رشیدالدین
جموں و کشمیر میں اقتدار کیلئے بنیادی اصولوں پر سمجھوتہ کرنے والی بی جے پی کیلئے پی ڈی پی سے اتحاد اور مخلوط حکومت کا قیام نہ صرف مہنگا ثابت ہوا بلکہ یہ اتحاد بی جے پی کی گلے کے ہڈی بن چکا ہے۔ حکومت کے قیام کے دن سے تنازعات کا آغاز ہوگیا جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ مختلف حساس امور پر پی ڈی پی سے اختلافات دن بہ دن شدت اختیار کر رہے ہیں ۔ بسا اوقات تو اتحاد ٹوٹنے کے اندیشے پیدا ہوگئے اور سیاسی مبصرین نے مفتی محمد سعید حکومت کی الٹی گنتی کا بھی آغاز کردیا تھا لیکن اتحاد کو توڑنا بی جے پی کیلئے آسان نہیں۔ ملک کی واحد مسلم اکثریتی ریاست پر پرچم لہرانے کے خواب نے بی جے پی کو اس منزل پر لا کھڑا کیا ہے جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا۔ ظاہر ہے کہ اقتدار چیز ہی ایسی ہے کہ جس کی حرص اور طمع کسی بھی حد تک پہنچا دیتی ہے۔ اقتدار کے آگے اصولوں اور پالیسی کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ کچھ یہی حال کشمیر میں بی جے پی کا ہے۔ بی جے پی یہ طئے کرنے کے موقف میں نہیں کہ اتحاد برقرار رکھے یا پھر علحدگی اختیار کرلے۔ دونوں صورتوں میں رسوائی اس کا مقدر بن چکی ہے۔ کشمیر میں سخت گیر علحدگی پسند قائد سید علی شاہ گیلانی کی ریالی میں پاکستانی پرچم لہرانا اور موافق پاکستان نعرے بازی نے بی جے پی کی مشکلات میں اضافہ کردیا ہے۔ سید علی شاہ گیلانی اور حال ہی میں رہا کئے گئے مسرت عالم کے حامیوں کی اس حرکت پر بی جے پی بھڑک اٹھی اور مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے مفتی محمد سعید سے ربط قائم کرتے ہوئے کارروائی کی صلاح دی۔ بی جے پی کی جانب سے اس مسئلہ کو سیاسی رنگ دینا دراصل اس کی مجبوری ہے کیونکہ اسے ملک بھر میں ’’زعفرانی ووٹ بینک‘‘ کو بچانا ہے۔ کشمیر میں اقتدار کیلئے بی جے پی نے جب سے سمجھوتہ کیا، تب سے اس کے ووٹ بینک پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں،
جس کا بی جے پی قیادت کو شدت سے احساس ہے۔ بی جے پی کو جموں میں کامیابی کا زعم ہے تو پی ڈی پی کو وادی کے رائے دہندوں کے جذبات کا احترام کرنا ہے۔ پی ڈی پی کے رہنما اور چیف منسٹر مفتی محمد سعید ایک جہاں دیدہ اور منجھے ہوئے سیاستداں ہیں اور وہ بی جے پی کے دباؤ کی پرواہ کئے بغیر آگے بڑھ رہے ہیں۔ اگر وہ دباؤ کو قبول کرنے والے ہوتے تو حکومت کے پہلے ہی دن پرامن انتخابات کیلئے پاکستان اور عسکری تنظیموں کی ستائش نہ کرتے اور نہ ہی مسرت عالم کو رہا کیا جاتا۔ مفتی سعید نے بی جے پی کو جیسے دھرم سنکٹ میں ڈال دیا ہے، جہاں تک وقفہ وقفہ سے جموں و کشمیر حکومت کے اقدامات کے خلاف بی جے پی کی ناراضگی کا معاملہ ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سید علی شاہ گیلانی کو ریالی کی اجازت کس طرح دی گئی جبکہ بی جے پی حکومت میں شامل ہے۔ اس طرح ریالی کی اجازت کیلئے بی جے پی بھی برابر کی ذمہ دار ہوئی۔ دوسری بات یہ کہ ریالی کے مقام پر موجود پولیس نے پاکستانی پرچم لہرانے اور مخالف ہندوستان نعرے لگانے والوں کو گرفتار کیوں نہیں کیا؟ سب کچھ گزرنے کے بعد اپنے ووٹ بینک کے خاطر مسئلہ کو سیاسی رنگ دینا افسوسناک ہے۔ کشمیر میں پاکستانی پرچم اور موافق پاکستانی نعرے پہلی مرتبہ نہیں ہیں۔ خود ایک اعلیٰ عہدیدار نے تسلیم کیا کہ 1947 ء سے اس طرح کے واقعات کا سلسلہ جاری ہے۔ اس طرح کے واقعات کے باوجود سابقہ حکومتوں نے بحالی اعتماد اقدامات اور قیام امن کی کوششوں کو جاری رکھا۔ بی جے پی کی دباؤ کے تحت قائدین کے خلاف نہ صرف مقدمہ درج کیا گیا بلکہ مسرت عالم کو گرفتار کرلیا گیا۔ دراصل مسرت عالم جموں و کشمیر حکومت کے لئے آسان نشانہ ہے اور ان کی گرفتاری کے ذریعہ بی جے پی کو مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یوں تو مقدمہ سید علی شاہ گیلانی پر بھی درج کیا گیا لیکن ان کی گرفتاری آسان نہیں۔
مسرت عالم نے نہ صرف پاکستانی پرچم لہرانے کی تردید کی بلکہ بعض قومی میڈیا نے عینی شاہدین کے حوالے سے لکھا کہ مسرت عالم نے کوئی پرچم نہیں لہرایا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بی جے پی مسرت عالم کے نام پر یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ جموں و کشمیر حکومت پر اس کا کنٹرول ہے۔ مسرت عالم کی گرفتاری کے ذریعہ بی جے پی نے کشمیر میں ایک غیر معروف شخص کو عوامی ہیرو بنانے کا کام کیا ہے۔ گرفتاری کے بعد یقینی طور پر مسرت عالم علحدگی پسند گروپ میں صف اول کے قائدین میں نظر آئیں گے۔ بی جے پی کو چاہئے تھا کہ وہ اس واقعہ کو نظر انداز کرتے ہوئے وادی میں عوام کا اعتماد جیتنے میں حکومت سے تعاون کرتی کیونکہ کسی بھی واقعہ پر بیجا ردعمل کے اظہار سے صورتحال سدھرنے کے بجائے مزید بگڑسکتی ہے۔ حکمرانوں کو اس بات کا جائزہ لینا ہوگا کہ آخر کشمیری عوام کا دل جیتنے اور ان کا اعتماد بحال کرنے میں کیا کمی یا کوتاہی رہ گئی کہ عوام پڑوسی ملک کے حق میں نعرے لگا رہے ہیں۔ اگر چند جذباتی نوجوانوں نے یہ حرکت کی تھی تو اسے اچھال کر سارے کشمیریوں کو ملک دشمن ثابت کرنے کی کوشش درست نہیں ہے۔ حکمرانوں کو کشمیر اور کشمیری عوام کے بارے میں اپنی سوچ بدلنی پڑے گی ۔ اذبیت اور جانبداری کی عینک اتار کر کشمیریوں کو ملک کے دیگر شہریوں کے مساوی عصبیت دی جانی چاہئے ۔ افسوس کہ آج تک مرکزی حکومت نے کشمیریوں کا دل جیتنے کی باتیں تو بہت کیں لیکن ان پر عمل نہیں کیا۔ کسی نے کشمیریوں کے دکھ درد کو جاننے کی کوشش نہیں کی۔ کشمیر کے نام کے ساتھ ہی ان پر عسکریت پسند ، علحدگی پسند یا موافق پاکستان کا لیبل لگادیا گیا ۔ جب اپنے ملک میں ہی کوئی اجنبی بن جائے تو پھر سسٹم سے اس کی ناراضگی فطری ہے۔ جہاں تک مسئلہ کشمیر کا سوال ہے ، اقوام متحدہ کی قرارداد کی روشنی میں یہ متنازعہ مسئلہ ہے۔ اقوام متحدہ نے استصواب عامہ کے حق میں قرارداد منظور کی تھی جس پر عمل نہیں کیا گیا۔ وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ ہندوستانی سر زمین پر پاکستانی پرچم برداشت نہیں کیا جائے گا۔ وزیر داخلہ کیا اس بات سے واقف نہیں کہ دہلی میں واقع پاکستانی ہائی کمیشن میں قومی دنوں کے موقع پر پاکستانی پرچم لہرایا جاتا ہے ۔ حال ہی میں پاکستانی ہائی کمیشن نے قیام پاکستان قرارداد کی یاد میں تقریب منعقد کی تھی۔ یقیناً اس موقع پر بھی پاکستانی پرچم لہرایا گیا ۔ اس تقریب میں علحدگی پسند قائدین یسین ملک ، سید علی شاہ گیلانی ، حریت کانفرنس کے قائدین کے علاوہ مملکتی وزیر خارجہ جنرل وی کے سنگھ نے بھی شرکت کی تھی ۔
اس وقت مرکز کو حب الوطنی کا خیال کیوں نہیں آیا۔ کشمیر کے چند نوجوانوں کی حرکت پر بھڑکنے والے قائدین بیرونی ممالک میں ہندوستانیوں سے خطاب کے دوران وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے ہندوستان کے حق میں نعرہ بازی کو کیا کہیں گے۔ کیا مودی اور تمام ہندوستانی افراد کے خلاف بھی بیرون ملک مقدمہ درج ہونا چاہئے ؟ کشمیری عوام کی سرگرمیوں سے ناراض اور پی ڈی پی حکومت پر نرم رویہ اختیار کرنے کا نظام عائد کرنے والی بی جے پی اگر ہمت ہو تو حکومت سے علحدگی اختیار کر کے دکھائے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ کشمیر میں جاری سیاسی کھیل کے اسکرپٹ رائٹر امریکی صدر براک اوباما ہیں جو دونوں ممالک کے درمیان مسئلہ کشمیر کا مستقل حل تلاش کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ کشمیر کے مسئلہ پر جاری کشیدگی کو ختم کرتے ہوئے وہ دونوں ممالک سے اپنے مفادات کی تکمیل کے خواہاں ہیں۔ اس منصوبہ کے تحت حقیقی خطہ قبضہ کو بین الاقوامی سرحد کے طور پر قبول کرنے کے لئے دونوں ممالک کو راضی کیا جاسکتا ہے۔ اوباما کے دورہ ہند سے ان سرگرمیوں کا آغاز ہوا تھا ۔ کشمیر میں جاری تبدیلیاں اور اس پر پاکستان کا ردعمل دراصل اسی گیم پلان کا حصہ ہے۔ کشمیر کے ایک اہم فریق نیشنل کانفرنس نے اس تجویز کی پہلے ہی تائید کردی ہے۔
جنتا پریوار کے اتحاد اور کانگریس کے یوراج راہول گاندھی کی گھر واپسی نے بھی بی جے پی حلقوں میں ہلچل پیدا کردی ہے۔ ایسے وقت جبکہ بہار میں بہت جلد مودی اور بی جے پی کی مقبولیت کا امتحان ہوگا، ایسے میں بہار کی مضبوط قیادتوں کا اتحاد یقیناً بی جے پی کیلئے بُری خبر ہے۔ سوشلسٹ بیاک گراؤنڈ سے تعلق رکھنے والے قائدین نتیش کمار ، ملائم سنگھ ، لالو پرساد یادو اور ایچ ڈی دیوے گوڑا نے اپنی جماعتوں کو ضم کرتے ہوئے نئی پارٹی کی تشکیل کا فیصلہ کیا ہے۔ جنتا دل یونائٹیڈ ، سماج وادی ، آر جے ڈی ، جنتا دل سیکولر ، انڈین نیشنل لوک دل اور سماج وادی جنتا پارٹی کو ضم کرتے ہوئے نئی پارٹی تشکیل دی جائے گی ۔ اس اتحاد کا اثر یقینی طور پر بہار ، اترپردیش اور ہریانہ میں بی جے پی کے امکانات پر پڑسکتا ہے بی جے پی کی بوکھلاہٹ کا اندازہ امیت شاہ کے تبصروں سے ہوتا ہے جس میں انہوں نے اس اتحاد کو جنتا کے بغیر صرف پریواروں کا اتحاد قرار دیا تھا۔ جنتا پریوار کے اتحاد سے بہار میں جاریہ سال کے اختتام پر ہونے والے اسمبلی چناؤ میں بی جے پی کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے جس طرح دہلی میں عام آدمی پارٹی نے بی جے پی کے قلعہ کو مسمار کیا اسی طرح بہار میں اسمبلی نتائج حالیہ لوک سبھا نتائج کے برعکس ہوں گے ۔ بی جے پی کو بھولنا نہیں چاہئے کہ وہ صرف 31 فیصد ووٹ کے ساتھ ملک میں برسر اقتدار آئی ہے اور ایک سال کی کارکردگی سے عوام مایوس ہیں اور حکومت کا گراف اب گھٹنے لگا ہے۔
سیکولر جماعتوں کا اتحاد یقیناً ملک کے لئے خوش آئند اور وقت کی اہم ضرورت ہے۔ مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس بھی اس اتحاد میں شمولیت کے ذریعہ بی جے پی کے بڑھتے قدم روک سکتی ہے۔ بائیں بازو جماعتوں اور کانگریس پارٹی کو بھی ملک میں سیکولر جماعتوں کے اتحاد میں تعاون کرنا ہوگا۔ اس طرح ریاستوں میں بی جے پی کو روکا جاسکتا ہے۔ 2017 ء کے اترپردیش اسمبلی انتخابات اور جاریہ سال بہار کے اسمبلی چناؤ یقینی طور پر منی لوک سبھا الیکشن کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کانگریس کے یوراج راہول گاندھی 56 دن کے آرام اور چنتن کے بعد دہلی واپس ہوگئے۔ وہ کسانوں کی ریالی میں شرکت سے اپنے مظاہرہ کا آغاز کریں گے۔ راہول گاندھی کے آرام کو بی جے پی نے تنقید کا نشانہ بنایا اور کانگریس کی کمزوری ثابت کرنے کی کوشش کی جبکہ ہر شخص کو اپنی انفرادی زندگی اور پارٹی کے بارے میں فیصلوں حتیٰ کہ آرام کا حق حاصل ہے۔ اگر راہول گاندھی نے آرام کے مقام کو راز میں رکھا تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔ کانگریس کی قیادت کیلئے اندرا۔راجیو خاندان کے علاوہ کوئی متبادل نہیں اور اس خاندان کو پارٹی کی قیادت کا حق اس لئے بھی حاصل ہے کہ نہرو سے لیکر راجیو گاندھی تک اس خاندان نے ملک کیلئے کئی قربانیاں دی ہیں۔ کانگریس میں راہول گاندھی کو قیادت سونپنے کی قیاس آرائیاں زوروں پر ہیں، اگر ایسا ہوتا ہے تو یقینی طور پر راہول گاندھی ایک کامیاب قائد کے طور پر ابھرسکتے ہیں۔ جب ذمہ داریوں کا بوجھ پڑتا ہے تو انسان میں تجربہ از خود حالات سے نمٹنے کی ہمت پیدا کرتا ہے۔عوام کو بھی راہول گاندھی سے کئی توقعات ہیں۔ کشمیر کی صورتحال پر شہود آفاقی نے کچھ اس طرح تبصرہ کیا ہے ؎
ہمارے اشک برسانے پہ لوگوں کو شکایت ہے
مگر رونے کی ہے کیا وجہ یہ پوچھا نہیں کر تے
rasheeduddin@hotmail.com