ہندو خواتین ہر شعبہ میں سربلند مسلم خواتین گھروں میں قید

ظفر آغا

پوجا ٹھاکر کا نام امریکی صدر بارک اوباما کے دورہ ہندوستان کے ساتھ ہی خبروں میں چھا گیا۔ وجہ یہ تھی کہ پوجا ٹھاکر وہ پہلی ہندوستانی خاتون ہیں، جن کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ انھوں نے بارک اوباما کو دیئے جانے والے گارڈ آف آنر کی قیادت کی۔ پوجا سے قبل یہ کام محض کسی مرد کو ہی سونپا جاتا تھا، لیکن پوجا ٹھاکر پہلی ہندوستانی خاتون ہیں، جنھوں نے گارڈ آف آنر کی قیادت کرکے ہندوستانی خواتین کی ترقی کی تاریخ رقم کی اور اس طرح ہندوستانی ایرفورس کی یہ خاتون افسر خبروں میں چھا گئی۔ ظاہر ہے کہ پوجا کے اس اقدام نے یہ ظاہر کردیا کہ ہندوستانی خواتین ہر کام انجام دے سکتی ہیں۔
لیکن یہ بات بھی سمجھ لیجئے کہ یہ کام صرف ایک ہندو عورت ہی انجام دے سکتی ہے، کیونکہ اگر پوجا ٹھاکر کی جگہ یہ کام کسی مسلم خاتون نے انجام دیا ہوتا تو اس کے خلاف نہ جانے کتنے فتوے آجاتے اور اس کو دائرہ اسلام سے خارج کردیا جاتا۔ آج اس ملک کی ہندو عورت دنیا کا ہر کام کر رہی ہے، وہ ڈاکٹر ہے، انجینئر ہے، تاجر ہے، سائنٹسٹ ہے، فوجی افسر ہے، پولیس میں اعلی ترین عہدوں پر فائز ہے، یہاں تک کہ ہندو خواتین ملک کی وزیر اعظم اور وزیر اعلی بھی رہ چکی ہیں۔ اس کے برخلاف اسی ہندوستان میں مسلم خواتین پر ہر طرح کی پابندی ہے، وہ گھر کی چہار دیواری میں قید ہیں۔ آج بھی ہندوستانی لڑکیوں کی اکثریت اسکولوں میں داخلہ سے محروم ہے۔ اگر کسی طرح مسلم لڑکیاں اسکول پہنچ جاتی ہیں تو کالج تک پہنچتے پہنچتے ان کو گھر بٹھا دیا جاتا ہے۔ مسلم ماں باپ کو یہ فکر کم ہوتی ہے کہ ان کی بیٹی بہتر سے بہتر تعلیم حاصل کرکے خود اپنے پیروں پر کھڑی ہو، بلکہ انھیں یہ فکر زیادہ ہوتی ہے کہ اس کی شادی جلد از جلد ہوجائے، خواہ اس کا شوہر نکما ہی کیوں نہ ہو۔ یہ تعلیم ہی کا نتیجہ ہے کہ ہندو سماج پوجا ٹھاکر جیسی تاریخ رقم کرنے والی عورت پیدا کر رہا ہے، جب کہ مسلم سماج میں عورتوں کی اکثریت آج بھی گھروں میں قید ہے۔

کمال تو یہ ہے کہ یہ وہی مسلم سماج ہے جس کے رسول اور قرآن نے دنیا کو آزادی نسواں کا تصور دیا تھا، جب کہ اسلام سے قبل دنیا کے کسی بھی نظام میں منظم طریقے سے حقوق نسواں کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا۔ قرآن کریم دنیا کی وہ پہلی کتاب ہے، جس نے عورتوں کے حقوق متعین کئے اور سماج میں ان کو برابری کا درجہ دیا۔
ابھی چند روز قبل ہندوستانی حکومت کی جانب سے لڑکیوں کے تعلق سے ایک پروگرام شروع کیا گیا، جس کا عنوان ’’لڑکی بچاؤ، لڑکی پڑھاؤ‘‘ تھا۔ اس مہم کی شروعات خود وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے ہاتھوں سے کی تھی، جس کا مقصد یہ تھا کہ ہندوستانی سماج میں آج بھی کچھ حلقوں میں بچیوں کو شکم مادر میں ہی زائل کردیا جاتا ہے۔ اس لعنت کو ختم کرنے کے لئے حکومت ہند کی جانب سے ’’لڑکی بچاؤ، لڑکی پڑھاؤ‘‘ جیسا پروگرام شروع کیا گیا۔

اب ذرا اسلامی احکام پر بھی غور کرلیجئے۔ ساتویں صدی عیسوی میں اسلام سے قبل عربوں کی اکثریت اپنی لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کردیتے تھے۔ قرآن پاک نے اس امر کو حرام قرار دیا اور یہ لعنت عرب سے ختم ہو گئی۔ یہ قرآن اور اسلام کا انسانیت کے لئے پیغام تھا کہ زندگی خواہ لڑکے کی ہو یا لڑکی کی، دونوں کی زندگی برابر ہے اور دونوں کے حقوق برابر ہیں۔ اسی طرح اسلام سے قبل کسی مذہب نے عورت کو یہ حق نہیں دیا تھا کہ وہ اپنی شادی خود کرسکے، لیکن اسلام نے مرد کی طرح عورت کو بھی حق دیا ہے۔ اگر مرد کو طلاق کا اختیار دیا گیا ہے تو عورت کو بھی خلع کا اختیار دے کر مرد کے برابر کردیا۔ پھر اسلام ہی وہ مذہب ہے جو نکاح کے وقت پہلے عورت کی مرضی طلب کرتا ہے، تاکہ شادی کے لئے عورت کے ساتھ اگر زبردستی کی گئی ہے تو وہ بوقت نکاح شادی کرنے سے انکار کرسکتی ہے۔ اسلام پہلا مذہب ہے، جس نے ترکہ میں عورت کا حق واضح کیا۔ یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تاجر خاتون حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالی عنہا سے عقد کیا، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عورتوں کو بھی روزی روٹی اور کام کاج کا حق دیا گیا ہے۔
پوجا ٹھاکر کو اکیسویں صدی میں یہ مرتبہ حاصل ہوا کہ دوسرے فوجیوں کے ساتھ بارک اوباما کو اس نے بھی سلامی دی، لیکن آج مسلم عورت دنیا کے تقریباً ہر قسم کے حقوق سے محروم ہے۔ آج کا اسلامی معاشرہ عورت کی جگہ گھر کی چہار دیواری اور باورچی خانہ سے باہر تصور کرنے کے لئے تیار نہیں ہے، جب کہ ہمارا مذہب یہ کہتا ہے کہ مردوں کی طرح عورتیں بھی سب کچھ کرسکتی ہیں، اس کے باوجود مسلم معاشرہ نے عورتوں کو گھر میں قید کردیا۔

عوتوں کو گھر کی چہار دیواری تک محدود رکھنے کی رسم محض مسلم معاشرہ میں ہی نہیں پائی جاتی ہے، بلکہ سائنسی اور صنعتی انقلاب سے قبل یہ رواج دنیا کے ہر سماج میں پایا جاتا تھا۔ زمیندارانہ دور میں عورت کو مرد کا تابعدار قرار دیا گیا تھا، اس لئے زمیندارانہ معاشرہ میں عورت کو مرد سے کمتر سمجھا جاتا تھا اور اسے صرف چہار دیواری کے اندر رکھا جاتا تھا۔ لیکن جب صنعتی انقلاب اور جدید تعلیم نے زمیندارانہ نظام کو ختم کیا تو مردوں کے حقوق کے ساتھ عورتوں کے حقوق پر بھی بحث شروع ہوئی اور دنیا میں پہلی بار آزادی نسواں کے لئے آواز بلند کی گئی۔ واضح رہے کہ دنیا نے انیسویں اور اکیسویں صدی میں جس آزادی نسواں کا پرچم بلند کیا، وہ تمام حقوق اسلام ساتویں صدی عیسوی میں عورتوں کو عطا کرچکا تھا، لیکن افسوس کہ اسلام کے اولین دور کے بعد آہستہ آہستہ مسلم معاشرہ شاہی نظام کے تحت زمیندارانہ معاشرہ میں تبدیل ہو چکا تھا اور یہ مسلم معاشرہ اسلامی قدروں کی بجائے زمیندارانہ قدروں میں جکڑ گیا تھا، جس میں عورت کے حقوق نہ کے برابر تھے۔ دنیا کے دیگر معاشرے ترقی کے ساتھ ان قدروں کو ترک کرکے حقوق نسواں کو تسلیم کیا، لیکن جس مذہب نے حقوق نسواں کا تصور دیا، اس کے ماننے والے آج تک زمیندارانہ قدروں کو ہی اصل اسلام سمجھ رہے ہیں، جس کے نتیجے میں مسلم خواتین گھر میں بیٹھی ہوئی ہیں اور پوجا ٹھاکر بارک اوباما کو سلامی دے رہی ہے۔