ہندو نہیں ، ہندوستانی بن کر حکومت کیجئے

غضنفر علی خان
ہمارے ملک میں الگ الگ عقیدوں، زبانوں اور تہذیب کے لوگ ہیں، کسی ایک مذہب کی حکومت ملک کے لئے ایک خطرناک تجربہ ثابت ہوگی کیونکہ ہمارے مزاج میں ابتداء ہی سے رواداری ، دوسروں کے نظریہ سے مخالفت نہیں کی جاتی۔ ہندوستان یوں ہی نہیں بن گیا بلکہ صدیوں کے تجربہ سے یہاں موجودہ رواداری، ایک دوسرے کے عقیدہ کا احترام اور ہندوستانیوں کے دل و دماغ میں رگ و ریشے میں گھل مل گیا ہے۔ اب تہذیبوں کے اس نسخہ کو کوئی اور رنگ نہیں دیا جاسکتا اور ایسی ہر کوشش عام ہندوستانی ہی ملیا میٹ کریں گے۔ مودی سرکار تو آر ایس ایس کے اشاروں پر ناچتی ہے اس کی اپنی کوئی سوچ کوئی کارنامہ نہیں ہے۔ یوں کہنا درست ہوگا کہ موجودہ دور میں اقتدار عارضی طور پر حاصل ہوا ہے۔ ویسے بھی اقتدار طویل عرصہ تک اُس گروہ کے ہاتھوں رہتا ہے جو ہندوستان کے اس متحمل مزاج کو اچھی طرح سمجھ جائے، مختلف خاندانوں کی حکمرانی رہی ، لیکن کوئی ایک حکمرانی زیادہ عرصہ تک برقرار نہیں رہی۔ بی جے پی ، آر ایس ایس کو 4 سال سے اقتدار کا جنون ہوگیا ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا اقتدار ہمیشہ قائم رہے گا۔ سب سے پہلے تو یہ دونوں پارٹیاں ملک کی تاریخ ہی کو نہیں سمجھتی ہیں اور نہ تاریخ کے مختلف ادوار کے اُتار چڑھاؤ جانتی ہیں۔ ایسی ذہنیت والی پارٹیاں ہندوستان پر حکومت کے لائق نہیں ہیں۔
وہ سمجھتی ہیں کہ ہندوستان صرف ہندوؤں کا ملک ہے لیکن یہ خلاف حقیقت بات ہے، ابھی 5 سال بھی پورے نہیں ہوئے کہ ملک کی آبادی کا صرف تیس فیصد حصہ ہی ان کی حمایت و تائید کررہا ہے۔ یعنی 70 تا 73 فیصد آبادی بی جے پی کی مخالف ہے۔ پھر بھی اقتدار پر مامور ہونا اس کے لئے ایک خطرناک تجربہ ثابت ہورہا ہے۔ ہمارے ملک نے جس کشادہ دلی سے یہاں مختلف تمدنوں اور تہذیبوں کو اپنے دامن میں جگہ دی اس میں ان پارٹیوں کی تنگ نظری کے لئے کوئی مقام نہیں۔ خاص طور پر ہندوستانی مسلمانوں سے ان کی دشمنی عداوت ان کے ہر فیصلے سے ظاہر ہوتی ہے۔ گاؤ کشی کی بات ہو کہ سرکاری عمارتوںکو کلر کرنے کی بات ہو، یہ اپنا بھگوا رنگ ہر جگہ بھر دیتے ہیںاور اس بات کو قطعی طور پر نہیں سمجھتے کہ جس طرح ہماری تہذیب ملی جلی ہے اسی طرح اس کے مزاج میں ہرکام ہمہ رنگی اور جاذب نظر ہو۔ تہذیبوں، تمدنوں کی یہ معراج ہے اور یہ مزاج صدیوں کے عمل سے بنا ہے۔ ہندوتوا کا ہمارے ملک میں کوئی حصہ نہیں رہا۔ زیادہ دور نہیں آزادی کی لڑائی کی مثال لیجئے کہ ان انتہا پسند پارٹیوں نے کوئی رول ادا نہیں کیا بلکہ ان لیڈروں میں سے بڑے بڑے عہدوں پر فائز اور مشہور لیڈروں نے اس آزادی کی لڑائی میں کوئی حصہ نہیں لیا۔ تما م ہندوستانیوں نے اپنے خون جگر سے اس مقدس چیز یعنی آزادی کواُگایا، سرسبز و شاداب کیا اور اپنی قربانیاں دے کر اس آزادی کی کونپل کو آزادی کے خوشبودار پھول کی شکل میں آج اس آزادی کے درخت کی چھاؤں میں بیٹھ کر اس ملک کے خلاف بے مقصد و مطالب قسم قسم کے تماشے کررہے ہیں۔ اب انہیں اقتدار کا مزہ لگ گیا ہے۔ ان کی یہ کوشش ہے کہ ملک پر ان کی حکومت مضبوطی سے قائم رہے۔ عوام ہی جمہوریت میں اقتدار اعلیٰ کیلئے فیصلہ کرتے ہیں اور عوام ہی جانتے ہیں کہ کس وقت کس پارٹی کو اقتدار ملنا چاہیئے۔ 2014 کے حالات اور تھے آج کے تقاضے کچھ اور ہیں ۔ وقت کی رفتارو سمت ہروقت بدلتی ہے ۔ آج بھی یہی ہورہا ہے لیکن عارضی اقتدار کے ذریعہ وہ اپنی حکومت کو قائم و دائم نہیں رکھ سکتے کیونکہ دونوں پارٹیوں کو وقت کی تبدیلیوں ، سماجی اور سیاسی تبدیلیوں کا کوئی اندازہ نہیں ہے۔ اقتدار کی تاریخ رہی ہے کہ ہمیشہ کسی ایک پارٹی کو حکومت بنانے نہیں دیتا اور یہی کچھ موجودہ مودی حکومت کے ساتھ ہورہا ہے۔