی چاہئے ۔ ہند پاک دوستی کے لئے یہی کہا جاسکتا ہے کہ کوششوں اور مساعی کو جاری رکھا جانا چاہئے کامیابی کسی نہ کسی وقت حاصل ہوگی ۔ اس امید پر یہ بات چیت ہورہی ہے اور آئندہ کبھی بھی ہوگی تو امید کی شمع ضرور روشن رہے گی ۔
ملتے ہیں ہاتھ پھر بھی دلوں میں ہیں فاصلے
اس دوستی کا نام ابھی زیر غور ہے