محمد ریاض احمد
پنجاب کے پٹھان کوٹ میں ہندوستانی فضائیہ کے اڈہ پر دہشت گردانہ حملہ نے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان خوشگوار ہوتے تعلقات پر نئے سوالات پیدا کردئے ہیں ۔ اس واقعہ میں جملہ 7 ہلاکتیں ہوئی ہیں جن میں حکام کے مطابق پاکستان سے آئے چار درانداز اور فضائیہ کے تین سپاہی شامل ہیں ۔ وزیراعظم نریندر مودی کے گذشتہ سال کے اواخر میں روس سے کابل اور کابل سے اچانک لاہور پہنچ کر اپنے پاکستانی ہم منصف میاں محمد نواز شریف کو سالگرہ کی مبارک باد دینے اور ان کی نواسی کی شادی کی خوشیوں میں مختصر وقت کیلئے شامل رہنے کے بعد سمجھا جارہا تھا کہ دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان تعلقات میں خوشگوار تبدیلی آئے گی ۔ ساتھ ہی یہ بھی قیاس آرائیاں کی جارہی تھیں کہ کوئی ایسی نادیدہ طاقت ہے جو ہندستان اور پاکستان کی قربت کو کسی بھی طرح برداشت نہیں کرسکتی اس سلسلہ میں کارگل سے لیکر 2008 کے ممبئی دہشت گرد حملوں کی مثالیں لی جاسکتی ہیں ۔
سال 2004 میں اس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے پاکستان کا تاریخی دورہ کیا جس کے بعد کئی دہشت گردانہ واقعات پیش آئے ۔ 1999 میں میاں نواز شریف کے دور حکومت میں دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری آرہی تھی کہ کارگل جنگ شروع ہوگئی ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ تیسری طاقت کون ہے جو ہندوستان اور پاکستان کو ایکدوسرے کے قریب آنے سے روکتی ہے ؟ مودی کے دورہ لاہور کے بعد بھی اس طرح کی توقع کی جارہی تھی کہ آنے والے دنوں میں کوئی نہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آئے گا اور ایسا ہی ہوا ۔ اگر پٹھان کوٹ واقعہ کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آئے گی کہ یہ دہشت گردانہ کارروائی صرف اور صرف ہند و پاک امن کوششوں کو نقصان پہنچانے کے لئے کی گئی ہے ۔ ہندوستان اور پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور عوام میں اس بات پر حیرت کی لہر دوڑ گئی کہ مودی ۔ نواز ملاقات کے چند دنوں میں دہشت گردانہ حملے کا یہ واقعہ پیش آیا جبکہ15 جنوری کو دونوں ملکوں کے معتمدین خارجہ کی ملاقات ہونے والی ہے ۔ اس حملہ کے بعد خاص طور پر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ساتھ بی جے پی کی چند اتحادی جماعتوں کو بھی مودی کے دورہ لاہور پر اپنے اعتراض کو حق بجانب قرار دینے کا موقع مل جائے گا ۔ بی جے پی کی اتحادی جماعت شیوسینا نے مودی کے دورہ لاہور پر شدید تنقید کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ جس لیڈر نے بھی پاکستان سے قربت کا مظاہرہ کیا اس کا اقتدار مختصر رہا اور وزیراعظم کے مختصر دورہ لاہور کی طرح ان کا دور اقتدار بھی مختصر ہو کر رہ جائے گا ۔ اس ضمن میں شیوسینا کے ترجمان سامنا کے اداریہ میں سابق وزیر داخلہ اور بی جے پی کے بزرگ قائد ایل کے اڈوانی کی مثال پیش کرتے ہوئے بتایا گیا تھا کہ اڈوانی نے پاکستان کا دورہ کرکے بانی پاکستان محمد علی جناح کی زبردست ستائش کی تھی ، جس کے بعد ان کی مقبولیت کا گراف ایسے نیچے گرا کہ اب پارٹی میں ان کا کوئی مقام ومرتبہ نہیں رہا ۔ واجپائی کی مثال بھی شیوسینا کے ترجمان میں پیش کی گئی ۔ ان کے بارے میں کہا گیا کہ وہ دونوں ملکوں کے تعلقات بحال کرنے کی خاطر بس لے کر لاہور پہنچ گئے تھے ۔ اس کے بعد بی جے پی کو برسوں تک اقتدار کی بس میں سوار ہونے کا موقع نہ مل سکا ۔موجودہ حالات میں ایسا لگ رہا تھا کہ ہندوستان اور پاکستان باہمی تعلقات میں ایک نیا موڑ لائیں گے ۔ تاہم ہند ۔ پاک کے درمیان دوستی و محبت کے خواہاں عوام کو ہمیشہ کی طرح مایوس بھی ہونا پڑا ۔ پٹھان کوٹ فضائیہ اڈہ پر ہفتہ کی صبح 3 بجے کے قریب ہوئے اس دہشت گردانہ حملہ کے بارے میں جو اطلاعات آئی ہیں اس میں بتایا گیا کہ دہشت گرد ہائی جیک کی گئی ایک کار میں وہاں پہنچے اور حملہ کردیا ۔ اس سے قبل وہ AK47 رائفلوں کے ساتھ اس کار میں 24 گھنٹے گھومتے پھرتے رہے حد تو یہ ہے کہ یہ کار کسی عام آدمی کی نہیں بلکہ ایس پی عہدہ کے حامل پولیس عہدہ دار کی تھی ۔ ایسے میں ہم اسے ہماری سیکورٹی ایجنسیوں کی ناکامی ہی قرار دے سکتے ہیں ۔ خیر اس واقعہ پر اب کہا جارہا ہے کہ اس کارروائی سے ہندوستان میں پائی جانے والی برہمی سے پاکستان میں موجود عسکریت پسندوں کی تنظیموں کو ایک نئی طاقت ملے گی لیکن میاں محمد نواز شریف کی خارجہ پالیسی کو دیکھتے ہوئے اس بات کے واضح اشارے ملتے ہیں کہ وہ ہندوستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات کے خواہاں ہیں ۔ میاں صاحب چاہتے ہیں کہ تمام دیرینہ حل طلب مسائل پر کم از کم معتمدین خارجہ کی سطح پر تو بات چیت ہو کیونکہ پاکستانی وزیراعظم اچھی طرح جانتے ہیں کہ مذاکرات کے ذریعہ ہی ہر مسئلہ کا حل تلاش کیا جاسکتا ہے ۔ پٹھان کوٹ میں ہندوستانی فضائیہ کے اڈہ پر دہشت گردانہ حملہ کو لیکر یہ سوالات بھی اٹھ رہے ہیں کہ آیا ہندوستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم کرنے سے متعلق پاکستان کی جمہوری حکومت اور فوج میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے یا نہیں؟ وہ کونسی طاقتیں ہیں جو ان دونوں پڑوسیوں کے مابین تعلقات بحال ہونے کے خلاف ہے ؟ کیا پاکستانی حکومت اس حملہ میں ملوث جیش محمد کے خلاف کارروائی کرے گی؟ آیا وہ مولانا مسعود اظہر کو قانون کے کٹہرے میں لاکھڑا کرے گی ؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کے جواب آنے والے دنوں میں ضرور مل جائیں گے ۔ بہرحال ایک بات ضرور ہے کہ یہ کارروائی جس کسی نے بھی کی ہے اس کا مقصد ہند و پاک تعلقات میں بگاڑ پیدا کرتے ہوئے اپنے مفادات کی تکمیل کرنا ہے ۔ یہ ایسی طاقتیں ہیں جو ان نیوکلیئر طاقتوں کو ترقی کرتے دیکھنا نہیں چاہتی کیونکہ انھیں اندازہ ہے کہ ہند ۔ پاک دوستی مستحکم ہوجائے تو ان کی اہمیت ختم ہوجائے گی ۔ اب رہا پاکستان کے ردعمل کا سوال تووہ صرف دہشت گردانہ واقعہ کی شدید مذمت کرتے ہوئے افسوس کا اظہار کرتا ہے ۔
mriyaz2002@yahoo.com