پی چدمبرم
انتخابی اعلامیہ کی تاریخ سے پولنگ کی آخری تاریخ (جو آج ہے) تک طویل، تھکن آمیز اور بعض اوقات مایوس کن 10 ہفتے گزرے ہیں۔ ہم کو پالیسیوں پر مباحثوں کے سواء ہر چیز بہت دیکھنے میں آئی ہے۔ سیاسی پارٹیاں، امیدوار، ریلیاں اور روڈشوز، رقم کا صرفہ، ناشائستہ باتیں، تشدد، تعریف و توصیف کے حامل EVMs اور VVPATs کی ناکامی، اور الیکشن کمیشن (ای سی) کی جانب سے کلین چٹس… یہ سبھی کافی تعداد میں دیکھنے میں آئے ہیں۔ پھر بھی، آخرکار بہت بڑے پیمانے کا جمہوری عمل مکمل ہورہا ہے۔
الیکشن کمیشن کے رپورٹ کارڈ پر صرف ’اوسط‘ کارکردگی درج ہے۔ مجھے جس بات نے الجھن میں ڈالا وہ مختلف معیارات رہے جو مختلف ریاستوں میں اختیار کئے گئے۔ مثال کے طور پر ٹاملناڈو میں روڈ شوز، کاروں کے قافلوں اور ہورڈنگس کی اجازت نہیں دی گئی؛ قصبات اور شہروں میں پوسٹرس اور دیواروں کی تحریروں پر امتناع عائد کیا گیا؛ اخراجات ؍ مصارف پر نظر رکھنے والے مبصرین نے بیجا مداخلت کی اور من مانی انداز اختیار کیا؛ اور ’خیالی خرچ‘ کے نظریہ کو مضحکہ خیز حد تک بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ دوسری طرف، دہلی اور شمالی، مغربی اور مشرقی ہندوستان کے حلقوں میں ہورڈنگس اور پوسٹرس کا سیلاب معلوم ہورہا تھا۔ روڈشوز اور طویل قافلے معمول کی سرگرمی بن گئے۔ غیرمعمولی اخراجات عیاں تھے، (صرف) مصارف پر نظر رکھنے والے مبصرین دکھائی نہ دے رہے تھے۔ مجھے تعجب ہے کہ الیکشن کمیشن ایسے واضح امتیازی قواعد کی مدافعت کس طرح کرسکتا ہے۔
پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے جانبداریاں اختیار کرلئے۔ ان میں سے زیادہ تر حکومت کی طرف دکھائی دیئے، پسندیدگی کے سبب یا پھر خوف کی بناء… آخرالذکر کا زیادہ امکان ہے۔ بعض بی جے پی کے ساتھ سفر میں شریک بھی ہوگئے۔ کسی کو بھی ظاہر طور پر یاد نہ رہا کہ لوک سبھا کیلئے قومی چناؤ حکومت کے پانچ سالہ ریکارڈ کے بارے میں امتحان ہے۔ چند اخبارات اور مزید کئی چیانلوں نے بی جے پی حکومت کے ریکارڈ پر تنقید کرنے یا اسے آشکار کرنے کی جرأت کا مظاہرہ کیا۔ وہ تو بھلا ہو آن لائن میڈیا اور سوشل میڈیا کا کہ ملک میں دلچسپ مباحث ہوئے۔ یہ وہی لچکدار مباحثہ کا اثر ہے جسے غیرواضح انداز میں ’انڈرکرنٹ‘ (پوشیدہ لہر ؍ دھارا) قرار دیا جاتا ہے، جو الیکشن کے نتیجے کا فیصلہ کرے گا۔ تمام منشوروں ماسوائے ایک کو مصنفین نے تک نظرانداز کردیا۔ وزیراعظم بی جے پی کے منشور پر انتخابی مہم چلانے پر آمادہ نظر نہیں آئے۔ مسٹر راہول گاندھی نے کانگریس کے وعدوں کو ہر جلسہ میں بار بار دہرایا، بالخصوص نیائے (NYAY) ، کسانوں کے مسائل اور نوکریاں۔
معیشت کا تذکرہ نہیں؟
بی جے پی نے انتخابی مہم کے ابتداء میں ہی اپنی چال بدل ڈالی۔ ’اچھے دن‘ کا کہیں ذکر نہ کیا۔ 2014ء کے وعدے بی جے پی کیلئے الجھن بن گئے۔ مسٹر نریندر مودی نے ’سرجیکل اسٹرائک‘، پلوامہ۔ بالاکوٹ اور قوم پرستی میں پناہ ڈھونڈ لی۔ ’سرجیکل اسٹرائک‘ کچھ اور نہیں بلکہ سرحد پار کارروائی ہے جس نے پاکستان کو (مخالف ہند سرگرمیاں چلانے سے) باز نہیں رکھا۔ پلوامہ دراصل انٹلیجنس کی حد درجہ ناکامی ہوئی۔ بالاکوٹ اَسرار میں گھرا ہوا ہے۔ مسٹر مودی کی ’قوم پرستی‘ والی بحث نے ملک کو تقسیم کرڈالا کہ ’’کیا آپ میرے ساتھ ہو یا آپ میرے خلاف ہو؟‘‘ اور اگر آپ مسٹر مودی کی پالیسیوں کے خلاف ہوں تو آپ قوم دشمن ہو۔ اس معیار کے اعتبار سے وہ تمام جنھوں نے 2019ء میں بی جے پی کے خلاف ووٹ ڈالے، قوم دشمن ہوں گے اور ہوسکتا ہے ہم غالب طور پر قوم دشمنوں کا ملک بن جائیں گے!
معیشت کو فراموش کردیا گیا۔ جب معتبر رپورٹس اور سرکاری اعداد و شمار سامنے آئے تو جھٹکے لگے اور حکومت کی جھوٹی باتوں میں بڑے بڑے نقائص آشکار کرگئے۔ وزیراعظم انتخابی مہم چلاتے رہے اور وزیر فینانس بلاگس لکھتے رہے، اور معیشت بُری طرح ناکام ہوگئی (ملاحظہ کیجئے Economy has entered danger zone، انڈین اکسپریس، 12 مئی 2019ء)۔ گزشتہ ہفتے کے دوران مزید بُری خبر سامنے آئی۔ مینوفیکچرنگ کی شرح فبروری 2019ء میں منفی (negative) ہوگئی اور مارچ 2019ء میں بھی منفی ہی رہی۔ اسٹاک مارکیٹ میں Sensex اور Nifty نے حساس اشاریہ میں لگاتار نو دنوں تک گراوٹ درج کرائی۔ ڈالر۔ روپیہ کے تبادلہ کی شرح 70.26 روپئے ہوگئی۔ اخبارات نے سوچھ بھارت، اُجوالا اور پی ایم اے وائی کے نتائج کے بارے میں غیرخوشامدانہ رپورٹس شائع کئے۔ جب امریکہ نے ایران پر گرفت کس دی، ہندوستان تیل کے حصول میں جدوجہد سے دوچار ہوگیا، یہاں تک کہ تیل کی قیمتیں بڑھ گئیں۔ امریکہ اور چین کے درمیان ٹیرف کی جنگ میں شدت پیدا ہوگئی، جس کے زیراثر ہندوستان کی بیرونی تجارت کونقصان کے اندیشے پیدا ہوگئے ہیں۔
عوامی گفتگو ؍ تقریر کی سطح بہت زیادہ گھٹ چکی ہے۔ اس سے انکار نہیں کہ ناشائستہ باتوں اور القاب کا آزادانہ طور پر استعمال ہوتا رہا، اس شوروغل میں حتیٰ کہ طنز اور اشارہ کنایہ کی باتیں بھی غیرپارلیمانی ہوگئے! ’جمہوریت کے طمانچہ‘ کو لغوی معنی میں وزیراعظم پر طمانچہ کا خطرہ سمجھا گیا۔ مہابھارت کے ایک کردار کے حوالہ کو توہین باور کیا گیا۔ مسٹر نریندر مودی نے ہر اس بات پر اعتراض کیا جو اُن کے تعلق سے کہی گئی اور خود کو مظلوم کے طور پر پیش کیا؛ اور اس حقیقت کو نظرانداز کرگئے کہ خود انھوں نے متاثرین کا طویل سلسلہ چھوڑا ہے۔
مسٹر مودی کے کئی پہلو
انتخابی مہم کے آخری مرحلے میں وسط گرما میں بادلوں کی غیرمتوقع گھن گرج کی مانند غیرارادی ہنسی مذاق کا سلسلہ چل پڑا۔ اس کیلئے ہم وزیراعظم کے مشکور ہیں۔ انھوں نے تلخ انتخابی مہم کو سائنس اور ٹکنالوجی کے اپنے تجربات کے بارے میں غیرمعمولی انکشافات کے ذریعے ماحول کو زعفران زار بنادیا۔ پہلی بات بالاکوٹ ایئر اسٹرائک کے بارے میں ہوئی۔ مسٹر مودی نے کہا، ’’ماہرین خراب موسم کے سبب فضائی حملے پر نظرثانی کررہے تھے، لیکن پھر میں نے کہا کہ اتنے گھنے بادل اور بارش ہمارے لئے فائدہ مند ہوسکتے ہیں، ہم اُن کے ریڈار (radar) سے بچ سکتے ہیں۔ یہ میری خام دانائی رہی۔ پھر میں نے کہا، بادلوں کی آڑ ہے، آپ کارروائی کو آگے بڑھائیں۔‘‘ مسٹر ایل کے اڈوانی کے ساتھ اپنی وابستگی کو یاد کرتے ہوئے مسٹر مودی نے کہا، ’’میں نے لگ بھگ 1987-88ء میںپہلی مرتبہ ڈیجیٹل کیمرہ استعمال کیا… میں نے اڈوانی کی تصویر بنائی اور اسے دہلی کو ارسال کیا۔ اڈوانی جی متعجب ہوئے اور دریافت کیا کہ کس طرح میری کلر فوٹو آج (دوسرے روز) شائع ہوگئی؟‘‘ مسٹر مودی کے سائنس کے معاملے میں تخیلی تجربات ضرور بھگوان کا آشیرواد ہونے چاہئیں۔ مجھے ایک اور بات یاد آگئی جو مسٹر مودی نے 2014ء میں کہی تھی۔ ’’بھگوان نے مجھے رنگوں کی آمیزش اور اُن کی موزونیت کی حس عطا کی ہے۔ چونکہ میں بھگوان کی دین ہوں، اس لئے میں ہر معاملے میں اچھی طرح گھل مل جاتا ہوں۔‘‘ خدا ہندوستان کے انتخابات دیکھ رہا ہے۔