اینی گووین
ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست ( اترپردیش ) میں جس وقت سے ایک شدت پسند ہندو مذہبی لیڈر نے حکومت سنبھالی ہے ملک کے مسلم مویشی تاجروں کی زندگیوں میں ایسی تبدیلیاں آئی ہیں جس کا انہوں نے تصور بھی نہیں کیا تھا ۔ پہلے تو ہندو گئو دہشت گردوں کے حوصلے آدتیہ ناتھ کی کامیابی سے بلند ہوئے اور انہوں نے سڑکوں پر مویشیوں کے ٹرک روکنے شروع کردئے ۔ وہ غیر قانونی گائے منتقلی کے نام پر ایسا کر رہے ہیں کیونکہ ان ہندووں کیلئے گائے عقیدہ کا مسئلہ ہے اور اسے ہندوستان میں کئی مقامات پر ذبیحہ سے روک دیا گیا ہے ۔ محض شبہ میں کچھ مسلم نوجوانوں اور افراد کو گئو دہشت گردوں نے پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا ہے ۔ تازہ ترین واقعات جولائی میں بھی پیش آئے ہیں۔ علاوہ ازیں درجنوں مسالخ اور تقریبا 50,000 گوشت کی دوکانیں بند ہوگئیں ۔ اس طرح بڑے جانور کا گوشت ملنا مشکل ہوگیا ۔ قریشی برادری کے سینکڑوں افراد جو یہ کاروبار کرتے تھے روزگار سے محروم ہوگئے ۔
نریندر مودی کی ہندو نیشنلسٹ پارٹی ( بی جے پی ) نے جب سے گائے کے تحفظ کے قوانین کو سخت کرنا شروع کیا ہے اس وقت سے ہندوستان کی 4 بلین ڈالرس کی بیف ایکسپورٹ صنعت کے کام میں 15 فیصد کی گراوٹ آگئی ہے حال تک بھی ہندوستان کی یہ صنعت دنیا کی بڑی صنعت تھی ۔ اس کے نتیجہ میں ہزاروں افراد ایسے وقت میں بیروزگار ہوگئے ہیں جبکہ ہندوستان کو ملازمتوں کی ضرورت ہے ۔ اس سے محرومی کی نہیں۔ مویشی صنعت میں ہونے والی تبدیلیاں ہندوستان کے 172 ملین مسلمانوں کے ساتھ پیش آنے والے حالات کی عکاس ہیں۔ ان مسلمانوں کیلئے مودی کی پارٹی کے ارکان مقننہ کے مخالف مسلم بیانات ‘ نفرت انگیز تقاریر اور ہجومی تشدد سنگین مسئلہ بن گیا ہے ۔ مہابن میں مسلم مویشی تاجرین کا کہنا ہے کہ حکومت کی پالیسیوں سے ان کا طرز زندگی متاثر ہو رہا ہے اور بتدریج ہندو بالادستی رائج کی جا رہی ہے ۔ ایک حالیہ کتاب کی مصنف نازیہ ارم کا کہنا ہے کہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ گذشتہ چار سال ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے بدترین رہے ہیں۔ اب نفرت عام بات ہوگئی ہے ۔ نفرت کو قومی دھارے میں تسلیم کرلیا گیا ہے ۔
ایسے وقت میں جبکہ ہندوستان اپنے ذات پات کے ضدی سماجی نظام سے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہا ہے ناقدین کا کہنا ہے کہ ایلیٹ اعلی ذات کے ہندو ملک پر ویجیٹیرین کلچر مسلط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ کام ایسے ملک میں کیا جا رہا ہے جہاں کئی لوگ گوشت کھاتے ہیں اور یہ مسلمانوں اور نچلی ذات والوں کیلئے بیل کا گوشت ان کی غذا کا حصہ ہے ۔ ایک موقع پر خود مودی نے ہندوستان کے بڑھتے ہوئے گوشت کے برآمدات کو گلابی انقلاب قرار دیا تھا ۔ مسلمانوںکے خلاف زہریلے بیانات کیلئے مشہور آدتیہ ناتھ جب یو پی کے چیف منسٹر بنے انہوں نے مسالخ بند کرنے کا حکم دیدیا ۔ اس کے علاوہ گوشت کی 50,000 دوکانیں بند ہوگئیں ۔ یہ کاروبار کرنے والے کچھ لوگ ضرور لائسنس کے بغیر کام کر رہے تھے لیکن سب بغیر لائسنس والے نہیں تھے ۔ اس اقدام سے مہابن میں 2,200 مسلمانوں پر سنگین اثرات ہوئے ہیں۔ ہر تیسرا آدمی روزگار سے محروم ہوگیا ۔ میونسپل کونسل کی جانب سے چلائے جانے والے مسالخ بند کردئے گئے ۔ اس کے بعد سے آدتیہ ناتھ کی حکومت نے مسالخ کے دوبارہ آغاز کو بیحد مشکل کردیا ہے ۔ یہ مسالخ میونسپلٹیز کی جانب سے چلائے جانے ضروری ہے اور انہیں صفائی کے مقصد سے شہروں کے باہر ہونا چاہئے ۔
آل انڈیا جمیعت القریش ایکشن کمیٹی کے یوسف قریشی کا کہنا ہے کہ حکومت نے ایک پیام دیدیا ہے ۔ حکومت سے مسلمانوں کو جو کچھ بھی سہولیات ملتی تھیں اب وہ نہیں مل پائیں گی ۔ آدتیہ ناتھ حکومت نے اس اقدام کی مدافعت کی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ حکومت عدالتوں کی جانب سے منظورہ ماحولیاتی قوانین پر عمل کروا رہی ہے اور ریاست میں 16,000 دینی مدرسوں کو باقاعدہ بنایا جا رہا ہے ۔ حکومت کا کہنا ہے کہ مسالخ کو بند کرنے کا حکم مخالف مسلم اقدام نہیں ہے ۔ ان مسالخ کی وجہ سے کچھ مسائل ہو رہے تھے ۔ تاہم جن کے پاس لائسنس نہیں ہے ان کی کوئی مدد نہیں ہوسکتی ۔ حکومت کے بموجب ابتدائی کچھ رکاوٹوں کے بعد گوشت کا کاروبار پھر سے بحال ہوگیا ہے ۔ تاہم گاوں والوں کا اس سے اتفاق نہیں ہے ۔ ماہ رمضان کے دوران مسلمانوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ گوشت ان کی غذا کا حصہ نہیں رہا تھا ۔ گذشتہ سال حکومت کی کارروائی میں اپنی دوکان بند کرنے پر مجبور ہونے والے نوجوان اب سڑک کے کنارے تلن کی اشیا فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے اقدامات سے گاوں میں ہندووں اور مسلمانوں میں خلیج بڑھ گئی ہے ۔ لوگ ہمیں ایسے دیکھتے ہیں جیسے کسی مسلمان کو پہلی مرتبہ دیکھا جا رہا ہے ۔ انہوں نے ہمارا کاروبار بند کردیا ہے ۔ ہماری غذا تبدیل کردی ہے اور ہمیں مسلمان ہونے کی وجہ سے نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ اس کے باوجود گئو دہشت گردوں کا دعوی ہے کہ وہ بے گناہوں یا معصوموں کو نشانہ نہیں بناتے ۔
بعض مقامات پر تاجرین کا کہنا ہے کہ پولیس ان سے بھاری رشوتیں طلب کرتی ہے جسے نہ دینے پر انہیں مارپیٹ کی جاتی ہے ۔ مندروں میں پولیس عہدیدار بیٹھ کر یہ کام کرتے ہیں ۔ رقم نہ دینے پر انہیں چالانات کئے جاتے ہیں۔ جو گاڑیاں میٹ فیکٹریوں کو مویشی منتقل کرتی ہیں ان کے چالانات میں اضافہ ہوگیا ہے اس کے باوجود پولیس کا دعوی ہے کہ وہ قوانین کی خلاف ورزی پر ہی چالان کرتے ہیں اور اس سے زیادہ رقم نہیں لیتے ۔ چالان کی جو رقم ہوتی ہے وہ سرکاری خزانہ میں چلی جاتی ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس صرف حکومت کے احکام کی پابندی کر رہی ہے ۔ ہم سے کہا گیا کہ جتنے زیادہ ممکن ہوسکے چالانات کئے جائیں۔ تاجرین کا کہنا ہے کہ پولیس حکام رشوت نہ ملنے پر تاجرین کو مارپیٹ کرتے ہیں اور انہیںسزائیں دیتے ہیں۔ ان کی ہتک کی جاتی ہے اور یہ لوگ مجبور ہوتے ہیں۔ جو تاجر یا ٹرک ڈرائیورس انتہائی مشکلات اور خطرات کے باوجود مویشیوں سے لدے اپنے ٹرکس اور گاڑیاں مقررہ مقام یا فیکٹری تک پہونچانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں وہ اپ آپ میں اطمینان محسوس کرتے ہیں۔ حالانکہ انہیں اپنی محنت کی کمائی کا کچھ حصہ اس کام کیلئے پولیس عہدیداروں کی جیبیں بھرنے پر بھی خرچ کرنا پڑتا ہے لیکن وہ اپنی مابقی کمائی سے مطمئن ہوجاتے ہیں اور پھر دوسرے دن دوبارہ خطرات مول لے کر مویشیوں کی منتقلی کیلئے تیار ہوجاتے ہیں۔