ہند۔پاک جنگیں اور بھیانک نتائج

دانش قادری
ہمارے ملک کے دستور میں کچھ ایسی چیز ہے جو در اصل لیو ٹالسٹائے سے مماثلت رکھتی ہے ۔ یہ تین الفاظ ہیں ’’ جنگ اور امن ‘‘ ۔ جس طرح ٹالسٹائے میں یہ الفاظ بیان کئے گئے ہیں اسی طرح ہمارے دستور میں بھی یہ الفاظ بیان کئے گئے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ صرف ہندوستان کی حکومت ہی یہ فیصلہ کرسکتی ہے کہ جنگ کا اعلان کب ہوگا اور امن کب قائم ہوگا ۔ ہم حالیہ دنوں میں تقریبا جنگ کے قریب پہونچ گئے تھے ۔ تقریبا اس لئے کیونکہ حکومت ہند یا ملک کے صدر نے ابھی جنگ کا اعلان نہیں کیا تھا ۔ عام تصور کے برخلاف صدر جمہوریہ ملک کی مسلح افواج کے سپریم کمانڈر نہیں بلکہ صدر جمہوریہ ہی ہماری مسلح افواج کی سپریم کمان ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ جب کبھی صدر جمہوریہ ( جب کبھی اگر ضرورت پڑے ) جنگ کا اعلان کرتے ہیں تو یہ مرکزی وزراتی کونسل کی سفارش پر ایسا کرتے ہیں ۔ ہندوستان میں جنگیں چاہے وہ معلنہ ہوں یا غیر معلنہ ہوں ‘ ہندوستان میں ہوں یا ہندوستان کی جانب سے ہوں یہ سب وقت کے وزیر اعظم کے ذمہ ہوتا ہے ۔

ہندوستان کی جنگوں کی مختصر تاریخ
ہم ماضی میں پانچ مرتبہ جنگیں کرچکے ہیں ۔ ماسوا ایک جنگ کے یہ تمام جنگیں ایک ہی ملک پاکستان کے خلاف رہی ہیں۔ پہلی مرتبہ 1947-48 میں ‘ دوسری مرتبہ 1965 میں ‘ تیسری مرتبہ 1971 میں اور چوتھی مرتبہ 1999 میں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان چاروں موقعوں پر جنگ کا اعلان کیا گیا تھا ؟ ۔ 1947 – 48 میں جنگ کا رسمی اعلان نہیں کیا گیا تھا ۔ یہ اس وقت کے وزیر اعظم پنڈت نہرو کی ہندوستان ۔ پاکستان کی جنگ تھی جس کا اعلان نہیں ہوا ۔ دوسری جنگ وزیر اعظم لال بہادر شاستری کی جنگ تھی یہ جنگ بھی کسی رسمی اعلان کے بغیر 1965 میں 5 اگسٹ کو شروع ہوئی تھی ۔ تیسری جنگ 13 دن کی رہی تھی جو 1971 میں وزیر اعظم اندرا گاندھی کی جنگ تھی ۔ یہ جنگ 3 ڈسمبر 1971 کی شام شروع ہوگئی تھی ۔ شمال مغرب میں پاکستانی ائر فورس نے ہماری شمال مغرب کی  فضائی پٹیوں بشمول آگرہ کو نشانہ بنایا تھا آل انڈیا ریڈیو سے اس شام قوم کے نام خطاب کرتے ہوئے اندرا گاندھی نے کہا تھا کہ پاکستان ائر فورس نے جو حملے کئے ہیں وہ ہندوستان کے خلاف اعلان جنگ ہے اور ہندوستانی ائر فورس نے بھی اسی رات ابتدائی فضائی حملوں کے ذریعہ اس کا جواب دیا ہے ۔ اسی تسلسل کی آخری جنگ مئی ۔ جولائی 1999 کے دوران ہوئی جو وزیر اعظم واجپائی کی کارگل جنگ تھی جو پاکستانی سپاہیوں نے لائین آف کنٹرول کے پار ہندوستانی حدود میں داخل ہوتے ہوئے شروع کی تھی ۔ ہم اعلان کرنے سے قبل ہی جنگ میںشامل تھے ۔ ان جنگوں کے تعلق سے کہا جاتا ہے کہ وہ وقت کے وزرائے اعظم کی جنگیں تھیں۔
ہم اب بھی جنگ کے داہنے پر ہیں۔ وزیر اعظم مودی کی جنگ ۔ بحیثیت ہندوستانی شہری ہم کو اس طرح کی جنگ پر اعتبار کرنے کی ضرورت ہے ۔ اگر جنگ ہوتی ہے تو ہم کو اس کا دفاع کرنا ہوگا ۔ اس کے ذریعہ سرحد پار دہشت گردی کا خاتمہ ہوسکتا ہے ۔

نتائج اور سوالات
ایسی صورتحال پیدا ہونے سے پہلے ابھی جبکہ کچھ وقت باقی ہے ہم اپنے آپ سے سوال کرسکتے ہیں کہ سابقہ چار جنگوں میں کیا کچھ حاصل ہوا ہے ؟ ۔
پہلی ہند پاک جنگ 1947 – 48 میں اندازوں کے مطابق ہم کو 1500 ہلاکتوں اور 3,500 زخمیوں کا نقصان برداشت کرنا پڑا تھا جبکہ پاکستان میں ہلاکتیں 6,000 تھیں جبکہ زخمیوں کی تعداد 14,000 بتائی گئی ۔ پنڈت نہرو کے دور میں فوج نے پاکستان کو ایک سخت سبق سکھایا تھا لیکن چونکہ بین الاقوامی دباو بڑھ رہا تھا اور گورنر جنرل ماونٹ بیٹن اس میں سرگرم ہوگئے تھے اس لئے پنڈت نہرو نے جنگ بندی پر رضا مندی ظاہر کی ۔ پاکستان کو ایک تہائی مملکت حاصل ہوئی یہ در اصل ایک نئے ملک کیلئے نفع بخش ہی تھا ۔ ہندوستان کو اس میں وادی کشمیر ‘ لداخ اور جموں کا کنٹرول حاصل ہوا ۔ سوال یہ ہے کہ یہ جنگ کس نے جیتی اور شکست کسے ہوئی ؟ ۔ دوسری جنگ میں ہندوستانی سپاہیوں کا جانی نقصان 3,000 اور پاکستانی فوجیوں کا 3,800 کا تھا ۔ اس وقت ہندوستان کا ایک طرح سے پاکستانی علاقہ لاہور میں کنٹرول ہوگیا تھا لیکن یہ ہندوستان کے کنٹرول سے دور تھا ۔ اس وقت جب وزیر اعظم لال بہادر شاستری اور صدر پاکستان ایوب خان نے تاشقند میں جس اعلامیہ پر دستخط کئے تھ اس کے نتیجہ میں ہندوستانی اور پاکستانی افواج کو جنگ سے پہلے کے ٹھکانوں پر واپس ہونا پڑا ۔ یہ جنگ بھی کس نے جیتی اور شکست کسے ہوئی ؟ ۔ تیسری جنگ میں جو 1971 میں ہوئی ہندوستان کو کیا حاصل ہوا اور پاکستان کو کیا نقصان ہوا ؟ ۔ ہندوستان میں خود اعتمادی پیدا ہوئی اور پاکستان کو مشرقی بنگلہ دیش سے محروم ہونا پڑا ۔ ہندوستان کو بنگلہ دیشیوں کی ستائش حاصل ہوئی جبکہ پاکستان اپنے دعوی سے محروم ہوگیا ۔ اس لڑائی میں پاکستان کے 8,000 سپاہی ہلاک اور 25,000 زخمی ہوئے ۔ کامیابی حاصل کرنے کے باوجود ہندوستان میں تین ہزار سپاہی ہلاک اور 12000 زخمی ہوئے ۔ شملہ معاہدہ میں ذوالفقار علی بھٹو نے آزاد بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے سے اتفاق کیا جبکہ اندرا گاندھی نے بھی پاکستان کے 90,000 سپاہیوں کو واپس بھیجنے سے اتفاق کرلیا جو ہندوستان نے قیدی بنالئے تھے ۔ سوال پھر یہی ہے کہ اس جنگ میں بھی کامیاب کون ہوا اور شکست کس کے حصے میں آئی ؟ ۔

1999 کی کارگل جنگ کے بھی اندازے حالانکہ مختلف ہیں لیکن اس میں بھی پاکستان کے ایک ہزار سپاہی ہلاک ہوئے جبکہ ہندوستان کو 550 سپاہیوں کا نقصان برداشت کرنا پڑا ۔ ان میں بیشتر سینئر عہدیدار تھے ۔ پاکستان نے جن ہندوستانی ٹھکانوں پر قبضہ کرلیا تھا انہیں اس سے دستبردار ہونا پڑا تھا ۔ ایک بات ان جنگوں سے یہ واضح ہوگئی کہ ہندوستان کیلئے اس سے مثبت اثرات ہیں ۔ اس کے علاوہ پاکستان بھی یہ بات سمجھ گیا ہے کہ لائین آف کنٹرول کو پار کرتے ہوئے ہندوستان کو اشتعال دلانا اس کے حق میں نہیں ہوگا ۔ دوسری بات یہ ہے کہ جنوبی ایشیا کے نقشہ میں بنگلہ دیش کا بھی وجود آگیا اور دو قومی نظریہ ہمیشہ کیلئے ختم ہوگیا ۔ تیسری بات یہ ہوئی کہ تاشقند اعلامیہ 1966 اور شملہ معاہدہ 1972 سے بھی یہ واضح ہوگیا کہ جنگ ہمیشہ غلط ہوتی ہے اور امن دونوں ملکوں کیلئے ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کیلئے واحد حل ہے ۔ وزیر اعظم واجپائی نے کارگل جنگ سے پہلے اور بعد میں پاکستان کے ساتھ بات چیت کیلئے جو رضا مندی ظاہر کی اور پھر وزرائے اعظم اندر کمار گجرال اور منموہن سنگھ نے بھی جو موقف اختیار کیا تھا وہ بھی در اصل تاشقند اور شملہ اعلامیوں کے اثر کا ہی نتیجہ تھا ۔ کیا سابقہ چار کے منجملہ ان تین جنگوں کے نتائج آج ہندوستان و پاکستان کے ذہنوں میں ہیں ؟ ۔ ایسا بالکل نہیں ہے ۔

تبدیلیاں جو آئی ہیں
ہمیں یہ بات یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ دو ہندوستانیوں لال بہادر شاستری اور اندرا گاندھی نے معاہدات پر دستخط کئے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ
ہندوستان اور پاکستان کے وزرائے اعظ نے اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ دونوں فریقین ہندوستان و پاکستان کے مابین اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق باہمی سطح پر بہتر پڑوسیوں جیسے تعلقات بنانے کیلئے ہر ممکن کوشش کرینگے ۔ دونوں نے اس بات سے بھی اتفاق کیا ہے کہ وہ اس چارٹر کو پورا کرنے کی ذمہ داری رکھتے ہیں ۔ وہ لڑائی سے اجتناب کرینگے اور اپنے تنازعات پرامن طریقوں سے حل کرینگے ۔ ( یہ تاشقند اعلامیہ میں شامل ہے ) ۔ اس کے علاوہ حکومت ہند اور حکومت پاکستان اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ وہ اپنے تنازعات کو اور تصادم کو ختم کرینگے اور باہمی سطح پر ایک دوستانہ اور خیر سگالی والے تعلقات کو فروغ دینے کی کوشش کرینگے ۔ وہ ایک دوسرے کی علاقائی سالمیت کا احترام کرینگے اور ایک دوسرے کے داخلی معاملات میں مداخلت نہیں کرینگے ۔ یہ باتیں شملہ معاہدہ میں کہی گئی ہیں۔

وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے لائین آف کنٹرول پر جنگ بندی کے تعلق سے 2003 میں جو معاہدہ کیا تھا اس میں در اصل تاشقند اور شملہ معاہدات کو آگے بڑھایا گیا تھا ۔ یہ پہلی مرتبہ تھا جب ہندوستان و پاکستان نے بین الاقوامی سرحد ‘ لائین آف کنٹرول اور سیاچن گلیشئیر کا احاطہ کرتے ہوئے جنگ بندی سے اتفاق کیا تھا ۔ پنڈت نہرو ‘ لال بہادر شاستری ‘ اندرا گاندھی اور اٹل بہاری واجپائی نے جب جنگ کی اور پھر امن سے اتفاق کیا تھا اس وقت میں اور اب کیا فرق ہے ۔ دہشت گردی اس وقت بھی تھی ۔ دہشت گردی آج بھی ہے لیکن اب اس کی نوعیت اور ہئیت بدل گئی ہے ۔ اور دونوں ملکوں میں عدم رواداری بڑھ گئی ہے ۔ جنگ چھڑنے یا جنگ کا اعلان کرنے سے قبل ہی کچھ عناصر جنگ کا ماحول پیدا کرنے میں اسی عدم رواداری کا سہارا لے رہے ہیں۔ پاکستان میں ایسے عناصر جو فوج اور مذہبی طبقات میں ہیں وہ دہشت گرد گروپس کا سہارا لے رہے ہیں جبکہ ہندوستان میں ہندوتوا کے ہاتھ بھی پاکستان کی پناہ والے دہشت گرد گروپس کا عذر پیش کر رہے ہیں۔

نفرت کی ہوا دینا
دہشت گردی اور ہندوتوا دونوں ایک دوسرے کا کام کرتے ہیں۔ دونوں ہی عوام میں شبہات کو تقویت دیتے ہیں اور دونوں ملکوں میں متبادل حب الوطنی کو فروغ دیا جا رہا ہے جو در اصل نفرت کا بازار ہے ۔ ایک دوسرے سے نفرت اور اس کے اکثریتی مذہب سے نفرت ۔ دونوں کیلئے ایک مشترکہ دشمن ہے اور یہ دشمن در اصل فراغدلانہ سکیولر ازم ‘ کثرت میں وحدت سے اتفاق ہے ۔ یہ دونوں ایک ہی ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔ یہ ہتھیار اشتعال دلانے کا ہے ۔ یہ دونوں ایک ہی فیول استعمال کرتے ہیں جو شدت پسندی ہے ۔ یہ دونوں ایسے ہیں جو ایک دوسرے کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے ۔ یہ دونوں ایک طرح سے ایک دوسرے کے غلط ‘ گمراہ کن قوم پرستیوں کو ہوا دیتے ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان کو جنگ کی ذہنیت میں ڈھکیلا جا رہا ہے ۔ اس تاثر کے ساتھ نہیں کہ ہم کو اگر جنگ ہوتی ہے تو اس کا سامنا کرنے کیلئے تیار رہنا چاہئے بلکہ یہ تاثر پیدا کیا جارہا ہے کہ ہم جنگ چاہتے ہیں۔ اصل فرق یہی ہے ۔ جارج پرکوچ نے واجپائی کے دور میں 2003 میں ہی کہا تھا کہ پاکستانی آر ایس ایس اور وشوا ہندو پریشد کو اس ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ ہندو ‘ مسلمانوں کو تباہ کرنے کے در پہ ہیں اور یقینی طور پر پاکستان کی اسلام پسند جماعتوں اور دہشت گرد تنظیموں کو اس ثبوت کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے کہ مسلمان برے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ ہندوستان کیلئے پاکستان سے خود کو الگ کرنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ ہم کثرت میں وحدت کو فراخدلی کے ساتھ قبول کریں اور ثقافتی قوم پرستی سے دور رہیں۔ ہم آج بھی اپنے آپ سے یہی کہہ سکتے ہیں۔ (بشکریہ ’’دی ہندو‘‘)