رام پنیانی
آج کل ہمارے ملک میں ہندو ہندوتوا اور ہندوازم کے بارے میں کافی کچھ کہا جارہا ہے۔ لفظ ہندو، ہندوازم اور ہندوتوا پر مباحث کوئی نئی بات نہیں ہے۔ حال ہی میں آر ایس ایس سرسنچالک (مطلق العنان سربراہ اعلیٰ) موہن بھاگوت نے ایک بیان دیا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ ہندوستان میں رہنے والا ہر شہری ہندو ہے اور مسلمان اپنے مذہب کے لحاظ سے مسلم ہوسکتے ہیں لیکن قومیت کے اعتبار سے وہ ہندو ہیں۔ آر ایس ایس سرسنچالک کا یہ تازہ بیان لفظ ہندو کی ایک اور نئی تشریح ہے۔ موہن بھاگوت نے ہندوستان میں رہنے والے ہر شخص کو ہندو کہنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ یہ بھی کہاکہ یہ ہندوستان ہے اور اس لئے یہاں رہنے والے تمام ہندو ہیں۔ ان کا مطلب ہندو ایک قومیت ہے۔ ایسے میں ہمیں آج کے تناظر میں قومیت اور ہندوستان دونوں کا ہندوستانی دستور کے سنقطہ نظرسے جائزہ لینا چاہئے۔ موہن بھاگوت جہاں ہر ہندوستانی کو ہندو قرار دیتے ہیں، وہیں یہ بھی کہتے ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں کے طریقہ عبادت میں تبدیلی آئی ہوگی لیکن ان کی قومیت ہنوز ہندو ہے۔ آپ کو یاد دلادیں کہ تقریباً 20 برس قبل جب مرلی منوہر جوشی بی جے پی کے عہدہ صدارت پر فائز تھے تب انھوں نے کہا تھا کہ ہم سب ہندو ہیں۔ مسلمان احمدیہ ہندو، عیسائی کرسٹی ہندو ہیں۔ یہ بیانات دراصل آر ایس ایس کی نئی ضابطہ بندی کا ایک حصہ ہے جو آر ایس ایس نظریہ کے ساتھ ساتھ چلتی اور بدلتی رہتی۔ اس مسئلہ پر ماضی میں آر ایس ایس کے نظریات مختلف تھے۔ اب ان کی موجودہ ضابطہ بندی لفظ ہندوازم کے بارے میں پیدا شدہ اُلجھن کی بنیاد پر ہے جس نے آر ایس ایس نظریہ سازوں کو یہ کہنے پر مجبور کردیا کہ چونکہ یہ ملک ہندوستان ہے ایسے میں یہاں رہنے والے تمام لوگ ہندو ہیں۔ چونکہ کئی الفاظ کا استعمال تاریخی لحاظ سے بدلتا رہا ہے ایسے میں موجودہ تناظر میں لفظ ہندو کے ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ لفظ ہندو ہندوؤں کی کسی بھی مقدس کتاب میں نہیں ہے بلکہ لفظ ’’ہندو‘‘ مغربی ایشیائی ملکوں سے آنے والوں کی ذہنی اختراع ہے یعنی ’’ہندو‘‘ کی اصطلاح مغربی ایشیاء سے آنے والوں نے متعارف کروائی۔ ان لوگوں نے اس سرزمین کی دریائے سندھ یا سندھو کے نام سے نشاندہی کی۔ ان لوگوں نے حرف (لفظ سندھو) کے برعکس اکثر و بیشتر حرف (ایچ) (لفظ ہندو) استعمال کیا۔ اس طرح سندھو ہندو ہوگیا اور اس طرح لفظ ہندو جغرافیائی زمرہ کی حیثیت سے استعمال ہونا شروع ہوگیا۔ لفظ ہندو دیکھتے دیکھتے ہندوستان کی شکل اختیار کر گیا جو دریائے سندھ کے مشرق کی سرزمین بھی ہے۔ دنیا کے اس حصہ میں بے شمار مذاہب نے جنم لیا اور کئی مذاہب اس کا حصہ بنے لیکن اسلام اور عیسائیت کی طرح ہندوازم میں کسی پیغمبر کا تصور نہیں بلکہ اس کی روایات مقامی سطح سے اخذ کردہ ہیں۔ دریائے سندھو کے مشرقی حصہ میں چونکہ مختلف مذاہب کے ماننے والے رہے ہیں ان حالات میں یہاں پائے جانے والے مختلف مذاہب کے گروپ کے لئے لفظ ہندو کا استعمال ہونے لگا۔ اگر دیکھا جائے تو ہندوازم کے اندر ہی دو بڑی روایات ہیں ایک برہمن اور شمانک روایات ان میں برہمنی روایات کو برتری حاصل ہے جبکہ شمانی روایات میں ناتھ، تانترا، بھکتی، شائیوا اور سدھانتا شامل ہیں لیکن نوآبادیاتی دور کے دوران ہندوستان کی شناخت کی تعمیر برہمنی قواعد کے مطابق عمل میں آئی۔ میں پھر ایک بار آپ کو بتاتا ہوں کہ ہمارے علاقہ کی تاریخی شناخت کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ جغرافیائی علاقہ سے اس کا تعلق ہے۔ ہند ۔ ہندو یہ اُلجھن اس حقیقت کے باعث بھی ہے کہ یہی لفظ ’ہندو‘ ابتداء میں ’علاقہ‘ اور پھر مذہبی روایات کے لئے استعمال ہوا آج کے دور میں لفظ ہندوازم مناسب نہیں ہے۔ دستور ہند اور عالمی سطح پر جس حیثیت سے ہمیں تسلیم کیا گیا ہے اس کے مطابق ہم انڈیا ہے ہندوستان نہیں یعنی دستور ہند میں اور عالمی سطح پر ہمارے ملک کو انڈیا کہا گیا ہے ہندوستان نہیں۔ انڈیا دراصل بھارت کے عین مطابق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا دستور ہمارے ملک کو ’’انڈیا‘‘ کہتا ہے۔ ایسے میں اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہماری قومیت کیا ہے؟ آیا یہ انڈین ہے یا ہندو؟ جب انڈیا ایک ملک ایک قوم بن رہا تھا یا بن رہی تھی آر ایس ایس نے اس عمل کا حصہ بننے سے انکار کردیا تھا وہ (آر ایس ایس) تحریک آزادی یا جدوجہد آزادی کا حصہ بھی نہیں رہی بلکہ آر ایس ایس کی سیاست نظریہ انڈیا یا تصور انڈیا کی مخالفت کے لئے منظر عام پر آئی جبکہ انڈیا کا تصور سماج کے ترقی پسند اور جدیدیت کے دلدادہ گوشہ نے پیش کیا جو صنعت کاروں، ورکروں اور عصری علوم سے آراستہ شخصیتوں پر مشتمل تھا۔ یہ تصور دراصل خواتین اور دلتوں کی خواہشات ان کی تمناؤں اور اُمنگوں سے مربوط اور متوازی رہا۔ یہاں یہ دیکھنا سب سے اہم ہے کہ ہندوستان آزادی مساوات، اُخوت یا بھائی چارگی کی حمایت کرتا ہے اور ہندو قوم جدیدیت کی آڑ میں ماقبل جدید اقدار کی حمایت میں کھڑی رہتی ہے۔ انڈیا میں ایک دستور ہے جو تنوع اور کثرت میں وحدت یعنی تکثیریت کو تسلیم کرتا ہے جبکہ ہندو قوم ماضی کی تصوراتی شان و شوکت کی بانسری بجاتی ہے جو سماجی قوانین کے سب سے اہم پہلو ذات پات اور صنف کے امتیازات کی بنیاد پر ہے جو پیدائش کے ساتھ ہی شہریوں کا تعاقب کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آر ایس ایس نظریہ ساز اور اس نظریہ کو پسند کرنے والے دستور ہند سے متنفر ہوتے ہیں اور ہمیشہ اپنی مقدس کتب مثال کے طور پر مانوسمریتی کو عصر حاضر کے لئے ضابطہ اخلاق کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ان حالات میں مسلمانوں اور عیسائی جیسی مذہبی اقلیتوں کے بارے میں کیا کہا جائے گا، کیا مسلمان اور عیسائی ہندو ہیں؟ ہندوتوا آئیڈیالوجی کے بانی ونائک دامودر ساورکر کے مطابق ہندو وہ ہیں جو سندھو (سندھ) سے سمندروں تک کی اس سرزمین کو اپنے باپ کی زمین اور مقدس زمین تصور کرے۔ انھوں نے ہندوؤں سے متعلق اپنی تشریح میں واضح طور پر کہا ہے کہ عیسائیوں اور مسلمانوں کو ہندو نہیں کہا جائے گا۔ ان کے مطابق مسلمان اور عیسائی مختلف قومیتوں کے حامل ہیں۔ دوسری جانب ہندوتوا کے دوسرے بڑے نظریہ ساز گولوالکر بھی ان ہی خطوط کو اپناتے ہیں۔ انھوں نے اپنی کتاب Bunch of thoughts میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے بارے میں لب کشائی کرتے ہوئے دونوں مذاہب کے ماننے والوں کو ’’ہندو قوم‘‘ کے لئے خطرہ سمجھا ہے لیکن سیاسی طاقت حاصل کرنے کے بعد آر ایس ایس ایک طرح سے اپنے بانیوں کے نظریات سے پہلوتہی کرتے ہوئے عیسائی اور مسلم اقلیت پر ہندو قواعد و ضوابط اور ضابطہ نافذ کرنے کی خواہاں ہے جس کے باعث ہی یہ بیانات دیئے جارہے ہیں کہ وہ کچھ بھی ہوسکتے ہیں لیکن ان کی قومیت ہندو ہے۔ ہمارے دستور کے مطابق ہماری قومیت انڈین ہے۔ اس لئے آر ایس ایس آئیڈیالوجی اور گاندھی، نہرو، امبیڈکر اور دوسرے بے شمار قائدین کے نظریات میں تضاد پایا جاتا ہے۔ گاندھی اور دوسرے قائدین نے ہندوستانی قوم پرستی کی حمایت کی کیوں کہ دستور ہند کا پیام انصاف و مساوات مانوسمرتی میں پیدائشی طور پر انسانوں کے ساتھ کی جانے والی ناانصاف کے متضاد ہے۔