ہندوستان سب سے پسندیدہ ملک نہیں

محمود شام، کراچی (پاکستان)

پاکستان ہندوستان کو سب سے پسندیدہ ملک کا درجہ دیتے دیتے پھررہ گیا کہنے کو تو یہی کہا جارہا ہے کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے ایسا نہیں کرنے دیا ، لیکن حقیقت کچھ اور ہے کہ کچھ تنظیمیں اس کے خلاف مسلسل احتجاج کررہی ہیں اس سوموار کو بڑی تعداد میں کسان واہگہ پہنچ رہے ہیں ایک تنظیم کسان اتحاد کے پرچم تلے سب اکٹھے ہو رہے ہیں ۔ ہماری مرکزی کابینہ پہلے صرف اسی مدعے پر خصوصی میٹنگ بلارہی تھی اور تاجروں ، صنعت کاروں خاص طور پر ایکسپورٹرز سے کہہ دیا گیا تھا کہ کسی لابی کی مخالفت کو خاطر میں نہیں لایا جائے گا۔ وزیر اعظم اور صدر دونوں بھارت سے تجارت کے حق میں ہیں ، کیونکہ دونوں تاجر ہیں بزنس مین ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو اس تجارت سے فائدہ ہوگا ۔

لاہور ، اسلام آباد ، پشاور ، کوئٹہ اور ملک کے سب سے بڑے تجارتی مرکز کراچی کی تاجر تنظیموں کے عہدیدار بھی ایم ایف این کے حق میں ہیںلیکن عین وقت پر یہ فیصلہ ایک بار پھر ملتوی کرنا پڑا، ہماری اطلاعات کے مطابق اب یہ تنازع منتخب سیاسی حکومت اور فوج کے درمیان نہیں بلکہ تاجر صنعتکار برادری اور کسان برادری کے درمیان ہے ۔ کسان اتحاد کے صدر خالد کھوکھر سے میں نے فون پر حقیقت جاننے کے لئے بات کی انہوں نے کھل کر بتایا کہ ہمیں اس تجارت پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا ہماری کھیتی باڑی انڈیا کے برابر ہے یا نہیں ۔ وہ ہندوستان حکومت کی طرف سے کسانوں کو ملنے والی آسانیاں گنوا رہے تھے ، جن کی وجہ سے وہاں پیداوار بھی فی ایکڑ زیادہ ہے کھاد سستی ہے دوائیں بھی کم قیمت پر ملتی ہیں ۔

بجلی ہماری طرح مہنگی بھی نہیں اور باربار جاتی بھی نہیں ہے ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہمارے ہاں کسان کو ضرورت کا پانی بھی نہیں ملتاکیونکہ انڈیا نے اپنے ہاں بہت ڈیم بناکر اپنے لئے پانی محفوظ کرلیا ہے ۔ وہاں کسان کو پانی سستا بھی ملتا ہے اور اس کی مانگ کے مطابق بھی ۔ان کی گفتگو میں معلومات بھی تھیں اور غصہ بھی وہ اس لئے کہ وزیراعظم انہیں وقت نہیں د ے رہے ، ان کے مطالبات سنے نہیں جارہے کیونکہ ایم این ایف کے فیصلے سے بزنس برادری کو تو ممکن ہے فائدہ ہو لیکن کسان کو نقصان ہوگا ۔ ان کا کہنا تھا کہ انڈیا کے کسانوں کو بھی حقائق کا علم ہونا چاہئے۔
ہماری نسل جو آزادی کے بعد سے یہ کوشش کرتی آرہی ہے کہ دونوں دیشوں کے درمیان اچھے تعلقات ہوں تاکہ یہاں جنتا آسان اور آرام کی زندگی گزار سکے ۔ انہیں ایسے تنازعات پر افسوس ہوتا ہے اور اپنے رہنمائوں کی بے تدبیری پر تشویش بھی ہوتی ہے ۔ ساٹھ سال سے زیادہ ہو گئے ہم اپنی ضرورت کی چیزیں دور دیشوں سے بھاری کرایہ خرچ کرکے منگواتے ہیں جس سے مہنگائی بڑھتی ہے اپنے کسانوں مزدوروں کو سہولتیں دے کر دونوں ملکوں کے نیتا یہاں خوشحالی لا سکتے ہیں ،سوموار کو دیکھتے ہیں کتنی دمادم ہوتی ہے۔

طالبان سے بات چیت صرف پاکستان کیلئے ہی نہیں اس پورے علاقے کے لئے اہم ہے ۔ ان کی کامیابی کا یقین کسی کو نہیں ہے مگر ان پر نظر رکھنی چا ہئے ۔ پاکستانیوں کوتو اس لئے تشویش ہے کہ جانیں خطرے میں ہیں ہر شہر میں طالبان پہنچ چکے ہیں طالبانائزیشن زوروں پر ہے ، امن نہیں ہے اسلئے سرمایہ نہیں لگ رہا ہے صنعتیں بند ہورہی ہیں افغانستان کوبھی خوف ہے کہ دونوںطرف کے طالبان مل کر ان کی ترقی کو روک سکتے ہیں اس کے اثرات ہندوستان تک بھی پہنچ سکتے ہیں ۔ اس ہفتے حکومت پاکستان کے نمائندے طالبان سے ملنے ان کے زیر اثر علاقے میں گئے ۔ہم پاکستانی اس ہفتے کسی حد تک سکون میں رہے کہ بم دھماکوں کا ناغہ رہا ۔ کچھ کہا نہیں جاسکتا کہ جب یہ سطورآپ کی نظروں کے سامنے آئیں اس وقت تک کچھ ہو نہ جائے۔پہلی ملاقات میں قیدیوں کی رہائی کی بات ہوئی ہے ۔ طالبان کے پاس بڑے قیمتی قیدی ہیں جن میں ایک سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کا بیٹا اور ایک سابق گورنر شہید سلمان تاثیر کا بیٹا شامل ہیں ۔ اس کے علاوہ کچھ ماہرین تعلیم ہیں ۔ حکومت کے پاس جو طالبان قیدی ہیں وہ سب خطرناک وارداتوں کے الزامات میں گرفتار ہوئے تھے عام لوگ ان کی رہائی کے حق میں نہیں ہیں ۔ عام حلقوں میں یہ بحث بھی ہورہی ہے کہ سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات ، بحرین کو طالبان سے ہمدردی ہے کیونکہ وہ سنی ہیں تینوں ملکوں میں اہل تشیع احتجاجی مظاہروں میں شامل رہے ہیں۔ ایران کی طرف سے بھی کچھ تشویش اپنے مسلک والوں کے لئے ظاہر کی جارہی ہے ۔ ایران کے صدر نے وزیراعظم نواز شریف سے فون پر بات بھی کی ہے ۔

پاکستان کیلئے ایسے بحران نئی بات نہیں ہیں، ہم نے تمام عمر گزاری ہے اس طرح ۔مشکلیں ہم پر اتنی پڑی ہیں کہ آساں ہوگئی ہیں، مجھے حیرانی اس امر پر ہو رہی ہے کہ اس بار انڈیا کے الیکشن پاکستان کے سیاسی حلقوں میں یا میڈیا میں پہلے کی طرح گرم موضوع نہیں ہیں ، صرف شیخ رشید ٹاک شوز میں قوم کو خبردار کرتے ہیں کہ ڈرو مودی آنے والا ہے۔لیکن بڑی قومی سیاسی جماعتوں کی طرف سے کوئی تذکرہ نہیں ہورہا ہے نہ چینلوں پر کوئی شور ہے ،حالانکہ یہ الیکشن ہندوستان میں سیاسی تبدیلی لا سکتے ہیں اس کے نتیجے میں پاکستان کے بارے مین ہندوستاں کی پالیسیوں میں بھی کچھ بدلائو آسکتا ہے ،مگر ہم اپنی الجھنوں میں اتنے محو ہیں کہ سر اٹھاکر ادھر ادھر دیکھنے کی فرصت ہے نہ ہمت ۔
mahmoodshaam@gmail.com
صرف ایس ایم ایس کے لیے:92-3317806800