رشیدالدین
عدلیہ پر زعفرانی رنگ کے اثرات
مسلم پرسنل لا بورڈ …گنبد اقتدار کے کبوتروں سے ہوشیار
نریندر مودی حکومت کو ابھی ایک سال مکمل نہیں ہوا لیکن جارحانہ فرقہ پرست طاقتیں بے لگام ہوچکی ہیں۔ مودی نے ترقی کے نام پر عوام کو گمراہ کرتے ہوئے اقتدار حاصل کیا لیکن آج عوام کی ترقی نہ سہی سنگھ پریوار اور نفرت کے پرچارکوں کی ترقی ضرور ہوئی ہے۔ نظم و نسق میں آر ایس ایس ذہنیت کی سرایت کرنے کی مثالیں اگرچہ وقفہ وقفہ سے منظر عام پر آتی رہی ہیں لیکن گزشتہ 9 ماہ میں نظم و نسق میں چھپے ہوئے ان عناصر نے اپنی اصلیت کو بے نقاب کردیا۔ جمہوریت کے دو اہم ستون مانے جانے والے عاملہ اور عدلیہ میں بھی زعفرانی رنگ کی جھلک دکھائی دینے لگی ہے۔ یوں تو سابق میں عدالتوں نے شریعت اسلامی میں مداخلت کی کوشش کی تھی لیکن نریندر مودی کے اقتدار میں اس طرح کے عدالتی فیصلوں میں اضافہ ہوگیا جس کے ذریعہ عدلیہ نے شریعت کو چیلنج کیا۔ عدالتوں کے اس طرح کے فیصلوں کے لئے نظم و نسق یعنی بیورو کریسی ذمہ دار ہے کیونکہ عدالت کا کام ثبوت اور گواہوں کی بنیاد پر فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ جب استغاثہ کو کمزور کردیا جائے تو عدالت بھی کچھ نہیں کرسکتی۔ یہ الگ بات ہے کہ معاملہ کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے عدلیہ از خود بھی تحقیقات کا حق رکھتی ہے۔ استغاثہ کو کمزور کردیں تو پھر گجرات میں ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کے قاتل بھی باعزت بری ہوسکتے ہیں۔ احسان جعفری کی ہلاکت، بسٹ بیکری کیس، عشرت جہاں اور سہراب الدین شیخ فرضی انکاؤنٹرس کے ملزمین کی رہائی اور الزامات سے برأت کوئی عجب نہیں۔
اس طرح کا یہ فیصلہ اترپردیش کے ہاشم پورہ قتل عام کا ہے، جس میں 28 برس بعد بھی متاثرہ خاندانوں کو انصاف نہیں ملا۔ برخلاف اس کے عدالت نے تمام ملزمین کو باعزت بری کردیا۔ عدالتوں کے ذریعہ جب اس طرح انصاف کا خون ہونے لگے تو یقینی طور پر عوام کا اعتماد عدلیہ پر سے متزلزل ہوجائے گا۔ ملک میں عدلیہ آج بھی آزاد اور غیر جانبدار ہے اور کئی معاملات میں عدالتوں نے خود مداخلت کرتے ہوئے انصاف رسانی کا کام کیا ہے۔ تاہم تحت کی عدالتیں اور تحقیقاتی ایجنسیاں ابھی بھی حکومت اور بیورو کریسی کے دباؤ سے پوری طرح آزاد نہیں۔ 1987 ء میں 42 مسلمانوں کے قتل عام کے ذمہ دار پی اے سی جوانوں کو شک کے فائدہ کی بنیاد پر بری کردیا گیا۔ قانونی ماہرین کے مطابق اترپردیش حکومت اور پولیس نے دانستہ طور پر ناقص تحقیقات کیں تاکہ خاطیوں کو بچایا جاسکے۔ پہلی بات تو یہ کہ تحت کی عدالت میں 28 سال تک کسی مقدمہ کی سماعت خود باعث حیرت ہے۔ یوں بھی ہندوستان میں خون مسلم کی ارزانی کوئی نئی بات نہیں۔ آزادی کے بعد سے ملک میں ہزاروں فسادات ہوئے لیکن مسلمان انصاف سے محروم رہے۔ ملک میں پانی کی اہمیت ہے لیکن مسلمانوں کے خون کی اہمیت نہیں۔ مرکز میں نریندر مودی کے اقتدار کے بعد ایسے ادارے جو دستور و قانون کے محافظ دستور کئے جاتے ہیں، وہاں بھی آر ایس ایس کی ذہنیت غالب آنے لگی ہے۔ عدلیہ کے ذریعہ بھی مسلم پرسنل لا اور مسلمانوں کے حقوق سے متعلق امور میں فیصلوں کی ایک طویل تاریخ ہے۔
جن میں شاہ بانو کیس ، بابری مسجد، طلاق کی شرعی حیثیت اور شادی کے شرعی جواز کو چیلنج جیسے فیصلوں سے لیکر یکساں سیول کوڈ ، ذبیحہ گاؤ اور تحفظات کی مخالفت جیسے حالیہ فیصلے شامل ہیں۔ اگر عدلیہ پر بیورو کریسی اور حکومت کے دباؤ کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو عین ممکن ہے کہ شہادت بابری مسجد مقدمہ کے تمام ملزمین بھی باعزت بری ہوجائیں گے۔ اب وہ روایات باقی کہاں ہیں ، جب مجرمانہ ریکارڈ یا داغدار افراد کو عہدوں سے دور رکھا جاتا تھا۔ اب تو ایسے افراد ہی زیادہ سرخرو نظر آتے ہیں جو زیادہ سے زیادہ مقدمات کا سامنا کر رہے ہوں۔ بابری مسجد شہادت کے ذمہ دار، گورنر جیسے دستوری عہدہ پر فائز کئے گئے اور مرکزی وزارت میں شامل کیا گیا۔ جارحانہ فرقہ پرستی کے پرچارک اور نمائندوں کو پارلیمنٹ کا رکن بنایا گیا جہاں ملک کی قانون سازی کی جاتی ہے جو افراد روزانہ نت نئے انداز میں سنگھ پریوار کے ایجنڈہ پر کاربند ہیں ،
انہیں اہم عہدوں سے نوازا جارہا ہے۔ مظفر نگر فسادات کے اہم ملزم کو مرکزی وزارت میں شامل کیا گیا جبکہ ایک اور ملزم کو زیڈ پلس زمرہ کی سیکوریٹی فراہم کی گئی۔ اسی طرح مودی حکومت دستور اور قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو عہدوں سے نواز رہی ہے۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی اگرچہ زبانی طور پر ان سرگرمیوں کی مذمت کر رہے ہیں لیکن عملی اقدامات سے قاصر ہیں۔ نفرت انگیز ان سرگرمیوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام نے دہلی میں بی جے پی کو سبق سکھایا۔ بی جے پی کو اقتدار کیلئے کشمیر میں اپنے بنیادی اصولوں پر سمجھوتہ کرنا پڑا۔ حالیہ سروے کے مطابق 9 ماہ کے عرصہ میں مودی کی مقبولیت کا گراف تیزی سے گرنے لگا ہے۔ اترپردیش اور بہار میں کمزور موقف کی رپورٹ سے سنگھ پریوار بھی فکرمند ہے۔ نفرت انگیز مہم کے حصہ کے طور پر گھر واپسی کی مہم کچھ اس طرح چلائی گئی کہ ٹیم انڈیا کی ورلڈکپ سے گھر واپسی ہوگئی۔ گھر واپسی کی اس قدر تشہیر کی گئی کہ شائد ٹیم انڈیا نے اسے واپسی کا بلاوا سمجھ لیا اور اس وقت مظاہرہ کرنا تھا ، اسی وقت گھر واپسی کو ترجیح دی۔ کرکٹ کے ایک پرستار نے کچھ اس طرح تبصرہ کیا کہ سنگھ پریوار کو ٹیم انڈیا کی گھر واپسی کی اخلاقی ذمہ داری قبول کرنی چاہئے ۔
ملک میں جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں کی سرگرمیوں پر روک لگانے میں سیکولر جماعتیں اور حتیٰ کہ مسلمانوں کے نمائندہ ادارے بھی ناکام دکھائی دے رہے ہیں۔ مسلمانوں کے تمام مسالک اور عقائد کا نمائندہ ادارہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے بھی اپنے حالیہ اجلاس میں سلگتے مسائل سے صرف نظر کیا۔ اجلاس کے ایجنڈہ میں ان مسائل کو شامل کرنے کے بجائے بعض مخصوص افراد نے اپنی انفرادی رائے کا اظہار کیا۔ ہاشم پورہ قتل عام کیس کے فیصلہ پر بورڈ نے چشم پوشی اختیار کرلی جبکہ اجلاس میں مذمتی قرارداد پیش کی جانی چاہئے تھی، ایسے اجلاسوں سے کیا فائدہ جو مسلمانوں سے ناانصافی اور ان کے ملی تشخص کو مٹانے کی سرگرمیوں پر آواز نہ اٹھاسکے۔صرف زبانی مذمت کے بجائے بورڈ کو قانونی لڑائی کی تیاری کرنی چاہئے۔ یوں بھی اب مسلم پرسنل لا بورڈ کا وقار اس طرح کا باقی نہیں رہا جو کہ علی میاں ندوی کی قیادت میں تھا۔ سرسوتی وندنا کو اسکولوں میں لازمی قرار دینے پر علی میاں نے تمام مدارس سے مسلم بچوں کو نکال لینے کی دھمکی دی تھی جس کے بعد حکومت کو فیصلہ واپس لینا پڑا۔ علی میاں ندوی اور ان کی بے لوث و بیباک ٹیم نے ہمیشہ حکومتوں اور اقتدار کے ایوانوں کو ٹھوکر پررکھا لیکن آج معاملہ مختلف ہے۔ اگرچہ بورڈ میں ملت کے اکابرین کا گلدستہ موجود ہے لیکن بورڈ اب ایک منتشر بھیڑ یا گروہ میں تبدیل ہوچکا ہے۔ ایسے افراد نے اس میں جگہ پالی ہے جو لال بتی کی کار اور اقتدار کے حریص ہیں۔ بعض تو حالیہ عرصہ تک بھی سرکاری عہدہ پر لال بتی کی گاڑی کے مزے لوٹ چکے ہیں۔
جب اس طرح کے افراد کا غلبہ ہو تو پھر نریندر مودی کے نمائندہ کا اجلاس میں شریک ہونا کوئی حیرت کی بات نہیں۔ یقیناً کسی نہ کسی نے مودی کے نمائندوں کو مدعو کیا ہوگا، یہی وجہ ہے کہ بعض قائدین دبے الفاظ میں مودی سے ملاقات کی وکالت کر رہے ہیں۔ ایک نے یہاں تک کہہ دیا کہ جب تک مواصلت یا مراسلت نہ ہو ، مسائل کی یکسوئی کیسے ہوگی۔ ایک اور قائد نے مودی کے ترقی کے نعرہ کو ووٹ دینے کا اعتراف کیا۔ ایسے اقتدار کے لالچی افراد پرسنل لا بورڈ کو سیڑھی بناکر سرکاری عہدے حاصل کرنے کے خواہشمند ہیں۔ انکے لئے بورڈ میں کوئی جگہ نہیں ہونی چاہئے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کی قیادت کو اقتدار کی گنبد کے ان کبوتروں سے ہوشیار رہنا چاہئے جو ان دنوں بورڈ پر منڈلا رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بورڈ کے موجودہ صدر حضرت رابع ندوی اپنے اسلاف کی روایات کو بحال کریں اور ان کے راستہ کو اختیار کریں جس میں مصلحت ، چاپلوسی ، ڈر اور خوف کی کوئی گنجائش نہیں۔ ظفر یاب جیلانی اور کمال فاروقی جیسے افراد پر تکیہ کرنا بورڈ کیلئے نقصان دہ اور راستہ سے بھٹکنے کا سبب بن سکتا ہے۔
مسلم پرسنل لا بورڈ کا کوئی ذمہ دار جب مودی کے ایجنڈہ کو تر قیاتی ایجنڈہ قرار دے تو اسے مودی کا نمائندہ نہیں تو اور کیا کہیں گے؟ بورڈ کے اکابرین نے مودی سے ملاقات اور ترقیاتی ایجنڈہ جیسے تبصروں پر خاموشی اختیار کرلی۔ مدراس ہائیکورٹ نے کم عمری میں شادی کے مسئلہ پر حالیہ فیصلہ میں شریعت کے خلاف رائے زنی کی ہے۔ بورڈ کی ذمہ داری تھی کہ وہ عدالت کے فیصلہ کو چیلنج کرے اور بتائے کہ اسلام اور شریعت میں سن بلوغ ہی شادی کا معیار ہے۔ ہندوستانی دستور نے بھی ہر کسی کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی اجازت دی ہے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کو مقررہ تاریخوں اور مخصوص مقامات پر موسم کے اعتبار سے اجلاس منعقد کرنے کے بجائے جب بھی ضرورت پڑے ہنگامی اجلاس طلب کرنا چاہئے تاکہ ہر مرحلہ پر مسلمانوں کی رہنمائی ہوسکے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کو دائرہ کار کے بہانہ سے اوپر اٹھنا ہوگا۔ صرف نکاح ، طلاق اور نان و نفقہ ہی بورڈ کا ایجنڈہ نہ رہے بلکہ مسلمانوں کے ہر سلگتے مسئلہ پر بورڈ کو رہنمائی کیلئے آگے آنا ہوگا۔ ہندوستان میں اگرچہ اور بھی کئی مسلم جماعتیں موجود ہیں لیکن پرسنل لا بورڈ کو ایک نمائندہ تنظیم کی حیثیت میں تسلیم کیا جاتا ہے۔ بعض گوشوں کی جانب سے بورڈ کی اہمیت کو گھٹانے اور اس میں انتشار پیدا کرتے ہوئے حکومت کے نمائندوں کو شامل کرانے کی سازش کی جارہی ہے تاکہ بورڈ کو برسر ا قتدار پارٹی اپنے سیاسی اغراض کے لئے استعمال کرسکے۔ پرسنل لا بورڈ کے نمائندوں کو ایمانی حرارت کے ساتھ اجلاس میں شرکت کرنا چاہئے ۔ تاکہ ان میں حکومت کا خوف اور مصالحت اور مفاہمت کا جذبہ پیدا نہ ہوسکے۔ منظر بھوپالی نے کچھ اس طرح اپنی رائے ظاہر کی ہے۔
ہمارے راہ نما کیا چلیں گے کانٹوں پر
کہ ان کے پاؤں تو پھولوں سے چھلنے لگتے ہیں
rasheeduddin@hotmail.com