ہمارے دل کو ہندوستان کردے

لال قلعہ سے نریندر مودی کا نیا رنگ
صرف باتیں نہیں… سنگھ پر کنٹرول ضروری

رشیدالدین

نریندر مودی کے کتنے رنگ ؟ کسے حقیقی نریندر مودی مانا جائے؟ کیا وہ حقیقی نریندر مودی تھے جنہوں نے 26 مئی کو حلف برداری کے موقع پر وزیراعظم پاکستان نواز شریف اور سارک کے دیگر ممالک کے سربراہوں کو مدعو کیا تھا ۔ کیا وہ حقیقی مودی تھے جنہوں نے گزشتہ دنوں جموں و کشمیر کے دورہ کے موقع پر پاکستان کو بالواسطہ جنگ کے خلاف للکارا۔ کیا انہیں حقیقی نریندر مودی سمجھا جائے جنہوں نے ملک کے 68 ویں جشن آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے وزیراعظم کی حیثیت سے اپنے پہلے خطاب میں ایک مدبر اور مصلح کی حیثیت سے دنیا کے سامنے خود کو متعارف کرانے کی کوشش کی ۔ ظاہر ہے کہ نریندر مودی نے ان تینوں مواقع پر اپنی منفرد صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ مودی نے حلف برداری کے وقت پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا لیکن دو ماہ بعد انہوں نے اسی پاکستان کو روایتی جنگی صلاحیت سے محروم قرار دے دیا اور پھر ایک ہفتہ بعد ہی جشن آزادی کے موقع پر پاکستان کا نام لئے بغیر اسے لڑائی سے باز رہنے کی تلقین کی۔

مودی نے بی جے پی اور سنگھ پریوار کے پس منظر کے باوجود لال قلعہ سے اپنی تقریر پر اس کی چھاپ پڑنے نہیں دی جو کہ یقیناً ایک خوش آئند قدم ہے۔ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ ایک درد مند دل اور قوم کے مسائل کے حل کا جذبہ رکھنے والی شخصیت اپنے فن خطابت کے ذریعہ عوام کے دلوں تک پہنچنے کی کوشش کر رہی ہے۔ وزیراعظم نے کسی بھی متنازعہ مسئلہ کا حتی کہ متنازعہ شخصیت کا نام تک نہیں لیا بلکہ ملک کی ترقی کیلئے امن اتحاد و اتفاق اور بھائی چارہ کا درس دیا ۔ لال قلعہ سے پاکستان کا نام لئے بغیر نریندر مودی نے جنگ و جدال سے باز رہنے کی کچھ اس طرح تلقین کی کہ ہمیں مرنے مارنے کا راستہ ترک کرنا چاہئے کیونکہ مارنے والے سے بچانے والا بڑا ہوتا ہے۔ پاکستان کو کسی طرح کی دھمکی کے بجائے انہوں نے یاد دلایا کہ آزادی کی لڑائی ہم نے مل کر لڑی تھی اور اس وقت ہم ایک تھے ،

اب ہمیں آپس میں ٹکراو کے بجائے غربت کے خلاف لڑائی کی تیاری کرنی چاہئے۔ ملک کے مختلف حصوں میں جاری فرقہ وارانہ تشدد کے پس منظر میں نریندر مودی نے ذات پات اور مذہب کے نام پر تشدد کے خاتمہ کی اپیل کرتے ہوئے یہ جتانے کی کوشش کی کہ حکومت مذہبی منافرت کے خلاف ہے۔ سابق حکومتوں اور سابق وزرائے اعظم کے کارناموں کی ستائش کے ذریعہ مودی نے میجاریٹی کے بجائے سیاسی اتفاق رائے کی وکالت کی ۔ یہ پہلا موقع ہے کہ جب کسی وزیراعظم نے لال قلعہ سے سابق حکومتوں ، وزرائے اعظم حتیٰ کہ قائد اپوزیشن کی ستائش کی ۔ وزیراعظم کی حیثیت سے مودی نے ملک کو درپیش مسائل کا بہتر طور پر احاطہ کرتے ہوئے سماج کی نبض پر ہاتھ رکھنے کی کوشش کی ہے ۔ خواتین کا تحفظ ، نوجوانوں کو روزگار ، دیہی علاقوں کی ترقی اور ملک کو گندگی سے پاک کرنے جیسے مسائل کے علاوہ میڈ ان انڈیا ، ڈیجیٹل انڈیا ، ای گورننس ، ایزی گورننس اور گڈ گورننس کا نعرہ دیا۔ غریبوں کے لئے بعض اسکیمات کا اعلان بھی تقریر کا اہم حصہ رہا ۔ حالیہ برسوں میں شائد یہ پہلا موقع ہے جب کسی وزیراعظم نے لال قلعہ کی فصیل سے بلڈ پروف حصار کے بغیر قوم سے خطاب کیا اور تحریری نہیں بلکہ زبانی تقریر کی۔ 80 دن کی حکمرانی کے بعد لال قلعہ سے ایک نئے نریندر مودی کو دنیا نے سنا جو کل تک سپنے دکھاتے رہے لیکن اب عوام کو حقیقت سے روبرو کر رہے تھے۔ وہ پہلے کہا کرتے تھے ’’میں بدل دوں گا‘‘ لیکن اب کہہ رہے ہیں کہ ’’ہم کو مل کر بدلنا ہوگا‘‘ یقیناً نریندر مودی نے اپنی حکومت کی ترجیحات اور ایجنڈہ کو عوام کے روبرو پیش کردیا جس طرح کہ سابق حکومتیں پیش کرتی رہیں لیکن اس پر عمل آوری اصل آزمائش ہے۔ اب عوام کو باتوں کا نہیں عمل کا انتظار رہے گا کہ مودی کس طرح اپنی باتوں کو عملی سانچہ میںڈھالتے ہیں۔ 10 سال تک ذات پات اور مذہبی تشدد سے کنارہ کشی کا درس دینے والے مودی کی پہلی آزمائش خود اپنے قائدین اور سنگھ پریوار پر کنٹرول کرنا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا وزیراعظم کی تقریر کو سنگھ پریوار نے منظوری دی تھی ؟

یا پھر محض دنیا کیلئے یہ دکھاوا ہے ؟ چند دن قبل پارلیمنٹ میں فرقہ وارانہ تشدد پر مباحث کے دوران بی جے پی کے رکن جوگی ادتیہ ناتھ نے جو زہر افشانی کی وہ پارلیمنٹ کے ریکارڈ کا حصہ ہے۔ اگر نریندر مودی فسادات کے خاتمہ کیلئے سنجیدہ ہیں تو پھر انہیں پارلیمنٹ میں زہر اگلنے والے رکن کی سرزنش کرنی چاہئے تھی۔ نچلی سطح سے چیف منسٹر گوا تک بی جے پی قائدین ہر ہندوستانی کو ہندو قرار دینے میں مصروف ہیں۔ دوسری طرف وقفہ وقفہ سے مسلمانوں کو پاکستان جانے کا مشورہ دیا جارہا ہے۔ کیا مودی اس سے لاعلم ہیں؟ نریندر مودی کو وزیراعظم کی حیثیت سے ان منافرت پھیلانے والوں پر لگام کسنی ہوگی جو ملک کی یکجہتی کیلئے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ اس کے بعد ہی مودی کو عوامی اسٹیج سے نصیحت کرنی چاہئے۔ اسی وقت عوام ان پر بھروسہ کریں گے ۔ نریندر مودی کے گجرات پس منظر کے باعث سنگھ پریوار اور اس کی محاذی تنظیموں کو سماج میں نفرت گھولنے کا جیسے لائسنس مل چکا ہے ۔ مظفر نگر فسادات کے ملزم کی مرکزی کابینہ میں شمولیت اور فرقہ وارانہ اساس پر ووٹ کی تقسیم کے ماہر امیت شاہ کو پارٹی صدر بنانا خود اس بات کی دلیل ہے کہ مودی اپنے بیانات میں کس حد تک سنجیدہ ہیں۔ مذہبی تشدد کے خاتمہ کی بات اسی وقت درست سمجھی جائے گی جب مظفر نگر کے ملزم کو کابینہ سے علحدہ کیا جائے گا۔ بہترین ڈائیلاگ ڈلیوری کچھ دیر کیلئے عوام کی واہ واہی تو لوٹ سکتی ہے لیکن دیرپا اثر کیلئے عمل ضروری ہے۔ گزشتہ ڈھائی ماہ کے دوران مودی اپنے ایک وعدہ پر بھی عمل نہ کرسکے اور اچھے دنوں کی ابھی شروعات نہیں ہوئی ہیں۔ اگر صرف تقاریر کے ذریعہ ہی مودی عوام کو بہلاتے رہیں تو وہ اچھے ڈائیلاگ ماسٹر کی حیثیت سے تو مشہور ہوجائیں گے لیکن بہترین ایڈمنسٹریٹر کا عوامی سرٹیفکٹ حاصل نہیں کرپائیں گے۔

وزیراعظم کی حیثیت سے 26 مئی کو حلف برداری کے موقع پر نواز شریف کو بطور خاص مدعو کرنے والے نریندر مودی نے گزشتہ دنوں جموں و کشمیر کے لیہہ میں فوج سے خطاب کے دوران اچانک یو ٹرن لے لیا۔ نواز شریف کی حلف برداری میں شمولیت اور نریندر مودی سے گرم جوشی سے ملاقات سے پھر ایک بار دونوں ممالک کے تعلقات میں استحکام کی امید پیدا ہوگئی تھی۔ دونوں ممالک کے عوام اس ملاقات سے باہمی رشتوں کے ایک نئے دور کا آغاز دیکھ رہے تھے، مودی اور نواز شریف نے اپنی بقید حیات ماں کا تذکرہ کرتے ہوئے نہ صرف سعادت مند فرزند ہونے کا ثبوت دیا بلکہ دونوں نے ایک دوسرے کی ماں کیلئے شال اور ساڑی کے تحائف کا تبادلہ کیا تھا۔ اس وقت نریندر مودی وہ شخص نہیں تھے جو وزارت عظمیٰ کے امیدوار کی حیثیت سے ملک بھر میں بی جے پی کی انتخابی مہم کے دوران پاکستان کی کلاس لے رہے تھے۔ یہ توقع نہیں تھی کہ اس قدر جلد نریندر مودی کا موقف تبدیل ہوجائے گا ۔ کشمیر کے دورہ کے موقع پر لیہہ میں فوج اور فضائیہ کے کمانڈرس اور سپاہیوں سے خطاب کرتے ہوئے مودی نے روایتی جنگ کے سلسلہ میں پاکستان کی صلاحیت اور طاقت پر سوال کھڑے کئے ۔ انہوں نے کہا کہ روایتی جنگ کی صلاحیت سے محروم پاکستان دہشت گردی کے ذریعہ ہندوستان کے خلاف بالواسطہ جنگ جاری رکھے ہوئے ہے۔ سرحد پار سے جنگ بندی کی خلاف ورزیوں اور بے قصور افراد کی ہلاکتوں پر مودی جذبات پر قابو نہ رکھ سکے۔ مودی نے سرحد پار سے جاری مخالف ہندوستان سرگرمیوں کے بارے میں جو کچھ کہا اس میں کوئی دورائے نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ جنگ اور اس کی صلاحیت کے بارے میں کہنے کی آخر کیا ضرورت تھی؟ خود پاکستان کو ہی اس بات کا احساس ہے کہ اس کی سرزمین مخالف ہند سرگرمیوں کیلئے استعمال کی جارہی ہے۔ تاہم مودی حکومت ایک طرف جب پڑوسی سے تعلقات بہتر بنانے میں سنجیدہ ہے تو پھر اس طرح کی باتوں کیلئے کوئی موقع محل نہیں تھا،جس سے قربت کے بجائے دوریاں اور باہم محبت کے بجائے تلخیاں پیدا ہوجائیں۔

سیاستدانوں کو ذمہ دار عہدوں پر فائز ہونے کے بعد کم از کم عام جلسوں کی طرح فن خطابت اور شعلہ نوائی کے مظاہرہ سے گریز کرنا چاہئے۔ فوجیوں سے خطاب کرتے ہوئے مودی نے تو جذبات کا اظہار کردیا لیکن دوسری طرف قومی سلامتی پر کانفرنس میں وزیراعظم پاکستان نواز شریف نے ہندوستان سے بہتر رشتے نہ ہونے پر ندامت کا اظہار کیا اور حالات بہتر بنانے میں حکومت کی دلچسپی ظاہر کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نریندر مودی کی طرح نواز شریف کے سامعین بھی فوجی عہدیدار تھے۔ پاکستانی فوج کے سربراہ راحیل شریف اور آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل ظہیر الاسلام کی موجودگی میں نواز شریف نے تلخ حقیقت کا اعتراف کیا۔ عام طور پر یہ تاثر ہے کہ پاکستانی حکومت پر فوج کا کنٹرول ہوتا ہے، اس کے باوجود نواز شریف نے ہندوستان سے تعلقات کی استواری کے سلسلہ میں دلچسپی ظاہر کی۔ مبصرین کے مطابق ایسے نازک وقت میں جبکہ نواز شریف اپنی حکومت کی بقاء کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ ہندوستان کو چاہئے کہ وہ ان کے ہاتھ مضبوط کریں یا کم از کم ایسی بات نہ کہیں جس سے نواز شریف کا موقف کمزور ہو اور ان کے مخالفین کو یہ کہنے کا موقع مل جائے کہ وہ یکطرفہ طور پر ہندوستان کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں۔

اب جبکہ 25 اگست کو معتمدین خارجہ کی سطح پر مذاکرات ہونے والے ہیں، اس سے عین قبل اس طرح کی چھیڑ تعلقات میں بہتری کے بجائے کشیدگی میں اضافہ کا سبب بن سکتی ہے۔ جہاں تک جنگ بندی کی خلاف ورزی ، در اندازی اور دہشت گرد سرگرمیوں کا تعلق ہے ، یہ کوئی نئی بات نہیں۔ گزشتہ 68 سال میں دو جنگیں اور پھر کارگل کی لڑائی ہوئی لیکن ان مسائل کا حل جنگ نہیں بلکہ مذاکرات اور صرف مذاکرات ہیں۔ نریندر مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد سے پاکستان کی جانب سے اب تک سرحد پر جنگ بندی کی 19 مرتبہ خلاف ورزی کی گئی۔ پاکستان خود بھی دہشت گرد سرگرمیوں کا شکار ہے اور بعض تنظیمیں حکومت کے کنٹرول میں نہیں، ایسے وقت پاکستانی حکومت کو اعتماد میں لئے بغیر دہشت گرد اور دراندازی جیسے واقعات سے نمٹا نہیں جاسکتا۔ دونوں ممالک اور عوام کے مسائل مشترک ہیں اور دونوں کے عوام کی اکثریت غربت کا شکار ہے لہذا ترقی اور عوامی بھلائی اسی میں ہے کہ مذاکرات سے مسائل کا حل تلاش کیا جائے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم نے لال قلعہ سے اپنے خطاب میں پاکستان کو غربت کے خلاف لڑائی کی دعوت دی۔ معراج فیض آبادی نے اپنے اس دعائیہ شعر کے ذریعہ امید وابستہ کی ہے۔
محبت ، پیار ، رشتے ، بھائی چارہ
ہمارے دل کو ہندوستان کردے