دانش قادری
اسرائیل کے صدر روئین ریولن ہندوستان کے ایک ہفتہ طویل دورہ پر ہیں۔ ان کے دورہ کے اثرات کے تعلق سے ذرائع ابلاغ میں مختلف رائے پیش کی جا رہی ہے ۔ یہ سوال پیدا ہو رہا ہے کہ ہندوستان ‘ اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات میں آرہی بہتری کے دوران کس طرح سے توازن برقرار رکھ پاتا ہے ۔ ایک طرف تو وہ اسرائیل کے ساتھ اپنی حکمت عملی شراکت میں اضافہ کر رہا ہے تو دوسری جانب ہندوستان کی اب تک کی معلنہ پالیسی موافق فلسطین ہے۔ یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ 1992 تک ہندوستان نے اسرائیل کو تسلیم تک نہیں کیا تھا ۔ دونوں ملکوں کے مابین رسمی سفارتی تعلقات وزیر اعظم کی حیثیت سے نرسمہا راو کے دور میں قائم ہوئے تھے ۔ اس دور میں ہندوستان کی مابعد سرد جنگ پالیسیوں میں واضح تبدیلیاں لائی گئیں۔ اس کے بعد سے ہندوستان کی اسرائیل پالیسی کو چار مراحل میں دیکھا جاسکتا ہے ۔ اول یہ کہ ہندوستانی قومی تحریک جو فلسطین کی تقسیم کی مخالف تھی اور یہودی مملکت کو تسلیم نہیں کیا جاتا تھا ۔ دوم یہ کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو سوویت یونین کی تقسیم کے بعد ہندوستان کی پالیسی کے مطابق بہتر بنانا ‘ سوم یہ کہ عرب ۔ اسرائیل تنازعہ میں شدت سے گریز اور چہارم یہ کہ اب نریندر مودی اسرائیل کو نہ صرف تیسرا سب سے بڑا ہتھیار فراہم کرنے والا ملک قرار دے رہے ہیں بلکہ وہ اسرائیل کو ہندوستان کی مسلح افواج کیلئے ایک نمونہ سمجھنے لگے ہیں۔ ناقدین یہ اجاگر کرتے ہیں کہ ہندوستان اگر عرب ۔ اسرائیل تنازعہ سے خود کو ذرہ بھی الگ کرتا ہے تو عرب دنیا میں ہندوستان کا امیج متاثر ہوگا ۔ خاص طور پر 56 رکنی تنظیم اسلامی کانفرنس کے ساتھ اس کے تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں ۔ یہ تنظیم عموما ہندوستان کی کشمیر پالیسیوں پر تنقید کرتی رہی ہے ۔ ہندوستان کیلئے کئی اہم ٹکنالوجی کنٹرول والے معاہدات اور دوسرے عالمی گورننس ؛ھانچہ میں جگہ بنانے اور خاص طور پر اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت حاصل کرنے کیلئے عرب ممالک کی تائید بہت ضروری ہے ۔ اگر ہندوستان اپنے موقف میں ذرہ برابر بھی موافق اسرائیل جھکاو پیدا کرتا ہے تو مسلم دنیا میں نریندر مودی کا اثر متاثر ہوکر رہ جائیگا ۔
تاہم ایسا لگتا ہے کہ نریندر مودی جلد بازی میں ہیں۔ اور 2002 کے بعد سے جاپان اور اسرائیل ہی دو ایسے ممالک ہیں جنہوں نے اس وقت کے چیف منسٹر نریندر مودی سے روابط ایسے حالات میں رکھے تھے جب دوسرے تمام ممالک نے ایک دہے تک مخالف مودی مہم انسانی حقوق کے نام پر چلائی تھی ۔ آج اس بات میں کوئی شک نہیں کہ وزیر اعظم کی حیثیت میں نریندر مودی ‘ جاپان اور اسرائیل کے ساتھ ہندوستان کے سفارتی تعلقات کو فروغ دینے میں مرکزی مقام رکھتے ہیں۔ وزیر اعظم کی حیثیت سے جائزہ لینے کے چار ماہ سے کچھ زیادہ وقت میں نریندر مودی نے اسرائیل کے اپنے ہم منصب بنجامن نتن یاہو کے ساتھ پہلی ملاقات اقوام متحدہ جنرل اسمبلی اجلاس کے موقع پر کی تھی ۔ نتن یاہو نے اس وقت مودی کو دورہ اسرائیل کی دعوت دی اور امکان ہے کہ مودی جنوری 2017 میں اسرائیل کا دورہ کرینگے جو دونوں ملکوں کے مابین سفارتی تعلقات کے 25 سال کی تکمیل کا موقع ہوگا ۔ مودی کی اسرائیل پالیسی میں سب سے ڈرامائی تبدیلی اس وقت دیکھی گئی جب وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے نومبر 2014 میں صرف اسرائیل کا دورہ کیا تھا ۔ تمام اعلی سطح کے دورے اس سے قبل جو ہوئے ہیں ان میں اردن اور فلسطین کو بھی شامل کیا گیا تھا ۔ ایسے دورے کرنے والوں میں وزیر داخلہ ایل کے اڈوانی ‘ وزیر خارجہ جسونت سنگھ شامل ہیں جنہوں نے یہ دورے 2000 میں کئے تھے ۔ اس کے بعد وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا نے 2012 میں یہ دورہ کیا تھا ۔ ہندوستان کا موقف ہمیشہ یہ رہا کہ اسرائیل کے ساتھ اس کے تعلقات کا انحصار اسرائیل ۔ فلسطین تنازعہ میں ہونے والی پیشرفت پر ہوگا ۔ جب ہندوستان نے اس سے بچنے کی کوشش کی تو پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ کے باہر اس پر ہنگامہ ہوا جس کے نتیجہ میں پھر اس جھکاو کی شدت کو کم کرنا پڑا ہے ۔ اکٹوبر 2015 میں صدر جمہوریہ پرنب مکرجی نے اردن ‘ فلسطین اور اسرائیل کا دورہ کیا ۔ وہ نہ صرف رملہ شہر میں رات گذارنے والے پہلے بیرونی سربراہ مملکت تھے بلکہ وہ اسرائیل کا دورہ کرنے والے پہلے ہندوستانی سربراہ مملکت بھی تھے ۔ انہوں نے اسرائیلی کنیسیٹ (پارلیمنٹ) سے خطاب کیا تھا اور میڈیا میں اس پر بھی تبصرے ہوئے تھے ۔ اس وقت بنجامن نتن یاہو نے کہا تھا کہ وہ اکثر اپنے عزیز دوست مودی سے بات کرتے ہیں۔ جب ہم نے ایک مرتبہ ملاقات کی تھی تو انہوں ( مودی ) نے مجھ سے کہا تھا کہ ہندوستان ‘ اسرائیل کو چاہتا ہے اور اسی سے ہم دونوں ملکوں میں یکسانیت دیکھی جاسکتی ہے ۔ اس کے بعد سشما سوراج نے جاریہ سال جنوری میں وزیر خارجہ کی حیثیت سے اردن ‘ فلسطین اور اسرائیل کا دورہ کیا تھا اور امکان ہے کہ مودی کے دورہ کی تیاریوں کے طور پر کئی اور وزارتی دورے بھی ہوں۔
ہندوستان کیلئے اچھی بات یہ ہو رہی ہے کہ ایران نیوکلئیر معاملت اور داعش کے عروج سے دنیا کی توجہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات سے ہٹ گئی ہے ۔ ہندوستان نے اب تک سعودی عرب اور ایران کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن برقرار رکھا ہے ۔ یہ دونوں اہم اور طاقتور مسلم ممالک ہیں جو ایک دوسرے سے بہتر روابط نہیں رکھتے ۔ اسی سے ہندوستان کیلئے یہ موقع دستیاب ہوگیا کہ وہ کسی منفی اثر کے بغیر اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنائے ۔ جاریہ سال اپریل میں ہندوستان نے یونیسکو میں ایک موافق فلسطین قرار داد کے حق میں ووٹ دیا جس میں بیت المقدس شہر میں کھدوائی کے اسرائیل کے ادعا کے تعلق سے سوال کیا گیا تھا ۔ اس کے بعد ہندوستان نے گذشتہ مہینے اسی طرح کی ایک قرار داد پر رائے دہی سے غیر حاضری اختیار کی ۔ ایسے میں اس غیر حاضری اور صدر ریولن کے دورہ سے توازن برقرار رکھنے منسٹر ٓف اسٹیٹ خارجہ ایم جے اکبر نے گذشتہ ہفتے فلسطین کا دورہ کیا تاکہ وہاں پہلے مشترکہ کمیشن کے اجلاس میں شرکت کرسکیں۔ صدر ریولن کے دورہ میں ساری توجہ اس بات پر مرکوز رکھی گئی کہ دونوں ملکوں کے مابین فروخت کنندہ اور خریدار کے تعلقات کو مزید مستحکم کیا جائے اور وسعت دی جائے ۔ دونوں ملکوں کی افواج کے مابین تعلقات کو مستحکم کیا جائے ۔ دفاعی شعبہ میں تعلقات کو اور بھی وسعت و گیرائی دی جاسکے ۔
گذشتہ ایک دہے میں اسرائیل نے ہندوستان کو 12 بلین ڈالرس کی فوجی اشیا فروخت کی ہیں لیکن یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ ہندوستان ۔ اسرائیل کے تعلقات صرف تبادلوں اور مشترکہ ریسرچ و ڈیولپمنٹ سے آگے بڑھ گئے ہیں اور اسرائیل مودی حکومت کی میک ان انڈیا مہم میں ایک اہم شراکت دار بن کر ابھرا ہے ۔ تاہم باہمی تجارت میں گذشتہ سال کمی بھی دیکھی گئی ہے ۔ یہ تجارت جو 1992 میں 200 ملین ڈالرس کی تھی وہ 2014 میں 5.61 بلین ڈالرس تک پہونچ گئی تھی ۔ گذشتہ سال یہ تجارت 4.91 بلین ڈالرس تک محدود ہوکر رہ گئی ۔ دونوں ملکوں کے مابین کوشش اس بات کی ہو رہی ہے کہ اس تجارت کو 10 بلین ڈالرس تک پہونچایا جائے ۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ کام مشکل ہوگا کیونکہ آزادانہ تجارت معاہدہ پر جو بات چیت 2010 میں شروع ہوئی تھی وہ ابھی تک ثمر آور ثابت نہیں ہوئی ہے ۔ تاہم دونوں ملکوں کے تعلقات میں ڈرامائی بہتری آئی ہے اور بحیثیت صدر ریولن نے یہ بھی کہا ہے کہ ہندوستان اور اسرائیل کے مابین دوستی ہرگذرتے دن کے ساتھ بہتر ہوتی جا رہی ہے اور یہ دوستی ایسی نہیں ہے کہ اسے پوشیدہ رکھا جائے ۔