سرور الہدیٰ
جامعہ ملیہ اسلامیہ۔ نئی دہلی
ادب میں کیا کوئی کسی کا آدمی ہوسکتا ہے؟ اس سوال پر غور کرنے کی ضرورت اس لیے نہیں ہے کہ ادبی معاشرے نے یہ ثابت کردیا ہے کہ کوئی کسی کا ہوسکتا ہے۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ فلاں صاحب کے آدمی ہیں۔ وہ تو فلاں صاحب کے ہیں وغیرہ۔ ادبی معاشرے میں یہ شعور کب پیدا ہوا کہ کوئی کسی کا آدمی ہوسکتا ہے، میں اس کی تحقیق نہیں کرسکا۔ لیکن ایک سامنے کی مثال ہے کہ محمد حسین آزاد نے آب حیات میں ذوق کی بہت تعریف کی۔ اور تعریف میں بھی اتنی دور نکل گئے کہ واپسی کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ اب تو محمد حسین آزاد کی ذوق پسندی اور ذوق پرستی ادبی تاریخ میں ایک مثال بن گئی ہے۔ اگر کوئی آج یہ کہے کہ محمد حسین آزاد ذوق کے آدمی تھے تو کسی کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔ ذرا غور کیجئے کہ ذوق کی تعریف حسین آزاد کررہے تھے۔ ادبی تاریخ میں استاد اور شاگر کا رتبہ اپنے اپنے اعتبار سے نہایت بلند تھا۔ محمد حسین آزاد نے جو طے کرلیا وہ اس پر قائم رہے۔ انیس اور دبیر کے مداح دو خانوں میں منقسم ہوگئے۔ ایک انیسے کہلائے اور دوسرے دبیریے۔ انشا اور مصحفی کے معرکے بھی ادبی تاریخ کا حصہ ہیں۔ ان معرکوں نے ادبی معاشرے کو علمی اور تخلیقی سطح پر بھی تازہ دم رکھا۔ فطری طور پر کوئی کسی کا آدمی تو ہوگا۔ محمد حسین آزاد اگر ذوق کے تھے، اس سے ہمیں ایک سبق لینا چاہئے۔ یعنی عقیدت کی بنیادبہرحال علمی و ادبی ہونی چاہیے۔صرف عقیدت سے ادب میں کسی کو اہم یا بڑا ثابت نہیں کیا جاسکتا۔یہ تمہید دراصل آج کی ادبی صورتحال کی طرف آنے کے لیے باندھی گئی ہے۔ تاکہ کسی کو یہ نہ لگے کہ کسی کے ہونے یا نہ ہونے کی روایت نئی ہے۔ عصر حاضر میں بہت لوگوں نے یہ بھی سنا ہوگا کہ جناب وہ تو فلاں صاحب سے قریب ہیں یا فلاں صاحب کے ہیں۔ اس کہنے اور سننے میں دو آ سانیاں ہیں، ایک آسانی تو کہنے والے کو حاصل ہے، ایسا کہنے کے بعد وہ کسی اور صاحب کی نگاہ میں محترم ہوسکتا ہے۔ دوسری آسانی اس شخص کو مرحمت فرمادی جاتی ہے جس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ فلاں کے ہیں۔ اس صورت میں اسے ایک ٹریڈ مارک مل جاتا ہے۔اس طرح وہ اپنی غیرمعمولی لیاقت کے سبب مشہور ہوجاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ غیر معمولی لیاقت کا کوئی پیمانہ تو ہے نہیں لہٰذا ہرایسا شخص بازار ادب اپنی تمام تر غیرمعمولی حماقت کے ساتھ غیرمعمولی لیاقت کا حامل بن جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ بازار ادب کا ہر شخص ایک طرح کا نہیں ہوتا۔ بعض لوگوں میں واقعی بڑی صلاحیت ہوتی ہے اور وہ ادب کی دنیا میں کسی سے بھی گفتگو کرنا چاہتے ہیں، ایسے میں کسی کو کسی کا آدمی کہنا دراصل اپنی حماقت اور کمزوری پر پردہ ڈالنا ہے۔ کسی کا ہونا اور کسی کا ہوجانا اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم ایسا کہہ کر کیا بتانا چاہتے ہیں۔ کسی کا کوئی اگر ہوگیا ہے تو یہ اس شخص کا مسئلہ ہے۔ مگر کچھ لوگ اسے موضوع گفتگو بنا کر اپنا وقت آباد کرنا چاہتے ہیں جو بنیادی طور پر وقت کی بربادی ہے۔ ایسے شخص کے مسائل زیادہ بھی ہیں اور خطرناک بھی۔ یہ سنتے ہوئے لوگ تھک چکے ہیں کہ ایک حلقے سے وابستہ شخص دوسرے حلقے سے وابستہ شخص کو نہ پڑھتا ہے اور نہ توجہ سے سنتا ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ جس شخصیت سے وابستگی پر کوئی نازاں ہے اس کی طرف سے یہ فرمان جاری ہوا کہ آپ فلاں شخص کی تحریروں کو نہ پڑھیں۔ بعض بڑی شخصیات زبان سے کچھ نہیںکہتیں لیکن ان کے رویے سے لگتا ہے کہ وہ شخص خوش نہیں ہیں۔ ادب میں کسی کی تعریف کو کوئی پہلو نکل آتا ہے تو اس کے اظہار میں مخلص اور ایمان دارہونا ضروری ہے۔ یہ خیال تو عقیدت مند شخص کا ہے کہ اس کے ممدوح پر علم و فضل کا اختتام ہوچکا ہے۔ ادب میں اب نہ کوئی ذوق ہے اور نہ محمد حسین آزاد۔ ہرزمانے میں کچھ لوگوں کا گروپ بن جاتا ہے۔ ہم خیال افراد کا ادب کے معاملات میں یکجا ہو جانا، حیرت کی بات نہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہم خیالی ذہنی جمود کا وسیلہ بن جاتی ہے۔ غوروفکر کا مطلب اتفاق ہی نہیں اختلاف بھی ہے۔ لیکن اختلاف کا مطلب اب یہ سمجھا جاتا ہے کہ کوئی کسی مربی یا ممدوح سے منحرف ہوگیا ہے۔ بعض مرتبہ ایسے شخص کو گمراہ بھی کہہ دیا جاتا ہے۔ گویا اختلاف یا اتفاق کوئی ایسی شئے نہیں جسے خرید کر لایا جائے مگر بعض موقعوں پر محسوس ہوتا ہے، اتفاق اور اختلاف کی باتیں ہمارے مطالعے کا نتیجہ نہیں بلکہ فوری مقاصد کی تکمیل کا وسیلہ ہیں۔ نہ اپنی زبان ہوتی ہے نہ اپنا خیال۔ مطالعے کا فیضان تو یہی بتایا گیا ہے کہ قاری آزادانہ طور پر سوچتا ہے۔ اس کا ذہن اپنے انداز سے سوچتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی طاقت اس کی آزادانہ قرأت ہے۔ ممکن ہے پہلی قرأت کے بعد دوسری قرأت کسی اور نتیجے تک قاری کو پہنچائے مگر ایسے مطالعات کی طاقت تو اس کی ایمانداری ہے۔ کیا کسی کا ہوکر بھی اپنی ذہنی آزادی کو بچایا جاسکتا ہے۔ اس کا جواب اثبات میں بھی ہے اور نفی میں بھی۔ ذہنی آزادی کی اس صورت میں حفاظت کی جاسکتی ہے کہ جب مکمل خودسپردگی سے بچاجائے۔ مکمل خودسپردگی تو بہت اچھی چیز ہے اور ہمارے یہاں اس کی تاریخ رہی ہے ۔لیکن مکمل خودسپردگی کے بغیر حلقہ میں باریابی ممکن نہیں۔ آپ کو اپنا ذہن گروی رکھنا پڑے گا، جو سوالات ذہن میں آتے ہیں ان کا جواب وہاں تلاش کرنا ہوگا جس کا تعلق ان سوالات سے ہے ہی نہیں۔ فراق نے کیا خوب کہا تھا ؎
اپنی تسلیم و رضا پہ شرم سی آنے لگی
ہم نیاز عشق کی حد سے بھی بڑھ جائیں گے کیا
فکری سطح پر ذہن کا سمٹ جانا ادب کی دنیا کی سب سے بڑی محرومی ہے۔ عقیدت کی اہمیت ہمیشہ باقی رہے گی لیکن عقیدت اگر ادبی معاملات کو سمجھنے کی بجائے ایک دائرے کا قیدی بنادیتی ہے تو اس کا نقصان تو قیدی ہی کو ہوتا ہے۔ قید کرنے والا تو اپنے طور پر آزاد تھا، آزادہے۔ شاید اس نے کہا بھی نہیں تھا، آپ قیدی ہو جائیں۔ ہر شخص میں امکانات ایک طرح کے نہیں ہوتے۔ جال پھینکنے والا بھی سمجھتا ہے کہ کون کب اس کا شکار ہوگا۔ کاش ایسا ہوتا ہم کسی کے عقیدتمند بھی ہوتے اور اس کے ناقد بھی۔ یہاں ناقد کا لفظ صرف یہ کہنے کے لیے آیا ہے کہ ہمارا ذہن ادبی مطالعے میں پوری طرح نہ سہی مگر کچھ تو آزاد ہو۔ ہم اس مصنف کی تحریریں بھی اسی ذوق وثوق کے ساتھ پڑھ سکیں جس ذوق و شوق کے ساتھ اپنے ممدوح کی تحریروں کو پڑھتے ہیں۔۔ ممدوح کو خطرہ یہ ہے کہ اگر آزادانہ مطالعہ شروع ہوگیا تو تازہ ہواآجائے گی۔ جو تعصبات پھیلائے گئے ہیں وہ ختم ہوں گے اور ادبی شخص سیاست کے سبب جس مصنف کو حاشیہ پر ڈالنے کی کوشش کی جاتی رہی اس کا متن مرکز میں آجائے گا۔ ادب میں کسی ایک کا ہونا ممکن ہی نہیں۔ اگر اس کے باوجود کوئی کسی ایک کا ہے تو شاید وہ اس کا بھی نہیں ہے۔ کون کب کس کا ہے اور کس کا نہیں ہے، اس کا تعلق صرف علم وادب سے نہیں بلکہ ادب کے بازار بھائو سے بھی ہے۔ بازار بھائو پر تو ہمارا اختیار نہیں ہے۔ یہ امید کی جاتی ہے کہ ہمارا اختیار اپنی ذات اور ضمیر پر تو ہوگا۔ ان حقائق کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ ایسا ہے جس کا حل کسی کے پاس نہیں۔ وہ اس لیے کہ ذہن ایک خاص سطح سے بلند ہو کر سوچنے پر آمادہ نہیں۔آپ اگر کسی اہم کتاب یا تحریر کو موضوع گفتگو بنائیںتو یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ آپ اس مصنف کے ہوچکے ہیں۔ پھر اس خواہش کا اظہار کیا جاتا ہے کہ توازن قائم رکھنے کے لیے متبادل بیانیہ کے طور پر دوسرے مصنف پر بھی لکھا جائے۔ ادبی کاوشوں کے درمیان ادیبوں کے یہاں ایسے لمحات بھی آتے ہیں جب وہ متبادل بیانیہ کے طور پر خود کو پیش کرنا چاہتا ہے۔یہ وہ ادیب ہیں جنہیں وقت گزرنے کے ساتھ یہ فکر ستاتی ہے کہ کہیں رفتہ رفتہ اس کا لکھا ہوا قصہ ٔ پارینہ نہ بن جائے۔ ایسی صورت میں ایک بے اطمینانی گھر کر جاتی ہے۔شاید کبھی ایسا ہونا فطری بھی ہو لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ محض اس خواہش کی بنیاد پر کوئی کسی عہد کے تنقیدی اور تخلیقی منظر نامے کا متبادل بن سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے، وقت ہی کسی کو متبادل کے طور پر پیش کرتا ہے اور وقت ہی منظر نامے سے ہٹا بھی دیتا ہے۔ بے شک ادبی سیاست اس معاملے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے مگر سیاست تو سیاست ہے اسے اچھے اور ایماندارانہ متن سے ایک نہ ایک دن ہار جانا ہے، جیت اسی کی ہوتی ہے جس میں علم و بصیرت بھی ہو اور ایمانداری بھی۔کسی کے ہونے اور نہ ہونے کی فکر کے بجائے اقبال کی یہ بات یاد کرنی کی ہے ’’ تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن ۔‘‘