ہم جہاں رہتے ہیں وہاں انساں نہ رہتے ہوں گے

مولانا عبدالعلیم کوثرؔ
چند نوجوانوں کی نادانی اور بیہودہ مذاق (ڈبلیو ڈبلیو ای اسٹائیل کی کشتی ) نے ماں باپ کے اکلوتے سہارے کو موت کی آغوش میں پہونچادیا۔ لیکن خود اُنھیں کی تیار کردہ ویڈیو نے اُن کے راز کو عام کرتے ہوئے انھیں کٹھہرے کے پیچھے پہونچادیا ۔ نبیل سے ہماری کوئی رشتہ داری نہیں ہے لیکن انسانیت اور اسلام کے ناطے ہمارا دل بھی اُس کی موت پر افسردہ ہے اور بے اختیار ذہن میں چند الفاظ آگئے جو قارئین کی نذر ہے :
لوگ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے
ہم جہاں رہتے ہیں وہاں انساں نہ رہتے ہوں گے
شرم ہے ایسے معاشرے پر جہاں نوجوانوں کی بے راہ روی ایسی ہے کہ آدھی آدھی رات تک بے مقصد گھر سے باہر رہتے ہیں،گھر کا کھانا چھوڑ کر باہر کا پسند کرتے ہیں۔ ماں باپ اولاد کی خوش حالی کے لئے اپنے نفس کی قربانی دیتے ہوئے دن رات ایک کرکے ان کے لئے کماتے ہیں ،ان سے کچھ امیدیں وابستہ رکھتے ہیں۔
اور یہ نوجوان ہیں کہ … ہر غم سے دور … ہرسہولت سے آراستہ،اپنی جوانی کی مستی میں،خدا کو تو بھولا ہی بھولا … بروقت ہر خواہش کی تکمیل کرنے والے والدین بھی ان کے لئے ایک نوکر سے کم نہیں۔ رات رات بھر جاگنا بے ہودہ مشغلوں میں وقت ضائع کرنا ،انسانی تہذیب سے کسی طرح بھی میل نہیں کھاتا۔
ہاے نبیل …!
میں تمہیں جانتا بھی نہیں لیکن تمہارا غم مجھے کھائے جارہا ہے، کیسے سفاک دوستوں کو تم نے پال رکھا تھا۔ تمہارے والد کی خون پسینے کی کمائی کو تم ان کو اپنا سمجھ کر بے دریغ خرچ کرتے تھے۔ ان کی دلجوئی کی خاطر تم اپنی امی سے جھوٹ بول بول کر پیسے لیتے تھے ہوں گے ، تمہاری پیاری امی بیٹے کی ہر ممکنہ خواہش کی تکمیل کے لئے تمہارے والد کی آنکھ بچاکر ،معاف کرنا تمہارے بھائی بہنوں کا حق بھی تم ہی کودے دیا کرتی تھیں ۔ ان کو یقین تھا کہ ایک دن تم بڑے ہوکر ڈاکٹر یا انجینئر بن کے اپنے سارے خاندان کا سہارا بنو گے ۔ بھائی بہنوں کی تعلیم مکمل کراوگے ، ان کی شادیاں کراوگے ۔ ان کی ہر خواہش پوری کروگے، ماں باپ کا ہر غم دور کروگے، بڑھاپے کا سہارا بنوگے۔
ہاے نبیل…!
جن دوستوں کی خاطر تم رات رات بھر جاگتے تھے ، گھر میں جھوٹے بہانے کرتے تھے۔ اپنی پاکٹ منی ان پر خرچ کرتے تھے ان کی خوشی کی خاطر ہر مذاق سہتے تھے۔ انہوں نے تمہارے ساتھ کیسا سلوک کیا … بلا کسی مقصد کے تم کو پیٹ دیئے ، تم کو پٹتے ہوے دیکھ کر وہ لوگ خوشی سے جھوم رہے تھے اور تم اس کودوستوں کی دلجوئی سمجھ رہے تھے … اور ایسے موقعوں پر ہر نوجوان اس کو مذاق ہی سمجھتاہے ۔کوئی کیسے یقین کرے کہ جن دوستوں کی خاطر نیندیں قربان کی گئی ہوں ، اور جن کی خاطر ماں باپ بھائی بہن بلکہ خاندان کی عظمتوں کو داوٗ پہ لگایا گیا ہو ،،کیا وہ احباب ایسا گھناؤنا مذاق کرسکتے ہیں …
نہیں …!
لیکن نبیل یہ سچ ہے، انہوں نے تمہارے ساتھ غداری کی ۔ تم جن کو اپنا وفادار سمجھ رہے تھے وہ تمہیں زندگی بھر پل پل لوٹ رہے تھے ،اور ہر ایسے موقعہ پر تمہاری والدہ تمہیں سمجھاتیں بھی تھیں تمہارے بھائی بہن تمہاری عزت کا خیال کرتے ہوے تمہیں ٹوکتے ٹوکتے رک جاتے تھے،تمہیں یاد ہوگا جب جب بھی تمہاری والد صاحب سے بات ہوئی انہوں نے بھی تمہیں جتا یا تھا اور تم بھی سوچتے تھے کہ واقعی یہ بے ہودہ دوست ہیں لیکن اس سے پہلے کہ تم ان سے پیچھا چھڑاتے انہوں نے تمہارے والدین کے ارمانوں کا بڑی سفاکی سے کام تمام کردیا اور تمہیں موت کی آغوش میں پہنچادیا۔ محمد ابراہیم ذوقؔ نے کہا ؎
کھل کے گل کچھ تو بہار اپنی صبا دکھلا گئے
حسرت اُن غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے