ہندوستان میں’چمڑے کی چھوٹی صنعت‘ تباہی کے دہانے پر

ساٹھ سال کی عمر کا چمڑے کا کاروباری محمد ہاشم جو آگرہ میں لیدر کی دوکان میں بیٹھے ہوئے ہیں نے کہاکہ پچھلے تین ماہ میں ان کا کاروبار40فیصد کم ہوا ہے
اگرہ: ایک مارکٹ جہاں پر چمڑے کی صنعت صدیوں سے فروغ پارہی ہے اب پچھلے تین ماہ سے تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی ہے۔ دائیں بازو کی پارٹی جب سے اقتدار میں ائی ہے ‘ جانوروں کو بچانے کے نام پر اگے ائی اور اس کومقدس مقصد بنالیا۔معیشت کو نقصان پہنچانا اسی کے ساتھ کھانے پینے کی عادتوں پر کارضرب بحث کا موضوع ہر جگہ بنا ہوا ہے۔ گوشت کی صنعت اترپردیش میں بری طرح متاثر ہوئی اور غیر لائسنس یافتہ مسلخوں کو اسی سال مارچ میں بند کرنے کی شروعات ہوئی۔

بی جے پی کی زیر قیادت حکومت نے پچھلے ماہ دیگر جانوروں پر بھی امتناع عائد کردیا اورقانون کے ذریعہ اس بات کا حکم دیا گیا کہ جانوروں کی نعشیں چمڑے کے مقصد سے فروخت نہیں کی جائیں گے او ر اتنا بھی نہیں سونچا کے اس فیصلہ کا چمڑے کی صنعت اور کسانوں پر کیا اثر پڑیگا۔دی ہندو کی ایک رپورٹ میں محمد ہاشم چمڑے کے کاروباری کے بیان کو کچھ اس طرح قلمبند کیاگیا ہے کہ’’چرم کی حالیہ قلت کی جتنے تکلیف مسلمانوں کو ہوئی ہے اتنی ہی تکلیف ہندؤں کو بھی ہورہی ہے‘ انہوں نے اپنی دوکان کے باہر کھڑے ہندو کی طرف اشارہ کیا جو بیل بنڈی پر رکھے اپنے نمکین چاول فروخت کرنے کی جدوجہد کررہا ہے‘‘۔

لاکھوں لوگ گوشت کی صنعت میں کام کرتے ہیں‘ جو سالانہ 16بلین ڈالر سے زیادہ کا ہے۔گوشت کی طرح ہی ہندوستان میں چمڑے کا کاروبارپچھلے دس سالوں میں تیزی کیساتھ پھیلا ہے او رہزاروں لوگوں کے روزگار کی وجہہ بھی بنا۔اترپردیش میں اگرہ گھریلو اور بیرونی خریداروں کے لئے چمڑے کے جوتے کی لاکھوں جوڑی تیار کرتا ہے جس میں انڈیکس کے ذاتی ذارا اور کلارک بھی ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق نارتھ انڈیا کی شہریوں کی 40فیصد آبادی کا انحصار انڈسٹری پر ہے۔کلارک نے اپنے بیان میں کہاکہ وہ ہندوستانی گائے کے چمڑے کا استعمال نہیں کرتا اور وہ معمولی تعداد میں بھینس کا چمڑے کا ہندوستان سے ذریعہ بنتا ہے جو متاثر نہیں کیاگیا تھا۔زارا کی جانب سے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیاگیا۔چمڑے کی درآمد میں ہندوستان کو پانچواں مقام حاصل ہے جو قدرتی طور پر مرنے والی مردہ گائے اور قانونی نوعیت کے مسلخوں میں ذبح ہونے والے بھینسوں کے چمڑے پر مشتمل ہے۔وزیراعظم مودی کی حکومت کو 24بلین ڈالر کے چمڑے کی ریونیو کا نشانہ بنارہی ہے جو آج کی حساب سے دوگنی ہے۔

سال2020تک ملازمتوں کی تخلیق کے متضاد’جملہ‘ مذکورہ حکومت کا کہنا ہے کہ جانوروں کی مارکٹ میں گائے اور بھینس صرف زراعت کے مقصد سے فروخت کی جاسکتی ہے جس میں ہل چلانا اور ڈائیری شامل ہے۔وہیں پر کمپنیوں کا کہنا ہے کہ حکومت کا چمڑے کی نشانہ ناممکن ہوجائے گا جب تک تحدیدات پر غور خوص نہیں کیاجاتا۔اگرہ نژاد ایکسپورٹر دیوارفٹ ویر انڈسٹری چیرمن پوران دیوار نے کہاکہ ’’ تازہ احکامات کے بعد انڈسٹری میں بڑا خوف ہے‘ جو نقصان کی بڑی وجہہ بھی ہے۔

انہوں نے مزیدکہاکہ سینکڑوں مزدور فیکٹری میں جوتے تیار کرنے کاکام کررہے ہیں ۔ انہوں نے حکومت کی گائے ٹریڈ پر امتناع کا حوالہ بھی دیا۔انہوں نے کہاکہ ’’ یہاں پر چمڑے کی سپلائی ‘ جوتے کی درآمد اور روزگار کے لئے سنگین خطرات پیدا ہوگئے ہیں‘‘