ہندو پاک کے بنتے بگڑتے رشتے

ظفر آغا

نریندر مودی نے نواز شریف سے نہ تو ہاتھ ملایا اور نہ ہی مڑ کر انکی طرف دیکھا ! آج مودی نے نواز شریف کی طرف مسکراکر دیکھا ! اب مودی جی نے نواز شریف سے ہاتھ بھی ملالیا اور ہنس کر باتیں بھی کیں ۔ پچھلے ہفتے کٹھمنڈو میں ہونے والی سارک چوٹی کانفرنس کے دوران ہندوستانی ٹی وی چینلس اسی قسم کا شور مچاتے رہے اور کرتے بھی کیا ۔ کبھی ہاں اور کبھی نہ کے درمیان گرفتار ہند و پاک رشتے اب ایک مذاق بنتے جارہے ہیں ۔ اس برس مئی سے لے کراب تک دونوں ممالک کے تعلقات پر اگر ایک نگاہ ڈالی جائے تو آپ کو افسوس کے ساتھ ساتھ ہنسی بھی آجائے گی ۔ مئی کے آخر میں وزیراعظم نریندر مودی نے جب وزارت عظمی کا حلف لیا تو بڑی شان سے نواز شریف کو ہندوستان مدعو کیا ۔ نواز شریف دہلی تشریف لائے ، انکی خوب مہمان نوازی ہوئی اور ٹی وی میں شور مچ گیا ۔ ہند و پاک کے درمیان ایک نئی شروعات ۔ ابھی ’شروعات‘ کچھ قدم آگے بڑھی ہی تھی کہ ہندوستان کی جانب سے پاکستان میں ہونے والی ہند و پاک خارجہ سکریٹریوں کے مذاکرات ہندوستان نے یکایک ملتوی کردئے ۔ لیجئے پھر مذاکرات شروع ہونے سے قبل ہی ختم ہوگئے ۔ اب نومبر کا مہینہ آگیا ۔ ٹی وی اور اخبارات میں کاٹھمنڈو میں سارک مذاکرات کا ذکر چھڑگیا ۔ بس اسی کے ساتھ ہند و پاک تعلقات کی کبھی ہاں اور کبھی نا کی داستان پھر سے شروع ہوگئی ۔ آخر مودی صاحب کاٹھمنڈو جا کر واپس بھی آگئے اور دونوں وزرائے اعظم صرف ہاتھ ملا کر چلے آئے ۔

بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ کاٹھمنڈو میں مودی اور نواز شریف دونوں ہاتھ مل کر رہ گئے تو کچھ مبالغہ نہیں ہوگا ۔ سچ تو یہ ہے کہ مودی اور نواز شریف دونوں وزرائے اعظم کی خواہش تو یہی نظر آتی ہے کہ ہند و پاک کے درمیان بہترین تعلقات ہوں ۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ اٹل بہاری واجپائی نے اپنے دور حکومت میں سب سے پہلے یہ محسوس کیا کہ ہند و پاک تعلقات میں بہتری نہ صرف دونوں ممالک کے حق میں ہے بلکہ یہی اب وقت کا تقاضہ بھی ہے ۔ چنانچہ واجپائی جی نے بس کا سفر کرکے لاہور میں نواز شریف سے دوستی کا ہاتھ ملایا تھا ۔ اور بس اس کے بعد سے ہند و پاک میں جو بھی حکومت آئی اس کے وزیراعظم کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ وہ کسی طرح دونوں ملکوں کے درمیان کھڑی شک کی دیوار گرادیں ۔ چنانچہ اسی کوشش میں سابق ہندوستانی وزیراعظم منموہن سنگھ کے دس برس گزر گئے اور اب نریندر مودی نے اپنا کاروبار سنبھالتے ہی وہی شروعات کی تھی ، لیکن مودی بھی پھر اپنے سابق ہم منصب لیڈران کی طرح نظام کی انا کے شکار ہورہے ہیں ۔

آخر یہ ’نظام کی انا‘ کیا ہے اور ہند و پاک وزارئے اعظم کی دلی خواہش کے درمیان کیسے حائل ہوجاتی ہے ؟۔ اس کو سمجھنے کے لئے ہند و پاک کے رشتوں پر کم از کم ایک سرسری نگاہ ڈالی ضروری ہے ۔ ہند و پاک تعلقات کی شروعات ہی شک کی بنا پر ہوئی تھی ،بلکہ سچ تو یہ ہے کہ پاکستان کا قیام بھی شک کی بنا پر ہوا تھا ۔ بانی پاکستان محمد علی جناح اور ان کی پارٹی مسلم لیگ کو جنگ آزادی کے دوران یہ شک پیدا ہوگیا تھا کہ آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کو ان کے جائز حقوق نہیں ملیں گے ۔ اس پس منظر میں جناح کی قیادت میں مسلم لیڈرشپ نے مسلمانوں کے حقوق کے لئے طرح طرح کے آئینی تحفظات کی مانگ کی ، جس کو گاندھی جی کی قیادت میں سیکولر کانگریس نے یہ کہہ کر رد کردیا کہ ’سیکولر‘ ہندوستان میں مذہب کی بنیاد پر کسی ایک فرقہ یا قوم کو علحدہ سے خصوصی تحفظات نہیں دئے جاسکتے ہیں ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ انہی گاندھی جی کی قیادت میں اسی ’سیکولر کانگریس‘ نے دلتوں کو ایک فرقہ کی بنا پر ملک کی تمام اسمبلیوں ، پارلیمنٹ ، نوکریوں اور تعلیمی اداروں میں ریزرویشن دے دیا اور اس کو کسی نے ’فرقہ پرستی‘ کا لیبل نہیں دیا جبکہ جناح فرقہ پرست قرار دے دئے گئے ۔ الغرض جناح کو آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کے لئے جب کوئی آئینی تحفظ نہیں ملا تو انہوں نے ’سیکولر کانگریس‘ پر یہ الزام لگایا کہ گاندھی جی ہندوستان کو ایک ہندو راشٹر بنارہے ہیں اور اسی بنیاد پر جناح کی قیادت میں ہندوستان کا بٹوارا ہوگیا ۔ جناح صحیح تھے یا نہیں یہ بحث تو تاریخ دانوں کے درمیان آج بھی جاری ہے ، لیکن آزادی کے 67 برس بعد کم از کم وشوا ہندو پریشد کے بزرگ لیڈر اشوک سنگھل کو یہ محسوس ہورہا ہے کہ مودی کی قیادت میں ہندوستان ایک ’’گرو ہندو دیش‘‘ ہوگیا ہے ۔ اس کے کیا معنی ہیں ، اس مضمون کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔

الغرض 1947 میں بٹوارے کے وقت سے ہند و پاک تعلقات کی بنیاد شک پر پڑی ۔ اس کا نتیجہ دونوں ملکوں کے درمیان جنگوں اور بدترین تعلقات کی شکل میں ابھر کر آیا ۔ لیکن تاریخ ماضی کی پروا کئے بنا حال میں خود اپنی راہ بنایا کرتی ہے ۔ چنانچہ جب پاکستان قائم ہوگیا اور دونوں ملکوں نے ایک دوسرے سے ایک نہیں تین بڑی اور ایک چھوٹی جنگ بھی لڑلیں اور دونوں ملکوں کے درمیان چند اہم حقیقتیں ابھر کر سامنے آئیں مثلاً واجپائی جی کے بقول ہم دونوں کو یہ بات پسند ہو یا ناپسند لیکن حقیقت یہی ہے کہ دونوں ملک ایک دوسرے کے ہمسایہ ہیں ۔ پھر ہمارے درمیان کتنا بھی شک کیوں نہ ہو لیکن ہم دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے ہم دونوں کے درمیان مذاکرات لازمی ہیں ۔ پھر بدلتے زمانے اور تقاضے کے تحت ہم دونوں کی ترقی کے لئے آپسی رشتے بے حد اہمیت رکھتے ہیں مثلاً ہندوستان کا سامان پاکستان میں آدھے داموں پر بک سکتا ہے اور پاکستانی مال ہمارے یہاں نہایت آسانی سے کم داموں پر دستیاب ہوسکتا ہے ، جس سے دنوں ملکوں کی معیشت ترقی کرسکتی ہے ۔ یہ وہ حقائق ہیں جو ایک دوسرے کے بنیادی شک سے بالاتر پاکستان کے قیام کی چھ دہائیوں کے بعد ابھر کر سامنے آئے ہیں ۔ آج ہند و پاک میں جو بھی وزیراعظم بنتا ہے اس کو ان دو تضاد کا سامنا ہوتا ہے ۔ ایک جانب تو دونوں ملکوں کی وہ تاریخ ہے جس کی بنیاد شک پر رکھی گئی ہے اور دوسری جانب حال کے تقاضے ہیں جو ہند و پاک کو امن کی دعوت دیتے ہیں ۔ اسی تضاد کے سبب فی الحال ہند و پاک تعلقات کبھی ’ہاں‘ اور کبھی ’نا‘ کے درمیان معلق ہیں ۔ اسی لئے مودی جی کبھی نواز شریف کو دعوت دے کر خود دہلی میں ان کی ضیافت کرتے ہیں تو کبھی کاٹھمنڈو میں نواز شریف کو دیکھ کر آنکھیں چرالیتے ہیں اور پھر آخر چلتے چلتے ان سے ہاتھ بھی ملالیتے ہیں ۔

لیکن دونوں ملکوں میں جو نظام ہے اس کی شروعات 1947 میں ہوئی تھی ۔ ظاہرہے کہ ان دونوں ملکوں کے نظام کی بنیاد بھی اس وقت دونوں ملکوں کے درمیان پیدا شدہ شک پر رکھی گئی تھی ۔ چنانچہ دونوں جانب نظام کی پرورش بھی اسی شک پر ہوئی ہے ۔ اس لئے دونوں جانب کی قیادت جب دور حاضر کے تقاضوں کو سمجھ کر ایک دوسرے سے واجپائی ، مشرف اور مودی ۔ شریف کی طرح ہاتھ ملاتی ہے تو بس دونوں جانب کا نظام فوراً کود کر اسی شک کا ماحول پیدا کردیتا ہے جو 1947 کے وقت سے نظام کی وراثت بن چکا ہے ۔ اور اس طرح وہ واجپائی ہوں یا مودی ، آصف زرداری ہوں یا نواز شریف ، تمام وہ لیڈران جو دور حاضر کے تقاضوں کے تحت ماضی کے شک کے سائے سے باہر قدم نکالتے ہیں ، ویسے ہی نظام ان کو کھینچ کر ماضی کے شک کی جانب لے جاتا ہے ۔ اور اس طرح ہند و پاک تعلقات ذرا سی بہتری کے باوجود پھر ماضی کے سائے میں ڈوب جاتے ہیں ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا نریندر مودی اور نواز شریف ہند و پاک تعلقات کے تناظر میں حال میں جینے کی پوری طرح جرأت کرپاتے ہیں یا پھر نظام کے خوف سے ماضی کے شک کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیتے ہیں ۔