ظفر آغا
اب تک اس ملک میں مسلمان ہونے کی سزا یہ تھی کہ مسلمانوں کو آسانی سے ہندو مڈل کلاس کالونیوں میں کرایہ پر یا خریدنے کے لئے مکانات دستیاب نہیں تھے۔ دہلی میں 1980ء کی دہائی میں راقم الحروف کے ساتھ بھی اس قسم کا واقعہ پیش آچکا ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ تعلیم کے بعد جب ہاسٹل چھوڑنا پڑا اور روزگار کا سلسلہ شروع ہوا تو کرایہ پر مکان حاصل کرنے کی جستجو ہوئی۔ اتوار کی صبح مکان کی تلاش میں گھر سے نکل جاتے۔ مکان مالک سے ملتے اور جب سب کچھ طے ہو جاتا اور مالک مکان سے یہ اقرار کروالیتے کہ کل ہم اس کے مکان میں منتقل ہو جائیں گے تو چلتے چلتے وہ ایک سوال کرتا کہ ’’آپ انڈا گوشت وغیرہ کھاتے ہیں؟‘‘۔ جیسے ہی راقم کہتا کہ ’’جی ہاں! ہم تو گوشت خور ہیں‘‘ تو مالک مکان کا منہ لٹک جاتا اور وہ کہتا کہ ’’کل صبح آنے سے پہلے فون کرلیجئے گا‘‘۔ صبح جب فون کرتے تو جواب یہ ملتا کہ ’’ہم گوشت کھانے والوں کو کرایہ پر مکان نہیں دیتے‘‘۔
بابری مسجد کی شہادت تک کم از کم کوئی ہندو صاف طورپر یہ نہیں کہتا تھا کہ ’’ہم مسلمانوں کو کرایہ دار نہیں رکھتے‘‘۔ یعنی کچھ شرم برقرار تھی، اس لئے یہ کہہ کر ٹالا جاتا تھا کہ ہم گوشت خوروں کو مکان نہیں دیتے، لیکن بابری مسجد کی شہادت کے بعد یہ شرم بھی ختم ہو گئی اور ممبئی و احمد آباد جیسے شہروں کی مشہور کالونیوں میں نوٹس لگادی گئی کہ مسلمانوں کے لئے مکان نہیں ہے۔ یہاں تک کہ بعض مقامات پر پراپرٹی ایجنٹوں سے بھی یہ کہلوادیا گیا کہ ’’مسلمان ان علاقوں میں مکان تلاش نہ کریں‘‘۔
ابھی حال میں گجرات کے بھاؤ نگر شہر میں ایک خالص ہندو بستی میں ایک مسلمان نے جب مکان خریدا تو ہندو تنظیموں نے مکان بیچنے والے کے خلاف دھرنا منظم کرکے یہ دباؤ ڈالا کہ وہ مسلمان خریدار کو پیسے واپس کردے۔ اس طرح بھاؤ نگر کے اس علاقہ میں ایک مسلمان کو رہائش سے روک دیا گیا۔ یعنی بابری مسجد کی شہادت کے بعد یہ ایک سماجی قانون بن گیا کہ مسلمان الگ علاقوں میں رہیں۔ یعنی ساؤتھ افریقہ کی طرح مسلمانوں کے ساتھ سماجی اور مذہبی سطح پر صرف امتیاز ہی نہیں، بلکہ ایک فرقہ وارانہ نظام بنادیا گیا، جس کا مقصد مسلمانوں کو دوسرے درجہ کا شہری بنانا تھا۔ پھر بھی ہم جیسے مڈل کلاس مسلمان آج بھی ہندو بستیوں میں رہ رہے ہیں۔ دہلی کے حالات آج بھی اتنے خراب نہیں ہیں، گوکہ یہاں بھی اوکھلا جیسی خالص مسلم بستیاں موجود ہیں، جن کو پاکستان کہا جاتا ہے۔ابھی تک یہ فرقہ پرستی مکانوں اور بستیوں تک محدود تھی، یعنی مسلمان الگ رہیں اور ہندو الگ رہیں، لیکن اب اس سماجی قانون میں ایک اور ترمیم ہو رہی ہے، وہ یہ کہ ہندو مالک اپنی کمپنیوں میں مسلمانوں کو نوکری یعنی روزگار نہیں دیں گے۔ مشہور انگریزی اخبار ٹائمز آف انڈیا شمارہ 22 مئی کے مطابق 22 سالہ ذیشان خان نے ممبئی کی ہیرے کی ایک ایکسپورٹ کمپنی میں روزگار کے لئے درخواست داخل کی۔ ذیشان کو کمپنی کے ذریعہ جو جواب ملا، وہ نہ صرف چونکا دینے والا تھا، بلکہ وہ ایک سیکولر اور ترقی یافتہ ملک کے لئے شرمناک بھی تھا۔ اخبار کے مطابق ذیشان خان کو کمپنی کی جانب سے جو میل ملا، اس میں لکھا تھا کہ ’’ہم افسوس کے ساتھ آپ کو مطلع کرتے ہیں کہ ہم صرف غیر مسلموں کو روزگار دیتے ہیں‘‘ یعنی اس ملک میں مسلمانوں کا عرصۂ حیات اب نوکریوں کے ذریعہ بھی تنگ کیا جا رہا ہے۔
مسلمانوں کی حالت پہلے بھی کونسی بہتر تھی؟ حکومتوں سے لے کر سیول سوسائٹی اور میڈیا تک سب ہی اس بات کا اعتراف کرتے رہے کہ ہندوؤں کے مقابلے میں مسلمانوں کے لئے نوکریوں کے ذرائع بہت کم ہیں، لیکن اب تو کمپنیوں نے کھل کر یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ ہمارے یہاں مسلمانوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔
ظاہر ہے کہ یہ انتہائی شرمناک خبر ہے، لیکن اس خبر کا ایک مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ ذیشان خان نامی نوجوان کمپنی سے مایوس کن جواب پاکر خاموش نہیں بیٹھا، بلکہ اس نے کمپنی کے خلاف ممبئی میں مقدمہ دائر کردیا، جس کے بعد کمپنی نے گھبراکر سارا معاملہ اپنے ایک منیجر کے سر تھوپ دیا اور جواب میں کہا کہ ’’مسلمانوں کو نوکری نہ دینا کمپنی کی پالیسی نہیں ہے‘‘۔ کمپنی نے اپنے وکالت نامہ میں یہ بیان دیا کہ اس کے یہاں پچاس سے زیادہ مسلمان کام کر رہے ہیں۔ یعنی ذیشان خان کی ایک قانونی نوٹس نے کمپنی کے ہوش اڑا دیئے۔
بات محض اتنی نہیں کہ کرشنا ایکسپورٹ کمپنی ڈر گئی، بات یہ ہے کہ ذیشان خان نہیں ڈرا، جو عموما مسلمانوں کی فطرت بنتی جا رہی ہے، جب کہ یہ ملک جتنا ہندوؤں کا ہے، اتنا ہی مسلمانوں کا ہے۔ ملک کے آئین میں تمام حقوق مسلمانوں کو بھی دیئے گئے ہیں۔ 1857ء سے اب تک اس ملک کے مسلمان ملک کی ترقی کے معاملے میں کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ جنگ آزادی میں جان کی قربانی دی اور آزادی کے بعد بھی سب کے ساتھ شانہ بہ شانہ چلتے رہے۔ فسادات ہوئے، مسجد شہید کی گئی، نسل کشی ہوئی، اس کے باوجود مسلمانوں نے ہمت نہ ہاری اور نہ ہی ملک کی خدمت سے دست بردار ہوئے، تو پھر ڈر کس بات کا؟۔ اس ملک میں مسلمانوں کو اتنا ہی اختیار حاصل ہے، جتنا کسی دوسرے کو حاصل ہے۔ ذیشان خان کی سمجھ میں یہ بات آگئی اور اس نے کرشنا کمپنی کے خلاف مقدمہ قائم کرکے تمام کمپنیوں کو یہ سبق دیا کہ اب وہ مذہبی بنیاد پر مسلمانوں کو نوکری دینے سے انکار نہیں کرسکتے۔
ذیشان جیسے نوجوان فرقہ پرستی کے خلاف جنگ میں اب تنہا نہیں رہے، ذیشان کی طرح عبد القیوم منصوری نے بھی اسی طرح کا کام کیا ہے۔ عبد القیوم منصوری وہ شخص ہے، جو کو احمد آباد پولیس نے اکشرا دھام مندر پر دہشت گردانہ حملے کے الزام میں 2003ء میں اس کے گھر سے گرفتار کیا تھا۔ گیارہ برس بعد منصوری کو سپریم کورٹ نے بے گناہ قرار دے کر رہا کردیا۔ لیکن ان گیارہ برسوں میں منصوری پر گجرات پولیس نے کیا قیامت ڈھائی، ان تمام مظالم کو منصوری نے ایک اردو کتاب ’’گیارہ برس سلاخوں کے پیچھے‘‘ لکھ کر سارے حالات لوگوں کے سامنے پیش کردیئے۔ گزشتہ ہفتہ اس کتاب کی اشاعت انگریزی زبان میں بھی عمل میں آئی ہے۔ اس کتاب کی اشاعت کے بعد دنیا کو معلوم ہو گیا کہ دہشت گردی کے جھوٹے الزام میں منصوری پر کیا بیتی اور میں سمجھتا ہوں کہ جھوٹے الزام لگاکر کسی کو ٹارچر کرنا پولیس کے لئے اب آسان نہیں رہے گا۔ مذکورہ واقعات اور حالات یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ نئی نسل کا مسلمان خاموشی سے مظالم اور فرقہ پرستی برداشت نہیں کرے گا، کیونکہ وہ آئین اور اپنے جمہوری حق سے واقف ہے اور اپنی جنگ جمہوری انداز میں جاری رکھے گا۔