محمد عثمان شہید ایڈوکیٹ
کہ خون دل میں ڈوبولی ہیں انگلیاں میں نے
اسی خون دل کو سیاہی بناکر جب یہ سطور زینت قرطاس بنا رہا ہوں تو یہ سوچ سوچ کر مسلمانوں کی حالت زار ، ذلت و خواری پر۔
حیران ہوں دل کو رووں کہ پیٹوں جگر کو میں
خالق ایزدی نے حضرت آدمؑ کو مسجود ملائک بنانے کے بعد جب اپنا خلیفہ بناکر لوح و قلم حوالے کرنے کا فیصلہ کیا تو فرمایا ۔
جا… زمین کا فرش تیرے لئے …
نیلگوں آسمان کا خیمہ تیرے لئے … سورج کی مشعل تیرے لئے
چاند کی قندیل تیرے لئے … تاروں کی محفل تیرے لئے … سمندر کی لہریں تیرے لئے … دریا کی موجیں تیرے لئے … شجر و حجر تیرے لئے … خوشبو بداماں گل تیرے لئے … نغمہ سنج بلبلیں تیرے لئے … عطر بیز گلستاں تیرے لئے … سبزے کا فرش تیرے لئے … موتی مونگے تیرے لئے …
اور یہ یاد رکھ تو میرے لئے… ہائے افسوس ، صد افسوس یہ خلیفتہ اللہ فی الارض خلافتِ الٰہی کا لبادہ پھینک شیطان کا خلیفہ بن چکا ہے ۔ اللہ زندہ ہے ، ’’مسلمان‘‘ مرچکا ہے ، اسلام کا چراغ روشن ہے ، چراغ کی چراغِ مصطفویؐ سے شرار بو لہبی آج بھی ستیزہ کار ہے اور محافظ چراغِ مصطفویؐ دم توڑ چکا ہے !
سورج کی مشعل روشن ہے ، ہم مرچکے ہیں۔ چاند کی قندیل فروزاں ہے ، ہم مرچکے ہیں۔ دامنِ فلک پر تاروں کا کارواں محورِ رقص ہے۔ ہم مرچکے ہیں۔ چاند کے دوش پر چاندنی کا دوشالہ ہنوز موجود ہے ، ہم مرچکے ہیں۔ دریا کی موجیں سمندر کی لہریں اچھل اچھل کر دعوتِ عمل دے رہی ہیں ، ہم مرچکے ہیں۔ گردشِ … و نہار ہما رے قوائے عمل کو متحرک کی خواہاں ہیں ہم مردہ ہیں۔ ۔
زمانہ ہماری دیدہ دلیری ، بہادری، عظمت رفتہ کی داستان سننے کا متمنی تھا ، ہم نے نیند کا لحاف اوڑھ لیا تو امیدی کی خزاں آلودہ چمن امید کی بہار کا منتظر ہے ۔ ہم مرچکے ہیں۔ زمانے کے ہونٹ ’’انقلاب زندہ باد‘‘ کا نعرہ لگانے تھرتھرانے لگیں ہیں، ہمارے لبوں پر موت کی مہر لگ گئی ہے ۔ مستقبل کا مورخ وقت کے سوئے ہوئے سمندر میں ہمارے حوصلوں کے طوفان کا منتظر ہے ۔ طوفان برپا کرنے والا مرچکا ہے ؟ راہ عمل کی مانگ گرد و غبار کے سیندور سے خالی ہے ۔ عمل کی راہ میں گرد و غبار پیدا کرنے والا مرچکا ہے !۔ سمندر کی لہریں ساحل پر سر پٹک پٹک کر گربا و زاریاں کر رہی ہیں۔ اُٹھ غافل
اُٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
قرآن للکار رہا ہے ۔ اب حاصل قرآن میرے سینے میں علوم کے خزانے پوشیدہ ہیں۔ انہیں تلاش کر ۔ پڑھ ، سوچ ، سمجھ ، عمل کر مسند خلافت ۔ ارض و سما پھر ایک بار تیرے قدموں تلے بچھا دیا جائے گا لیکن عمل کرنے والا بے عمل ہوکر رہ گیا ہے ۔
کشتیاں جلا کر شاہ راڈرک کی ایک لاکھ فوج کا مقابلہ کرنے والے سات ہزار مسلمانوں کے لشکر نے ہمت ولولہ جوش ایمانی کی جو تاریخ رقم کی تھی ، وہ آج بھی تابندہ و درخشاں ہے ۔ تاہم رقم کرنے والے مسلمان کہاں ہیں ؟
چالیس ہزار مسلمانوں کی فوج نے دو لاکھ رومیوں کی خوفناک اور طاقت ور ترین فوج کو دھول چاٹنے پرمجبور کردیا تھا ۔ ایسا مسلمان تاریخ کے اوراق میں دفن ہوچکا ہے ۔ اب ڈھونڈنے سے نہیں ملتا۔ تاریخ ماتم کناں ہے کہ قیصر و کسریٰ کے تختے الٹنے والا مسلمان کیسے بے ہمت ہوکر زندہ ہے !؟ اس کی حرارت ایمانی کی داستان آج بھی زندہ ہے ۔ تاریخ عالم کے صفحات پر ۔ لیکن ایسے تاریخ ساز کارنامے انجام دینے والا مسلمان کیوں آج طاغوتی طاقتوں کے آگے سرنگوں ہے ؟ کیوں اس کے سینے میں حرارت ایمانی سرد پڑچکی ہے ؟
زندہ ہے بے شک زندہ ہے ، وہ مسلمان زندہ ہے جو اپنی گناہ آلود زندگی پر مسلمان ہونے کا لیبل ، چسپاں کئے ہوئے ہے ۔ وہ مسلمان ہونے کا دعویدار ہے لیکن ایسا مسلمان گناہوں کا پتلہ ہے ۔ جہاں گیری و جہاں داری جس کا مقصد حیات ہے ، وہ بت اقتدار کا پرستار ہے ۔ دشمن خدا کا پاپوش بردار ہے ۔ بندۂ زر ہے ۔ اور ایمان دار ، سخی ، پر خلوص بہادر مسلمان عنقا ہوتا جارہا ہے ۔
صرف اور صرف خدائے وحدہ و لاشریک لہ کی عبادت کرنے والا اللہ کے سوا کسی غیر کے آگے سر نہ جھکانے کا اعلان و عمل کرنے والا ۔ با ہمت ، با ضمیر ، نڈر ، بے خوف ، ہمت کی زنبور سے حالات کی کلائی مروڑ دینے والا ، وہ اللہ کا شیر جسے روبا ہی نہیں آتی ، اب چراغِ رخ زیبا لے کر ڈھونڈنے سے نہیں ملتا۔ ہاں بزدلوں کی طرح زندگی گزارنے والا مسلمان زندہ ہے ۔ شیروں کی طرح ڈکارنے والا عرصہ ہوا شائد بزم سے اُٹھ گیا ۔ ایاک نعبد و ایک نستعین دہرانے اور عمل کرنے والا مسلمان حق کا خیمہ خالی کرتا جارہا ہے۔
تباہی و بربادی جس مسلمان کا مقدر بن چکا ہے ، وہ زندہ ہے ، یقیں محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم جس مسلمان کی جہاد زندگانی میں شمشیریں تھیں وقت کے پردے میں چھپ گیا ہے ، اب شمشیر مخالف کے ہاتھ میں ہے اور نشانے پر ہے بزدل مسلمان کی گردن۔ تقدیریں بدلنے والی نگاہ مرد مومن روشنی سے محروم ہوچکی ہے ۔ عمل کی راہ میں گرد و غبار پیدا کرنے والا خود راستے کی گرد بن چکا ہے ۔ پہاڑوں کی چٹانوں پر نشیمن تعمیر کرنے والا قصر سلطانی کی گنبد پر چکر کاٹ رہا ہے ۔ ثبوت چاہتے ہو ؟
اخبار قومی آواز مورخۂ 28 نومبر 1995 ء کی اشاعت پر شائع شدہ ایک تصویر ملاحظہ فرمایئے جس میں بتایا گیا ہے کہ کل ہند ائمہ مساجد تنظیم کے صدر مولانا الیاسی نے مولانا توصیف رضا خان بریلوی اور بعض دیگر ائمہ کے ہمراہ بابری مسجد کو شہید کرنے والے نرسمہا راؤ سابق وزیراعظم ہند سے ملاقات کی ۔ ان کی خوشحالی کیلئے دعا کی اور ان کی دی ہوئی چادر حضرت خواجہ معین الدینؒ کی مزار مبارک پر پیش کی ۔ اسی طرح روزنامہ راشٹریہ سہارا مورخہ 26 مارچ 2004 ء کا صفحہ 5 ملاحظہ فرمایئے ۔ یہاں ایک تصویر شائع کی گئی ہے جوہماری بے حیائی کی تصویر ہے۔ واجپائی حمایت کمیٹی کے اجلاس میں اسٹیج پر موجود مولانا وحیدالدین خاں ، مولانا جمیل احمد الیاسی اور اعجاز احمد کو بتایا گیا ہے جس میں تقریر کرتے ہوئے مولانا وحید الدین خاں نے گل افشانی فرمائی کہ مسلمانوں کو اب یو ٹرن (U-Turn) لینا ہوگا۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں کسی ایک پارٹی کا بندھو اتنا صحیح نہیں ہے ۔ مزید ارشاد فرمایا کہ مسلمانوں میں جو رجحان ہے کہ بی جے پی کے خلاف ووٹ ڈالیں ہر حال میں بدلنا ہوگا ۔
یہ ہے آج کے مولانا کی نصیحت وصیت و فضیحت آج کے بعض مسلمان عیش و عشرت کے دلدل میں دھنستے جارہے ہیں اور احکامات الٰہی کو فراموش کرتے جارہے ہیں ۔ فرمایا مالکِ کونین نے اسراف کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں اور ہم … !؟ شائد آپ نے عمر بن عبدالعزیزؒ کا نام پڑھا ہوگا یا سنا ہوگا ۔ یہ اموی شہزادہ جب مالک تخت و تاج بنا تو نور نظر بیٹیوں کو موٹے کپڑے بروز عید پہنائے۔ بیٹیوں نے روتے ہوئے کہا ، بابا ، آج کے دن بھی یہ کپڑے ؟ فرمایا ! کیا تمہیں پسند ہے کہ تم اطلس و کمخواب کے کپڑے پہنو اور تمہارا بابا آتش جہنم میں جلتا رہے ۔ دونوں بچیاں اپنے جتنی بابا کے پیروں سے لپٹ گئیں اور کہا نہیں بابا ہمیں یہی کپڑے پسند ہیں۔
سعید بن عامرؒ کو جب حضرت عمرؓ نے ریاست حمس (آج کا شام) کا گورنر بنایا تو کچھ عرصہ بعد ریاست کے غریب مفلس اور مسکین مسلمانوں کی فہرست طلب کی ۔ ریاست کے ایک وفد نے جب ایسے مسلمانوں کی فہرست حضرت عمرؓ کو پیش کی تو وہ چیخ مار کر رو پڑے اور کہا لوگو یہ کس کا نام سرفہرست لکھ دیا ۔ لوگوں نے کہا ہاں امیرالمومنین ہماری ریاست کا گورنر سب سے غریب ہے ، اس کے گھر دو دو تین تک چولہا نہیں جلتا۔
رومیوں کا ایک وفد بغرض ملاقات امیرالمومنین حضرت عمرؓ سے جن کی ہیئت سے دشمنوں کے دل کانپ اٹھتے تھے۔ مدینہ آیا اور مدینہ والوں سے دریافت کیا کہ تمہارے بادشاہ کا محل کہاں ہے ۔ لوگوں نے جواب دیا وہ ہمارا بادشاہ نہیں اللہ کا بندہ ہے جس کے ہاں طبل و علم عالیشان محل کنیزیں غلام نوبت و نقارہ باڈی گارڈ کچھ بھی نہیں ۔ پھر انہوں نے حضرت عمرؓ تک اس وفد کی راہ نمائی اور بتایا وہ ہے ہمارا خلیفہ جو ریت کے گرم بستر پر پتھر کے تکیئے پر سر رکھ کر آرام کر رہا ہے ۔ ارکان وفد لرزہ براندام ہوگئے اور کہا اب ہم سمجھ گئے ہم کیوں تم سے ہر جنگ میں ہار جاتے ہیں۔
دو لاکھ چالیس مربع میل کا حاکم جب بیت المقدس میں پہلی مرتبہ جلوہ افروز ہوا تو سن لو مسلمانوں ، قارئین اخبار سیاست پڑھ لو کہ اس کے جسم پر جو کرتا تھا اس پر 67 پیوند لگے ہوئے تھے ۔
آقائے دوجہاںؐ سرور کائناتؐ وجہہ تخلیق کائناتؐ جن کی انگشت مبارک سے چاند شق ہوگیا چاہتے تو احد کا پہاڑ سونے کا ہوجاتا ۔ جب اس جہانِ آب و گل سے پردہ فرمایا تو جس کمرے سے آفتاب نبوت طلوع ہوتا تھا ۔ بوقت غروب چراغ میں تیل کا محتاج تھا اس لئے تیل کی خریدی کیلئے گھر میں کچھ نہ تھا ۔
لیلیٰ شب کے گیسو دراز ہوتے جارہے ہیں، اب مسلمانوں کا مرثیہ پڑھتے ہوئے ، نذر قلم کرتے ہوئے آنسو روکنے کی ہمت نہیں رہی ۔ ڈر ہے کہ کہیں خون کے آنسو نہ رونے لگ جاؤں ۔ گھر کے مکیں محو خواب ہیں کہیں میری چیخیں ضبط کا دامن چیر کر باہر نہ نکل جائیں ، اسی لئے اب فی ا لحال رفتار قلم پر یہیں روک لگاتا ہوں۔