ہم اپنے گھر میں بھی بے خوف رہ نہیں سکتے

رشیدالدین

سنت اور سادھو کے نام کے ساتھ ہی امن ، آشتی اور محبت کی بات کرنے والوں کا تصور ذہن میں آتا ہے۔ انسانیت کی بھلائی اور خدمت کو وہ عبادت تصور کرتے ہیں لیکن آج کے سادھو اور سادھوی بالکل مختلف ہیں۔ امن اور محبت کے بجائے ان کی زبانوں سے نفرت کے سوا کچھ نہیں نکلتا ۔ انسان کی خدمت کو خدا کی خدمت قرار دینے والوں کی جگہ آج نفرت کے سوداگروں نے لے لی ہیں جو سماج کو جوڑنے کے بجائے توڑنے کے کام میں مصروف ہیں۔ سادھو اور سادھویوں نے اپنا مذہبی فریضہ بھلاکر نفرت اور عداوت کے پرچار کو اپنا دھرم سمجھ لیا ہے ۔ زہریلے بیانات کی دوڑ میں وشوا ہندو پریشد کی سادھوی بالیکا سرسوتی نے کہا کہ ’’جو لوگ ہندوستان میں رہ کر پاکستان کی تعریف کرتے ہیں، انہیں جوتوں سے مار کر پاکستان بھیج دینا چاہئے‘‘۔ سادھوی بالیکا سرسوتی آخر کس کو ذہن میں رکھ کر جوتے مارنے کی بات کر رہی ہیں؟ کس نے پاکستان کی تعریف کی اور کس کو وہاں بھیج دینا چاہئے ؟ کرکٹ ورلڈکپ کے آغاز سے ایک دن قبل وزیراعظم نریندر مودی نے ورلڈکپ میں حصہ لینے والے 4 سارک ممالک کے سربراہوں بشمول وزیراعظم پاکستان نواز شریف کو فون کرتے ہوئے کامیابی کیلئے نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔ نریندر مودی کو پاکستان سے ہمدردی اور خیر سگالی کا خیال اچانک کیوں آگیا؟ جس وقت سرحد پر پاکستان کی جانب سے فائرنگ جاری تھی اور کئی ہندوستانی سپاہی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہوگئے ، اس وقت نریندر مودی کو نواز شریف سے فون پر بات کرنے کا خیال نہیں آیا۔ یہ وہی نریندر مودی ہیں جنہوں نے وزیراعظم کی حیثیت سے حلف برداری تقریب میں نواز شریف کو مدعو کیا۔ نواز شریف کی شرکت کو یقینی بنانے سارک کے دیگر ممالک کے سربراہوں کو بھی دعوت دی گئی۔

نواز شریف کی آمد پر ریڈ کارپٹ استقبال کیا گیا تھا ۔ یہ وہی مودی ہیں جنہوں نے اوباما کے دورۂ ہند کے بعد معتمد خارجہ جئے شنکر کو سارک یاترا کے نام پر اسلام آباد روانہ کیا اور معتمدین خارجہ کی سطح پر بات چیت کا احیاء کیا گیا ۔ اس یاترا کو اگرچہ سارک سے جوڑ دیا گیا ، لیکن اصل مقصد دورہ پاکستان تھا۔ امریکی دباؤ کے تحت اچانک پاکستان کے بارے میں رویہ میں تبدیلی باعث حیرت ہے۔ ہندوستانی معتمد خارجہ کو اس حقیقت کے باوجود پاکستان روانہ کیا گیا کہ پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط نے حریت قائدین سے ملاقات پر آج تک بھی افسوس اور ندامت کا اظہار نہیں کیا۔ عبدالباسط کی حریت قائدین سے ملاقات کی بنیاد پر ہندوستان نے معتمدین خارجہ کی بات چیت کو منسوخ کردیا تھا۔ پاکستان ابھی بھی حریت قائدین سے مذاکرات کے موقف پر قائم ہے اور آئندہ بھی مذاکرات جاری رکھنے کا اعلان کر رہا ہے۔ نریندر مودی نے کشمیر میں تشکیل حکومت کیلئے ایسی پارٹی کی تائید کی جس کے چیف منسٹر نے حلف لیتے ہی کشمیر میں پرامن انتخابات کیلئے پاکستان اور عسکریت پسندوں کی تعریف کی۔

بی جے پی کی مدد سے چلنے والی سرکار جس میں بی جے پی شامل ہے، اس حکومت نے کشمیر کے تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کی تیاری کرلی ہے۔ ظاہر ہے کہ رہا کئے جانے والے قیدیوں کی اکثریت کا تعلق پاکستان نواز گروپ سے ہوگا۔ ان تمام حقائق کے پس منظر میں وشوا ہندو پریشد اور اس کی سادھوی بالیکا سرسوتی کو وضاحت کرنی ہوگی کہ ان کا اشارہ کس کی طرف ہے اور وہ کس کو پاکستان بھیجنا چاہتی ہیں؟ نریندر مودی اور بی جے پی نے چیف منسٹر کے عہدہ کیلئے ایسے شخص کی تائید کی جس نے کھل کر پاکستان کی تعریف کی اور مودی کھل کر مذمت بھی نہ کرسکے۔ پاکستان کی تعریف کے وقت بی جے پی سے تعلق رکھنے والے ڈپٹی چیف منسٹر نرمل سنگھ موجود تھے، تو کیا اس تعریف کو بی جے پی کی منظوری سمجھا جائے؟ جہاں تک پاکستان سے ہمدردی اور تعریف کا سوال ہے صرف نریندر مودی واحد شخصیت نہیں۔ ان سے قبل ایل کے اڈوانی نے پاکستان کا دورہ کرتے ہوئے بانی پاکستان محمد علی جناح کو سیکولر قرار دیا تھا۔ سابق میں بہار کے بی جے پی قائد گری راج سنگھ نے پاکستان کی تائید کرنے والوں کو وطن چھوڑنے کا مشورہ دیا تھا۔ آج وہ مرکزی کابینہ میں شامل ہیں۔ اب نریندر مودی کے پاکستان کی طرف جھکاؤ اور تعریفوں کو سادھوی اور گری راج سنگھ کیا کہیں گے؟ اگر پاکستان کی تعریف پر ہی منتقلی کا پیمانہ طئے کیاجائے تو بی جے پی کی نصف سے زائد اعلیٰ قیادت کی جگہ خالی ہوجائے گی۔ مرکز میں نریندر مودی زیر قیادت این ڈی اے حکومت کے برسر اقتدار آتے ہی نفرت اور جارحانہ فرقہ پرستی کی فیکٹریز کی پیداوار میں اضافہ ہوگیا اور ملک کے ہر گوشہ میں کسی نہ کسی عنوان سے سماج کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی سازش کی جانے لگی۔ نریندر مودی حکومت کے 9 ماہ میں ’’وکاس‘‘ تو کہیں دکھائی نہیں دیا لیکن نفرت کے سوداگروں کو کھلی چھوٹ مل گئی جو آر ایس ایس کے ہندو راشٹر کے منصوبہ کو حقیقت میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ دہلی میں عوام کی جانب سے نفرت کی سیاست پر جھاڑو پھیرنے کے باوجود یہ طاقتیں اپنے مشن میں مصروف ہیں۔

ملک کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کے تجربہ کا آغاز مہاراشٹرا سے ہوا ہے، جہاں حکومت نے مسلم تحفظات کو ختم کرنے اور ذبیحہ گاؤ پر امتناع کا فیصلہ کیا۔ سابق کانگریس۔این سی پی حکومت نے مسلمانوں کو تعلیم و روزگار میں 5 فیصد تحفظات کا فیصلہ کیا تھا ۔ ممبئی ہائیکورٹ نے مسلمانوں کے تعلیمی تحفظات کو برقرار رکھتے ہوئے ملازمتوں میں تحفظات پر حکم التواء جاری کیا۔ عدالت نے روزگار میں تحفظات کا جواز پیش کرنے حکومت کو تین ہفتوں کا وقت دیا لیکن موجودہ بی جے پی ۔ شیوسینا حکومت نے عدالت میں تحفظات کا دفاع کرنے کے بجائے اسے کالعدم کردیا ۔ مہاراشٹرا کی بی جے پی حکومت نے گاؤ کشی پر امتناع سے متعلق 16 سال پرانے قانون کو صدر جمہوریہ سے منظور کرایا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کانگریس۔این سی پی حکومت نے 1995 ء میں اسمبلی میں اس بل کو منظوری دی تھی۔ مہاراشٹرا کے بعد اب جھارکھنڈ میں بھی اس طرح کے امتناع کی تیاری کی جارہی ہے۔ دراصل ہندو راشٹر کے تجربہ کا مہاراشٹرا سے آغاز ہوچکا ہے۔ جہاں تک ذبیحہ گاؤ کا تعلق ہے ملک کے کئی مقامات پر دوسروں کے مذہبی جذبات کا احترام کرتے ہوئے عوام باہمی اتفاق رائے سے عمل کر رہے ہیں لیکن پرانے بل کو صدر جمہوریہ سے منظوری حاصل کرنا بی جے پی کے خفیہ ایجنڈہ کو ظاہر کرتا ہے۔

اس طرح کی حرکتوں سے مذہبی اقلیتوں کے جذبات کا امتحان لیا جارہا ہے۔ یہ مسئلہ صرف مسلمانوں کا نہیں بلکہ اس سے کمزور طبقات کے جذبات کو بھی ٹھیس پہنچی ہے۔ یوں بھی یہ مسئلہ مذہبی نہیں بلکہ معیشت سے جڑا مسئلہ ہے اور ملک کی وسیع تر صنعت کا اس پر انحصار ہے۔ ہزاروں خاندان اس صنعت سے وابستہ ہیں۔ جن میں مسلمانوں سے زیادہ دیگر مذاہب کے افراد ہیں۔ گاؤکشی سے اگر کسی ایک مذہب کی دلآزاری ہوتی ہے تو ہر سال مغربی بنگال سے بڑی تعداد میں بڑے جانوروں کی بنگلہ دیش منتقلی کی اجازت کیوں دی جارہی ہے اور جانوروں کو منتقل کرنے والے کاروباری مسلمان نہیں ہیں۔ ہندوستان میں مذہبی رواداری کے بارے میں براک اوباما کی تنقیدوں کے بعد وزیراعظم نریندر مودی نے پارلیمنٹ میں مذہبی رواداری اور مذہبی آزادی کے تحفظ کا عہد کیا تھا۔ باوجود اس کے جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں کی سرگرمیاں جاری ہیں۔ گھر واپسی ، لو جہاد تو کبھی ہندوؤں کو زائد بچے پیدا کرنے کا مشورہ۔ کسی نے چار تو کسی نے 12 بچوں تک کا مشورہ دیدیا۔ دوسروں کو یہ مشورہ دینے والے پہلے اپنے بچوں کی تعداد بتائیں۔ مہنگائی کے اس دور میں سنگھ پریوار بچوں کی زائد پیدائش کو یقینی بنانے کیا فری ’’ڈیلیوری اسکیم‘‘ شروع کرے گی؟ وزیراعظم نے نفرت پھیلانے والوں کے خلاف سخت کارروائی سے متعلق اپنے عہد کو بھلادیا جو انہوں نے پارلیمنٹ میں کیا تھا۔ نریندر مودی اپنے اس بیان کو بھی بھول گئے کہ حکومت کا مذہب ’’ہندوستان‘‘ ملک کی مذہبی کتاب ’’دستور ہند‘‘ حکومت کی عبادت ’’بھارت بھکتی‘‘ اور واحد دعا ’’سب کی فلاح‘‘ ہے۔ نریندر مودی نے جو ڈائیلاگ ڈیلیوری کے ماہر ہیں، لکھے ہوئے مکالمے کو دہرا دیا جس طرح کوئی فلمی اداکار کرتا ہے۔ ہر فلم میں اداکار کا رول اور مکالمے مختلف ہوتے ہیں، اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ٹھیک اسی طرح مودی بھی ہر اسٹیج سے اسکرپٹ رائٹر کے لکھے مکالمے ادا کر رہے ہیں۔

اگر حکومت کی مذہبی کتاب دستور ہند ہے تو بیرونی حکمرانوں کو مودی نے بھکوت گیتا کا تحفہ کیوں دیا۔ اس کی جگہ دستور ہند کی کاپی دینی چاہئے تھی ۔ بھکوت گیتا پیش کرتے ہوئے مودی نے حکومت کے مذہب اور مذہبی کتاب کو ظاہر کردیا ہے۔ پھر پارلیمنٹ میں کچھ اور ہی مکالمے۔ آخر یہ تضاد کیوں ؟ مودی کو انتخابی مہم کی تقاریر سے ابھر کر عملی ثبوت دینا ہوگا۔ ملک میں فرقہ پرست طاقتوں کی سرگرمیوں پر اگر اسی طرح سناٹا رہا تو بہت جلد یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کی سمت پیشرفت کی جائے گی۔ 2016 ء کے اواخر تک راجیہ سبھا میں بی جے پی کو اکثریت مل جانے کا امکان ہے، اس وقت یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کا معاملہ بی جے پی کیلئے آسان ہوجائے گا۔ ان حالات میں مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والی تنظیم مسلم پرسنل لا بورڈ کی خاموشی بھی مسلمانوں کو کھٹک رہی ہے۔ ملک کے موسم اور آب و ہوا کے لحاظ سے اپنے مقررہ اجلاسوں کی جگہ کا تعین کرنے والی تنظیم گزشتہ 9 ماہ سے مسلمانوں کی رہنمائی سے قاصر ہے۔ اس مدت کے دوران مسلمانوں کو کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ فرقہ پرست طاقتوں کی سرگرمیوں کے علاوہ اب تو عدالتوں کی جانب سے بھی غیر محسوس طریقہ سے مسلم پرسنل لا کے امور میں مداخلت کی جارہی ہے۔ پرسنل لا بورڈ کو فوری ہنگامی اجلاس طلب کرتے ہوئے مسلمانوں کو درپیش مسائل کا جائزہ لینا ہوگا۔ جن مسائل پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے، ان کے بارے میں اسلام اور شرعی موقف کو پیش کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اگر نمائندہ تنظیم اور اس کی قیادت خود خاموشی اختیار کرلے تو پھرکون مسلمانوں کی رہنمائی کا بیڑہ اٹھائے گا۔ منظر بھوپالی نے کیا خوب کہا ہے ؎
ہم اپنے گھر میں بھی بے خوف رہ نہیں سکتے
کہ ہم کو نیتِ دیوار و در نہیں معلوم