محمد ریاض احمد
ممبئی میں شہادت بابری مسجد کے بعد مسلم کش فسادات میں ہزاروں مسلمان بے گھر ہوگئے تھے۔ ان بے گھر مسلم خاندانوں نے شہر کے مضافاتی علاقہ ممبرا میں خود کو محفوظ پایا اور وہیں پناہ حاصل کی اور فی الوقت وہاں 9 لاکھ سے زیادہ لوگ آباد ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اس علاقہ کو سرکاری اداروں اور حکام نے بری طرح نظرانداز کردیا ہے۔ دی ہندو میں اس غیر معمولی بستی کے بارے میں بشارت پیر کی ایک خصوصی رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں انہوںنے بہت ہی متاثر کن انداز میں مسلمانوں کی اس گندی بستی کا نقشہ کھینچا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ممبرا پہنچنے کے لئے آپ کو ممبئی سے تقریباً بذریعہ سڑک دو گھنٹوں سے زائد سفر کرنا ہوگا۔ ممبرا میں داخل ہوتے ہی آپ کو وہاں ایسے مکانات کی قطار نظر آئے گی جس طرح ایک غیر منظم کتب خانہ میں کتابوں کو بے ڈھنگی ترتیب کے ساتھ رکھ دیا گیا ہو۔ شدید گرمی کے باوجود ایک قبرستان کے قریب بلکہ قبرستان میں ہی بچوں کی اچھی خاصی تعداد کرکٹ کھیلنے میں مصروف تھی۔ میلی کچیلی گاڑیاں ایسی پارک کی گئیں جس سے راستہ رک سا گیا تھا۔ یہ بستی جیسی بھی ہو لیکن مسلمانوں کے لئے ایک محفوظ پناہ گاہ ثابت ہوئی ہے۔ 6 دسمبر 1992ء کو شہادت بابری مسجد کے بعد ممبئی میں ہندوستان کی تاریخ کے بدنام فسادات میں نے ایک فرقہ وارانہ فساد برپا کیا گیا جس میں کثیر تعداد میں مسلمان شہید ہوئے اور کروڑہا روپے کی املاک تباہ و برباد کردی گئی تاہم 1993ء میں مسلم انڈر ورلڈ نے مبینہ طور پر ان مسلم کش فسادات کا سلسلہ بم دھماکوں کے ذریعہ ایسا انتقام لیا کہ آج بھی فرقہ پرستوں کے ہوش اڑ جاتے ہیں۔ اس واقعہ نے شہر ممبئی کی سماجی و آبادیاتی ہیت ہی بدل کر رکھ دی۔ ممبئی کے فسادات سے متاثرہ علاقوں کے مسلمانوں نے ممبرا میں سکونت اختیار کرلی اس علاقہ میں کونکن مسلمانوں کی ایک کثیر آبادی پہلے ہی سے مقیم تھی۔ 1992ء فسادات سے قبل ممبرا کی آبادی 54000 تھی لیکن آپارٹمنٹس کے سستے کرایہ اور دام وہی و شہری علاقوں سے عوام کی بڑے پیمانے پر منتقلی اور ممبئی فسادات کے نتیجہ میں ممبرا کی آبادی میں 20 گنا اضافہ ہوا۔ 2011ء کی مردم شماری کے مطابق ممبرا کی آبادی 9,00,000 بتائی گئی اور ممکن ہے کہ شہری علاقوں میں یہ واحد علاقہ ہوگا جس کی آبادی میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوا ہوگا۔
1992-93ء تشدد کے بعد ممبرا منتقل ہونے والے پہلے گروپوں میں شامل رہے ایک الیکٹریکل انجینئر 40 سالہ اسد اللہ خان اب وکھرولی کے مضافاتی علاقہ کنموارنگر میں رہ رہے ہیں۔ اس علاقہ میں ہندوؤں اور مسلمانوں کی ملی جلی آبادی ہے اور اب تک فرقہ وارانہ نوعیت کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ اسد اللہ خان جزوقتی طور پر طلبہ کو ٹیوشن بھی پڑھاتے ہیں دلچسپی کی بات یہ ہے کہ وہ جس اپارٹمنٹ میں رہتے تھے وہاں وہی واحد مسلم مکین رہ گئے تھے۔ فسادات کے بعد ان کے مسلم پڑوسی ایسے علاقوں میں منتقل ہوگئے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہو اسد اللہ خان نے ہمت نہیں ہاری لیکن ایک خاتون پڑوسی نے انہیں خبردار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو بھی اب یہاں سے دوسرے علاقہ میں منتقل ہو جانا چاہئے۔ اسد اللہ خان بتاتے ہیں کہ کچھ دنوں بعد انہوں نے اپنا اپارٹمنٹ بازار کی قیمت سے بہت کم قیمت میں فروخت کردیا اور پھر انہیں ممبرا میں واقع اپنے بہنوئی کے اپارٹمنٹ میں پناہ مل ہی گئی۔ ان کا کہنا تھاکہ بعد میں انہوں نے خود ایک اپارٹمنٹ خریدا اور تب سے اسی اپارٹمنٹ میں مقیم ہیں۔ اس کے بعد بھانڈپ، وکھرولی، گھاٹ کوپر بہرام باغ اور والکیشور کے مسلمان بھی ممبرا منتقل ہوتے گئے۔ اور یہ علاقہ اب مسلم اکثریتی علاقہ میں تبدیل ہوچکا ہے۔ حیرت اس بات کی ہے کہ ممبئی فسادات کے دوران ریاستی اور مرکزی حکومت نے مسلمانوں کے قتل عام ان کی تباہی و بربادی کا بڑی بے حسی کے ساتھ تماشہ دیکھا۔ انہیں محفوظ علاقوں میں منتقلی کے لئے مدد تک نہیں کی۔ اس کے باوجود متاثرہ مسلمانوں نے اپنے طور پر ممبرا کا رخ کیا اور ممبرا وسعت اختیار کرتا گیا۔ اس علاقہ میں برقی اور آبی سربراہی بہت ناقص ہے۔ سرکاری انفرا اسٹرکچر (بنیادی سہولتیں) بھی نہ ہونے کے برابر ہیں لیکن فسادات نے ممبرا میں بلڈرس کو اپنے کاروبار کو نقطہ عروج پر پہنچانے کا زریں موقع عطا کیا۔ 1990ء سے قبل ممبرا میں غیر قانونی طور پر تعمیر کردہ دو کمروں کا اپارٹمنٹ دو لاکھ روپے میں فروخت ہوتا تھا لیکن آج دو کمروں والے غیر قانونی طور پر تعمیر کردہ اپارٹمنٹ کی قیمت 8 تا 10 لاکھ روپے ہے۔ اسد اللہ خان کے مطابق اگر وہ قانونی طور پر یہ اپارٹمنٹ تعمیر کریں تو اس پر 25 تا 30 لاکھ روپے کے مصارف آتے ہیں۔ ممبرا دراصل اوسط اوسط سے کم اور وکینگ کلاس مسلمانوں کا مرکب علاقہ ہے۔ اس علاقہ میں رہنے والے لوگوں کی اکثریت مارکٹ کی قانونی قیمتوں کے تحمل نہیں ہوسکتے۔ ناقص معیار کی تعمیرات کبھی کبھار بہت مہنگی ثابت ہوتی ہے۔
مثال کے طور پر 2013ء میں ایک عمارت کے مہندم ہو جانے کے باعث اس میں 70 سے زائد لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ اس واقعہ کے باوجود لوگوں میں کسی قسم کا خوف نہیں ہے۔ 70 سال عمر کے ایک ریٹائرڈ ٹیچر رفیع الدین خان جنہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ محمد علی روڈ کے قریب ایک کرایہ کے مکان میں گذارا بتایا کہ محمد علی روڈ علاقہ ممبئی کا قدیم مسلم اکثریتی علاقوں میں سے ایک علاقہ ہے ان کا کہنا ہے ’’ہمارا علاقہ بہت محفوظ تھا لیکن میں دو کمروں کے مکان میں بڑے خاندان کے ساتھ رہتے ہوئے تھک سا گیا تھا۔ رفیع الدین خان کے مطابق انہوں نے اپنی چال فروحت کی جس سے اتنی رقم حاصل ہوگئی کہ اس سے ممبرا میں اپارٹمنٹ خرید لیا۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ممبئی کی طرح یہاں اسپتالوں، اسکولوں، کالجس وغیرہ کی سہولتیں نہیں ہیں‘‘۔ ممبئی تو شہر ہے اور ممبرا ایک گاؤں ہے‘‘ علاقہ میں جابجا آپ کو بلڈرس اور تعلیمی اداروں کے ایسے بورڈس نظر آئیں گے جس سے پتہ چلتا ہے کہ ممبرا میں تمام سہولتوں سے آراستہ اپارٹمنٹس نہایت ہی موزوں داموں پر فروخت شدنی ہے جبکہ ممبرا کے مسلم لڑکے لڑکیاں تعلیمی شعبوں میں کارہائیء نمایاں انجام دے رہے ہیں۔ ہم نے ایسا ہی ایک اشتہاری بورڈ الہمدایہ اسکول کا دیکھا جس پر ہنستے مسکراتے طلباء و طالبات کی تصاویر اور ایسی ایس سی میں حاصل کردہ نمبرات اور ان کا اوسط ظاہر کیا گیا تھا۔ اسد اللہ خان نے انجینئرنگ کو خیرباد کہتے ہوئے ایک ٹیوشن سنٹر قائم کرلیا اور جب ایک قدیم سکھ فیملی نے جو ممبرا میں خانگی اسکول چلایا کرتی تھی اس نے اسکول فروخت کرنے کا فیصلہ کیا۔ تب خان صاحب نے وہ اسکول خرید لیا اور پھر اسے اسد اللہ خان انگلش ہائی اسکول اینڈ جونیر کالج کا نام دیا۔ اس اسکول میں پہلے ہی سے 1400 طلبہ زیر تعلیم تھے۔ افسوس تو اس بات پر ہے کہ ممبرا میں مسلمانوں کی تقریباً 10 لاکھ آبادی کے باوجود حکومت مہاراشٹرا نے وہاں ایک سرکاری کالج قائم کرنے کی زحمت نہیں کی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت مہاراشٹرا مسلمانوں سے کس قدر تعصب اور جانداری کا مظاہرہ کرتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس مسلم اکثریتی علاقہ سے صرف حکومت ہی امتیاز نہیں برتتی بلکہ سرکاری ادارے بھی تعصب کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ تھانے شاپ سے آئیڈیا کا انٹرنیٹ ڈونگل خریدنے کی کوشش کرنے والے ایک وکیل کو اس وقت ڈونگل حاصل کرنے میں ناکامی ہوئی جب شاپ والے کو پتہ چلا کہ وہ (وکیل) ممبرا کا رہنے والا ہے۔ اسی طرح ایک اردو پبلش کو بی ایس این ایل سے لینڈ لائن اور براڈ بینڈ کنکشن کے لئے طویل عرصہ انتظار کرنا پڑا۔ پالول کے ایک خانگی اسکول نے چند ہفتے قبل ممبرا کے رہنے والے طلبہ کو داخلہ دینے سے انکار کردیا لیکن بعد میں مسلم سیاسی قائدین کی مداخلت پر اسکول کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا۔ اسکول انتظامیہ کا کہنا تھا کہ ممبرا میں رہنے والے بچوں کا رویہ اچھا نہیں ہوتا۔ ممبرا میں تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کی کمی نہیں ان کا کہنا ہے کہ حکومت اور سرکاری ادارہ ممبرا سے اس لئے مجرمانہ غفلت اور تعصب برتتے ہیں کیونکہ یہاں مسلمانوں کی کثیر آبادی ہے اور مسلمانوں سے انتظامیہ کو ایک قسم کی چڑ ہے۔ دیکھا جائے تو مسلمانوں کی بڑھتی آبادی ان کی نظروں میں کھٹکتی رہتی ہے۔ اس علاقہ میں سرکاری تعصب کا حال یہ ہے کہ وہاں ایک سرکاری اسپتال تک نہیں قریبی تھانے اور KALUA میں سرکاری اسپتال ہیں ہاں ممبرا میں کئی کلینکس کھل گئے ہیں۔ اس علاقہ میں ہر روز کم از کم 6 گھنٹے بجلی مسدود رہتی ہے۔ وہاں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ لوڈ شیڈنگ میں ہم لوگ نمبر ون ہیں۔ اس کے باوجود ان کا کہنا ہے کہ 5 سال کی بہ نسبت حالات اب بہت سدھر گئے ہیں۔
اس علاقہ میں اسٹیٹ بینک آف انڈیا، ایچ ڈی ایف سی اور بینک آف مہاراشٹرا نے اپنی شاخیں کھولی ہیں ۔ اے ٹی ایمس قائم کئے ہیں۔ گزشتہ سال ہی ڈامنوز کا ایک پرنٹر کھولا گیا ویسے بھی ہندوستان کے مسلم اکثریتی علاقوں میں بنیادی سہولتوں کا فقدان پایا جاتا ہے۔ نئی دہلی میں ہندوستانی پارلیمنٹ سے ایک گھنٹے کا سفر طے کرنے پر اوکھلا علاقہ ہے اس علاقہ میں کئی لاکھ کی آبادی ہونے کے باوجود ایک بینک بھی وہاں قائم نہیں کی گئی۔ دو سال قبل جموں و کشمیر بینک نے ڈارنگر میں ایک برانچ قائم کی۔ احمد آباد میں مسلمانوں کی سب سے بڑی بستی جوہا پورہ ہے۔ 2002ء کے فسادات کے بعد اس علاقہ کی آبادی دوگنی ہوگئی ہے۔ اس کے باوجود اس علاقہ میں آبی سربراہی کا انتظام ہے نہ ہی گیس سربراہ کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ جوہاپورہ کو احمد آباد کے ٹرانسپورٹ نٹ ورک سے بھی مربوط نہیں کیا گیا۔ جہاں تک پولیس اور ممبرا کے کمپنیوں کے تعلقات کا سوال ہے یہ تعلقات کبھی بھی اچھے نہیں رہے۔ احمد آباد گجرات میں دیگر 4 نوجوانوں کے ساتھ گجرات پولیس کے ہاتھوں شہید ہوئی عشرت جہاں کا تعلق بھی ممبرا سے ہے۔ سی بی آئی نے اس انکاؤنٹر کو اپنی تحقیقات کے بعد فرضی قرار دیا تھا۔ گزشتہ مارچ درمیانی شب کے بعد کثیر تعداد میں پولیس نے ممبرا میں دھاوے بے شمار افراد کو گرفتار کرکے گھنٹوں ممبرا پولیس اسٹیشن میں بند رکھا ان میں طلبہ، شاعر و ادیب اور ضعیف لوگ شامل تھے۔پولیس کا دعویٰ تھا کہ اس نے زنجیریں اڑانے والے دو سارقین کی تلاش میں یہ کارروائی کی ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا وہ سارقین ضعیف تھے جو بوڑھوں کو بھی تھانے لایا گیا۔ اصل بات یہ ہے کہ وہ پولیس کی بدمعاشی اور مسلمانوں سے تعصب کا ایک مظاہرہ تھا۔ ممبرا میں عشرت جہاں کا خاندان مقیم ہے ان کی بہن مسرت جہاں نے نفسیات میں بی اے کیا جبکہ بھائی تعصب کے باعث دردر کی ٹھوکریں کھانے کے بعد تھانے میں واقع ایک بی پی او میں جو ایک امریکی کمپنی ہے خدمات انجام دے رہا ہے۔ (ختم شد)
mriyaz2002@yahoo.com