ہندوستان کی اسرائیل سے بڑھتی ہوئی قربتیں

غضنفر علی خان

پچھلے دنوں ہندوستانی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے اسرائیل کا دورہ کیا ۔ جبکہ اس وقت اسرائیل عالم اسلام کے مشترکہ قبلہ اول پر قبضے کے لئے جنگ و جدل میں مصروف ہے ۔ اسرائیل کے ساتھ مودی حکومت نے معاہدات بھی کئے ہیں ۔ ایسے حکومتوں کے درمیان معاہدات کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ اصولی حیثیت سے ان پر اعتراض نہیں کیا جاسکتا ۔ لیکن یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اسرائیل جیسے جارحیت پسند اور قبضہ گیر ملک سے معاہدات اور دوستی ہندوستان کو زیب نہیں دیتی ۔ امریکہ نے لیبیا ، پاکستان کو بدمعاش ممالک Rouge ممالک قرار دیا تھا حالانکہ اس خطاب کا سب سے زیادہ مستحق اسرائیل ہے ۔ اسرائیل نے بین الاقوامی برادری کی رائے کا کبھی احترام نہیں کیا ۔ کبھی اقوام متحدہ کی قرارداد پر عمل نہیں کیا ۔ ہمیشہ ہٹ دھرمی اور ضد کا مظاہرہ کرتا ہے ۔ چونکہ اسرائیل امریکہ کا لے پالک ہے اس لئے اقوام عالم اور اقوام متحدہ نے کبھی اسرائیل کی مذمت اور مخالفت نہیں کی ۔

خود ہندوستان سے اسرائیل کے سفارتی تعلقات کوئی بہت زیادہ دیرینہ نہیں ہیں۔ سابق وزیراعظم آنجہانی پی وی نرسمہاراؤ کے دور میں سفارتی روابط قائم ہوئے تھے اور کافی عرصہ تک صرف اسرائیل کا قونصل خانہ ہی ہمارے ملک میں کام کرتا رہا لیکن جیسے جیسے ملک کی سیاسی صورتحال بدلتی گئی اور جوں جوں دائیں بازوکے محبان والی پارٹیاں اقتدار سے قریب ہوتی گئیں اور بالآخر اقتدار حاصل کرلیا تو یہ تعلقات مضبوط ہوتے گئے ۔ بی جے پی نے ہمیشہ ہی مسلم دشمن اسرائیل کے لئے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھا ۔ راجناتھ سنگھ سے بہت پہلے پارٹی کے لیڈر لال کرشن اڈوانی نے بھی اسرائیل کا دورہ کیا تھا ۔ اسرائیلی لیڈروں کے خفیہ دورے بھی ہوتے رہے لیکن انھیں راز میں رکھا گیا ۔ شمعون پیریز کے علاوہ اور یہودی لیڈروں نے ہندوستان کے دورے کئے اور انھوں نے اسرائیل میں 3 دن تک قیام بھی کیا تھا جس پر کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے سابق جنرل سکریٹری اے بی بردھن نے سخت اعتراض کیا تھا ۔ اس پس منظر میں وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کا دورہ کوئی نئی بات نہیں ۔ نئی بات تو یہ ہیکہ ہندوستان کی داخلی سلامتی کے لئے بھی مسٹر سنگھ نے معاہدہ کیا ہے ۔ داخلی سیاست کے لئے ہمارے ملک میں کئی ایجنسیاں کام کررہی ہیں اس سلسلہ میں اسرائیل سے مشورہ یا کسی قسم کی مدد مانگنے کی ہمیں قطعی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ داخلی سلامتی کسی بھی ملک کا اپنا اختیاری مسئلہ ہوتا ہے ۔

پھر اسرائیل سے اس سلسلہ میں معاہدہ کیا معنی رکھتا ہے ۔ اسرائیل ماضی میں کبھی بھی قابل اعتماد دوست ملک نہیں تھا اور نہ آئندہ اس سے امید کی جاسکتی ہے کہ وہ ہند ۔ اسرائیل دوستی کو نبھائے گا اس لئے بھی اسرائیل کی سرشت میں دوستی اور وفاداری دونوں ہی عناصر نہیں ہیں ۔ جس ملک کی بنیادیں فلسطینیوں کو بے گھر کرکے رکھی گئی جس نے اپنے قبضہ کو مستحکم کرنے کے لئے گذشتہ 65 سال سے فلسطینی عوام پرظلم و استبداد کے پہاڑ توڑے ہیں وہ کیسے ہندوستان کا دوست ملک بن سکتا ہے ۔ اسرائیل کی اساس ہی بے ایمانی پر رکھی گئی ہے ۔ اب اس وقت اسرائیل مسلمانان عالم کے قبلہ اول مسجد اقصی پر قابض ہونے کی کوشش کررہا ہے ۔ ہرروز بیت المقدس میں فلسطینیوں کا خون گلی کوچوں میں بہہ رہا ہے ۔ سینکڑوں معصوم بچے ، نوجوان اور بوڑھے ، خواتین و مرد فلسطینی مررہے ہیں اسرائیل کا دورہ اور اس سے معاہدات ہندوستان کی آزمودہ اور قدیم پالیسی کے عین مغائر ہے ۔ہوسکتا ہیکہ بی جے پی حکومت قومی رہنما گاندھی جی کی بھی درپردہ مخالف ہے ۔ کیونکہ گاندھی جی نے فلسطین کی اٹوٹ تائید کی تھی اپنی ادارت میں نکلنے والے اخبار ’’ہریجن‘‘ میں انھوں نے لکھا تھا کہ ’’فلسطین پر فلسطینیوں کا اتنا ہی حق ہے جتنا فرانسیسیوں کا فرانس پر ، انگریزؤں کا انگلستان پر ہے‘‘ ۔ گاندھی جی کے بعد بھی اسرائیل کو ہندوستان نے اپنی خارجہ حکمت عملی میں عربوں پر ترجیح نہیں دی ۔ آنجہانی اندرا گاندھی کے قتل کے موقع پر فلسطینی لیڈر یاسر عرفات نے نئی دہلی کا دورہ کیا تھا ۔

اس موقع پر یاسر عرفات مرحوم نے کہا تھا کہ ’’آج میں اپنی بہن سے محروم ہوگیا ہوں‘‘ ۔ یہ تاثرات اس لئے تھے کہ اسرائیل کے مقابلہ میں ہندوستان نے ہمیشہ فلسطین اور عربوں کے موقف کی تائید کی تھی ۔ آج بھی حالات نہیں بدلے ہیں ۔ آج بھی اسرائیل نے فلسطین پر اپنا غاصبانہ قبضہ برقرار رکھا ہے ۔ وہی جور و ستم ہے جو پہلے تھا تو پھر کیوں ہندوستان نے اسرائیل کے تعلق سے اپنی پالیسی میں تبدیلی کی ہے ۔ سوال مسلمانوں کی مسجد اقصیٰ سے عقیدت کا تو ہے ہی لیکن انسانی نقطہ نظر سے بھی اسرائیل کے ظلم و ستم کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ وہ غاصب تھا ہے او ررہے گا ۔ کسی غاصب ملک کی اتنی تائید اور اس سے معاہدات ہندوستان کی اسرائیل سے بڑھتی ہوئی قربتوں کا جہاں کھلا ثبوت ہے وہیں اس بات کی بین دلیل ہیکہ ہندوستان عالم عرب سے اپنی دوریاں بڑھارہا ہے ۔ اسرائیل ایک واحد ملک ہے ، عالم عرب اپنے اندر ایک دنیا رکھتا ہے ۔ ہندوستان کی کئی عرب ممالک سے گہرے ثقافتی اور تجارتی تعلقات ہیں جن پر کوئی حرف نہیں لاسکتا ، اسرائیل سے دوستی کی ہم کیا قیمت ادا کررہے ہیں یہ سوچنے کی بات ہے اگر عرب ممالک ہم سے تعلقات کشیدہ کرلیں تو ایک اسرائیل سے دوستی کے لئے ہم ایک ایسی قوم اور علاقہ عرب ممالک کی دوستی کھودیں گے ۔ اب یہ فیصلہ بی جے پی حکومت کو ہی کرنا ہوگا کہ وہ ہندوستان کے وسیع تر مفادات کو عرب ممالک سے ہیں ان کو کس قسم کا نقصان پہنچاکر اسرائیل سے دوستی اور قربت اختیار کرکے ’’گھاٹے کا سودا‘‘ نہیں کررہا ہے ۔ خارجی حکمت عملی اس عمل کو غیر معمولی لغزش نہیں کہا جائے گا ۔ مودی حکومت میں خارجی امور پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کی بھی شدید کمی ہے ورنہ یہ غلطی نہیں ہوتی ۔ اسرائیل سے دوستی سے پہلے عالم عرب کو از سر نو اعتماد میں بھی نہیں لیا گیا ۔ آج عرب ممالک کے سفارتی حلقوں میں یہ سمجھا جارہا ہے کہ ہندوستان کی خارجہ پالیسی میں بنیادی تبدیلی ہورہی ہے ۔ عرب اس تبدیلی سے بالکل ناواقف نہیں ہیں ۔ اسرائیل پر آخر اتنا اعتماد کرنے کی کوئی وجہ بھی ہے کہ نہیں ہے ۔ایک نئے اور ناقابل اعتبار دوست اسرائیل کی خاطر صدیوں کے آزمودہ دوست عرب ممالک سے دوری کا بڑھنا ہمارے بین الاقوامی مفاد میں نہیں ہے ۔ ایک اور تعلق بھی ہندوستان اور عرب و خلیجی ممالک کے درمیان ہے ۔ اس ممالک میں ہمارے لاکھوں باشندے ملازمتیں کررہے ہیں ۔ آج ایسے کئی خاندان ہیں جو عرب ممالک اپنے عزیزوں اور بچوں کی ملازمت کی وجہ سے غربت سے خوشحالی کی طرف چل پڑے ہیں ۔ بیرونی زر مبادلہ کے معاملہ میں بھی یہی ممالک آگے ہیں ۔ مشرق وسطی کے کئی ممالک ہیں ملازمت کرنے والے لاکھوں ہندوستانی باشندے کروڑہا اربوں کا زرمبادلہ فراہم کررہے ہیں ۔ اگر ان ممالک میں یہ احساس پیدا ہوجائے کہ ان کا باعتماد اور ہروقت ان کی تائید کرنے والا ہندوستان ان سے دور اور ان کے مشترکہ دشمن اسرائیل سے قریب ہوتا جارہا ہے تو ایک تاریخی المیہ ہوگا ۔ ممالک اور اقوام کے درمیان تعلقات بننے کے لئے صدیاں چاہئے لیکن ان کے بگڑنے کے لئے صرف ایک وجہ کافی ہوتی ہے ۔ ابھی عرب ممالک نے کسی قسم کا کھلا ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے لیکن اس اندیشہ کو غلط تصور کرتے ہوئے ابھی سے ختم کرنے کی کوشش کی گئی تو خارجہ تعلقات کی تاریخ میں یہ ایک اہم واقعہ ہوگا ۔ عربوں سے دوستی ہماری پالیسی کی کلید رہی ہے ۔ اسرائیل نہ کبھی ہمارا قریبی دوست تھا اور نہ اس سے ہمارے تہذیبی ، ثقافتی تعلقات رہے ہیں جبکہ عرب ممالک سے ہمارے ہر قسم کے تعلقات ہیں ۔ بہرحال اسرائیل سے دوستی آج نہیں تو کل مضرت رساں ثابت ہوگی جس کے لئے موجودہ بی جے پی حکومت ہی ذمہ دار ہوگی ۔