محمد ریاض احمد
سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے پانچ سال قبل یہ کہہ کر سارے ملک میں ہلچل مچادی تھی کہ 90 فیصد ہندوستانی بے وقوف ہیں جنھیں چند شرپسند اور مفاد پرست عناصر مذہب کے نام پر بہ آسانی گمراہ کرسکتے ہیں۔ فرقہ وارانہ فسادات کے لئے اُکسا اور بھڑکا سکتے ہیں۔ مختلف گوشوں سے جسٹس کاٹجو پر جو اس وقت پریس کونسل آف انڈیا کے صدرنشین تھے، تنقیدوں کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوگیا تھا لیکن تنقید کرنے والوں نے یہ نہیں دیکھا کہ جسٹس مارکنڈے کاٹجو کس تناظر میں ایک ارب سے زیادہ ہندوستانیوں کو بے وقوف قرار دے رہے ہیں۔ جہاں تک ہم ہندوستانیوں کے بے وقوف ہونے کا سوال ہے ہم وقوف نہیں بلکہ اس قدر سادہ لوح ہیں کہ کوئی بھی ہر طریقہ سے ہمارا استحصال کرسکتا ہے۔ مثال کے طور پر انگریزوں نے تاجرین کے بھیس میں داخل ہوکر ہمارے ملک سونے کی چڑیا کو دو سو برسوں تک خوب لوٹا۔ ہمارے قدرتی وسائل سے اپنی معیشت مستحکم کرلی اور ہم میں مذہب کی بنیاد پر پھوٹ ڈالے بڑی آسانی سے روانہ ہوگئے۔ جب انگریز ہندوستان سے روانہ ہورہے تھے ملک کی تقسیم کے نام پر لاکھوں انسانوں کو موت کی نیند سلایا جارہا تھا۔ انگریز تو چلے گئے، ہمیں آزادی مل گئی، آزادی کے کچھ برس دیانت دار، محب وطن سیاستدانوں کے ہاتھوں میں اقتدار رہا پھر اسمبلیوں اور پارلیمنٹ میں ایسے عناصر کا داخلہ شروع ہوگیا جن کے دلوں میں ملک و قوم کی خدمت کا کوئی جذبہ نہیں تھا بلکہ ان کا ایک ہی مشن تھا کہ انگریزوں کی طرح اس ملک کو لوٹا جائے۔ اپنے بینک بیالنس میں اضافہ کرتے ہوئے اپنی آنے والی نسلوں کے لئے دولت کے انبار لگائے جائیں۔ اسی قبیل کے سیاستدانوں کے باعث بے شمار اسکامس اور اسکینڈلس ہوئے ہیں۔ ملک کے نظام میں رشوت خوری، بدعنوانی، اقربا پروری، قوم پرستی کے نام پر فرقہ پرستی جیسی بُرائیوں کے جراثیم اس طرح سرائیت کرگئے ہیں کہ لاکھ کوششوں کے باوجود ہم ہندوستانی ان بیماریوں سے نجات نہیں پارہے ہیں۔ جیسا کہ راقم الحروف نے سطور بالا میں لکھا ہے کہ یہ سب کچھ ہم ہندوستانیوں کی سادہ لوحی کے باعث ہوا ہے ورنہ آج اقتدار کے ایوانوں میں وہ عناصر نظر نہیں آتے جنھیں قتل و غارت گیری، لوٹ مار، ڈکیتی ، رقم کی جبری وصولی، فرقہ وارانہ فسادات بھڑکانے اور خواتین کے خلاف مظالم جیسے سنگین مقدمات کا سامنا ہے۔ مثال کے طور پر ہمارے ملک میں 776 ارکان پارلیمنٹ (لوک سبھا و راجیہ سبھا کے ارکان) اور 4120 ارکان اسمبلی بے شمار ارکان قانون ساز کونسل اور ارکان بلدیہ ہیں ان کی قابل لحاظ تعداد کے خلاف سنگین الزامات کے تحت مقدمات زیرالتواء ہیں۔ اسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمس (ADR) اور NEW (نیشنل الیکشن واچ) کے مطابق ملک میں 609 میں سے 201 وزراء فوجداری مقدمات میں ملوث ہیں۔ ADR کے مطابق 2014 ء کے عام انتخابات میں جو ارکان پارلیمنٹ منتخب ہوئے ان میں 34 فیصد (186 ) کے خلاف فوجداری مقدمات ہیں۔ 186 میں سے 112 کو سنگین اور 9 کو قتل کے مقدمات کا سامنا ہے۔ جبکہ 17 کے خلاف اقدام قتل اور 2 کے خلاف خواتین پر مظالم کے مقدمات زیردوران ہیں۔ جن ارکان پارلیمنٹ کے خلاف فوجداری مقدمات ہیں ان میں حکمراں بی جے پی کے 63 ارکان شامل ہیں۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ 442 ارکان پارلیمان کروڑپتی ہیں۔ ان اعداد و شمار سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے ملک میں ’’سیاست‘‘ کس قدر پراگندہ ہوگئی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ان سیاستدانوں کے سامنے ملک کے عوام، عہدہ دار اور سارا نظام یہاں تک کہ چند شریف النفس و دیانتدار سیاستداں بے بس و مجبور ہیں۔ نتیجہ میں ہمارے ملک میں جمہوریت ایک مذاق بن گئی ہے۔
قانون سے کھلواڑ سب سے آسان کام ہوگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاستداں کا ایک مخصوص ٹولہ آپے سے باہر ہوگیا ہے۔ دولت و ثروت اور اقتدار کے نشہ میں وہ اس قدر دھت ہوگیا ہے کہ غرور و تکبر کو ان لوگوں نے اپنے وجود میں جذب کرلیا ہے۔ وہ کسی سرکاری عہدیدار کی عزت کرتے ہیں نہ ہی کسی طیارے کے ارکان عملہ بالخصوص ایرہوسٹس کے ساتھ تمیز سے پیش آتے ہیں۔ اسپتالوں، اخبارات کے دفاتر اور ٹی وی چیانلوں میں توڑ پھوڑ مچانا وہ اپنا پیدائشی حق تصور کرتے ہیں۔ ووٹ سے لے کر نوٹ ہر چیز کو طاقت کے بل بوتے پر حاصل کرنے میں ان کا یقین ہوتا ہے۔ حال ہی میں شیوسینا کے ایک رکن پارلیمنٹ رویندر گائیکواڈ نے صرف اس بناء پر برہم ہوکر ایر انڈیا کے ایک 62 سالہ ملازم کی چپل سے جم کر پٹائی کردی کہ انھیں بزنس کلاس کی بجائے اکنامک کلاس میں سفر کرنا پڑا۔ خود رویندر نے اعتراف کیاکہ اُس نے ایر انڈیا کے ضعیف عہدہ دار کو اپنی چپل سے 25 مرتبہ مارا ہے۔ جبکہ ملازم کا کہنا ہے کہ شیوسینا رکن پارلیمنٹ نے نہ صرف اس کی چپل سے پٹائی کی بلکہ عینک توڑ ڈالی، کپڑے پھاڑ ڈالے اور دوسرے ارکان عملہ کے سامنے ان کے ساتھ گالی گلوج کرتے ہوئے ان کی بے عزتی کی۔ رویندر گائیکواڈ جیسے سیاستدانوں کو دیکھ کر ہمیں وہ واقعہ یاد آرہا ہے جب ایک تعلیم یافتہ شخص کو جس کے دل میں عوام کی خدمت کا جذبہ بھرا ہوا تھا ایک سیاسی جماعت نے یہ کہہ کر ٹکٹ دینے سے انکار کردیا کہ آپ کی سب سے بڑی خامی آپ کی شرافت ہے۔ ایک اور بڑی خرابی یہ ہے کہ آپ عوامی خدمت کے جذبہ سے سرشار ہیں۔ اس کے علاوہ آپ دولت مند نہیں۔ آپ کے خلاف کوئی فوجداری مقدمہ زیردوران نہیں۔ کوئی الزام نہیں۔ آپ میں لوگوں کو مذہب، ذات پات، رنگ و نسل اور علاقہ کے نام پر بھڑکانے، اشتعال دلانے اور ہر موقع پر ہر لحاظ سے ان کا استحصال کرنے کی صلاحیت اور کسی سرکاری عہدیدار، پولیس ملازم کو تھپڑ مارنے کی ہمت نہیں۔ یہ ایسی خامیاں ہیں جن کی بنیاد پر آپ کو الیکشن لڑنے کے لئے پارٹی ٹکٹ نہیں دیا جاسکتا۔ ایک شریف النفس اور جذبہ خدمت خلق سے سرشار شخص کو ٹکٹ نہ دینے کا مطلب یہی ہے کہ ہمارے ملک میں وہ دن گئے جب دولت و طاقت نہیں بلکہ عوامی خدمت کی بنیاد پر عوامی نمائندوں کا انتخاب عمل میں آیا کرتا تھا۔
سیاست میں غنڈہ گردی وباء کی شکل اختیار کرگئی ہے کیوں کہ قانون ساز اداروں میں مجرمانہ پس منظر رکھنے والے عناصر کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ سیاسی و اخلاقی اقدار تیزی سے روبہ زوال ہیں۔ سیاستدانوں کی غنڈہ گردی عام ہوگئی ہے۔ اس معاملہ میں صرف رویندر گائیکواڈ ہی اکیلے نہیں بلکہ شیوسینا سیاسی غنڈہ گردی کے لئے بدنام ہے۔ اس کی تاریخ زور زبردستی پر مبنی ہے۔ حال ہی میں مطالعہ کے دوران راج دیب سردیسائی کا ایک مضمون ہماری نظر سے گزرا جس میں وہ لکھتے ہیں کہ 1966 ء سے لے کر آج تک شیوسینا کی تاریخ مخالفین پر حملوں بلکہ دھمکیوں فسادات بھڑکانے وغیرہ سے بھری پڑی ہے۔ شیوسینا پر 1970 ء میں کمیونسٹ لیڈر کرشن کانت دیسائی کے قتل کا بھی الزام عائد کیا گیا۔ شیوسینا کے بانی بال ٹھاکرے سے سب اچھی طرح واقف ہے اس نے بے شمار اشتعال انگیز تقاریر کی صرف ایک مرتبہ 2007 ء میں اُسے گرفتار کرکے فوری ضمانت دے دی گئی۔ اس وقت بال ٹھاکرے نے راج دیب سردیسائی سے کہا تھا کہ اگر مجھے چھوا گیا تو سارا ملک آگ کی لپیٹ میں ہوگا لیکن جب اسے گرفتار کیا گیا تو کچھ نہیں ہوا۔ کہیں بھی آگ نہیں بھڑکی۔ شیوسینا نے ممبئی میں شمالی ہند والوں پر حملے کئے۔ 1991 ء میں ہند ۔ پاک کرکٹ سیریز کے خلاف وانکھڈے اسٹیڈیم کی پچ کو کھود کر نقصان پہنچایا۔ 2009 ء میں آئی بی این لوک مت کے دفتر میں توڑ پھوڑ مچائی۔ ممبئی فسادات میں اس کا رول کسی سے ڈھکا چھپا نہیں لیکن کانگریس کی بزدل حکومت نے سری کرشنا کمیشن رپورٹ کو کوڑے دان کی نذر کرتے ہوئے قاتلوں کو بچالیا۔ حد تو یہ ہے کہ فلمسٹارس، کرکٹ کھلاڑی، صنعت کار سب کے سب شیوسینا سے ڈرتے ہیں۔ شیوسینا کے کارکنوں نے ہی سدھیندر کلکرنی کے چہرے پر سیاہی پوت دی تھی۔ نکھیل واگھلے کی بھی پٹائی ان لوگوں نے ہی کی۔ مہاراشٹرا سدن میں چپاتی کے مسئلہ پر ایک روزہ دار مسلم ملازم کے منہ میں زبردست چپاتی ٹھونسنے کا بھی گناہ شیوسینا کے ارکان پارلیمنٹ نے ہی کیا تھا۔ فروری 2016 ء میں ایک شیوسینک ششی کانت کالگوڑے نے تھانہ میں ایک خاتون کانسٹبل کو صرف اس بناء پر مکے مار کر اُس کی ناک پھوڑ دی کیوں کہ اس نے ڈرائیونگ کے دوران موبائیل فون پر بات کرنے پر اعتراض کیا تھا۔ یہ تو رہی شیوسینا کی غنڈہ گردی برسر اقتدار بی جے پی کے سربراہ امیت شاہ، یوپی کے نئے چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ اور مودی جی کے کم از کم 24 مرکزی وزراء پر سنگین الزامات ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیاستدانوں کے بھیس میں موجود یہ غنڈے آخر کب تک عوام کا استحصال کرتے رہیں گے۔ انھیں ڈراتے، دھمکاتے اور زدوکوب کرتے رہیں گے۔ جہاں تک شیوسینا ایم پی رویندر گائیکواڈ کا سوال ہے اُس نے ایر انڈیا کے ملازم کی چپل سے پٹائی کرتے ہوئے ایک طرح سے اچھا ہی کیا کیوں کہ جس میں عزت نفس نہ ہو اس کی یہی حالت ہونی چاہئے۔ اس لئے کہ ایر انڈیا کا ملازم چپل سے مار کھاتا رہا لیکن اس بزدل میں اتنی ہمت نہیں ہوئی کہ اپنی بے عزتی کو روکنے کی خاطر حملہ آور سیاستداں کی اپنے جوتے سے پٹائی کردیتا۔ افسوس تو ایر انڈیا کے اُن ارکان عملہ پر بھی ہے جو بڑی بزدلی کے ساتھ اپنے ساتھی کو مار کھاتا دیکھتے رہے۔ یہ سب کچھ عوام میں عزت نفس کا احساس نہ ہونے کے باعث ہے۔ اگر ہم ہندوستانیوں میں عزت نفس کا احساس پیدا ہوگا تو کوئی بدمعاش ہم پر ہاتھ اُٹھانے کی ہمت نہیں کرے گا۔ لیکن اس کے لئے ہمیں زندہ نعش نہیں بلکہ ایک زندہ انسان بننا ہوگا ورنہ ہم طیاروں، ٹرینوں، بسوں، بازاروں اور سڑکوں پر بدقماش سیاستدانوں کے ہاتھوں یوں ہی پٹتے رہیں گے۔ ہمارے ایک مزاح نگار دوست نے ہندوستانی عوام کی بے حسی و بے بسی (جسے شرافت کا نام دے کر اپنا دامن بچاتے ہیں) پر بڑا اچھا تبصرہ کیا۔ ان کا کہنا تھا اچھا ہوا ہندوستان میں انگریزوں کے دور میں آج کے ہندوستانی نہیں تھے ورنہ یہ ملک کبھی آزاد نہیں ہوتا۔ عزت نفس کیا ہوتی ہے جرأت کے سامنے غرور و تکبر کی بلند و بالا عمارت کس طرح ڈھیر کی جاسکتیہے اور بدعنوان عہدیداروں اور سیاستدانوں کو کس طرح سبق سکھایا جاتا ہے یہ ہمیں تیونس کے سبزی فروش محمد البو عزیز سے سیکھنا ہوگا جس نے ایک سرکاری عہدیدار کا تھپڑ اور پولیس اہلکاروں کی گالی گلوج کا اس انداز میں جواب دیا کہ خود کو آگ لگالی۔ اگرچہ محمد البو عزیز نے اپنے جسم کو آگ لگالی تھی اس آگ نے نہ صرف تیونس ملک، مصر، لیبیا ، یمن اور دوسرے ملکوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا اور بہار عرب کی حیثیت سے ایک مثال قائم کرگئی۔ محمد البو عزیز کے اس انتہائی اقدام نے تیونس کی صدارت پر 23 برسوں سے چمٹے ہوئے زین العابدین بن علی، 30 برسوں سے اقتدار کے مزے لوٹ رہے مصری صدر حسنی مبارک، 30 سالوں سے یمن کے عہدہ صدارت پر فائز علی عبداللہ صالح اور 35 برسوں سے آمریت اختیار کئے ہوئے لیبیا کے کرنل قذافی کو اقتدار سے بیدخل کردیا۔
mriyaz2002@yahoo.com