ظفر آغا
گزشتہ چند دنوں سے ہندوستان میں محض ایک نام ہے جو چہار سو گونج رہا ہے اور وہ نام ہے سلمان خان۔ ٹی وی کھولو تو سلمان خان، اخبار اُٹھاؤ تو سلمان خان، گھر میں کھانے کی میز پر بیٹھو تو سلمان خان، دفتر میں ساتھیوں سے گفتگو کرو تو سلمان خان اور چائے خانہ یا کسی ریسٹورنٹ میں وقت کاٹنے جاؤ تو بھی سلمان خان۔ الغرض ان دنوں سلمان خان ہندوستان کے دل و دماغ پر چھائے ہوئے ہیں۔ جسے دیکھو ’ سلمان بھائی ‘ کے لئے دعاء گو ہے اور ہر ایک کے دل میں سلمان بھائی کیلئے ہمدردی ہے گویا سلمان بھائی نہ ہوئے بلکہ بھگوان ہوگئے۔
سلمان، سلمان کا شور کیوں َ آپ واقف ہی ہیں کہ یہ اس لئے نہیں ہے کہ سلمان بھائی کوئی آسمان سے ستارے توڑ کر لے آئے ہیں۔ یہ شور اس وجہ سے ہے کہ سلمان بھائی کو قتل کے الزام میں سیشن کورٹ نے پانچ سال کی سزاء سنائی ہے۔ یعنی سلمان بھائی پر قتل کا الزام تھا جو تحت کی عدالت سے ثابت ہوگیا اور سلمان بھائی اب مجرم قرار دے دیئے گئے ہیں اور اُن کے جرم کی سزا پانچ سال مقرر ہوگئی۔ لیکن ہندوستانی عوام ہیں کہ یہ شور کررہے ہیں کہ سلمان بھائی کو رہا کرو ، سلمان بھائی کو جیل مت بھیجو۔
بھائی یہ کیسا قاتل ہے کہ جس کے لئے ہر ہاتھ دست بہ دعاء ہے۔ کم از کم ہم کو تو نہیں یادپڑتا کہ ہندوستان میں سلمان سے قبل کوئی اور قاتل اس قدرشہرت پارہا ہو۔ آخر کیا سبب ہے کہ کم و بیش سارا ہندوستان سلمان کی رہائی کا متمنی ہے۔ کچھ بھی نہیں، بات محض اتنی ہے کہ سلمان خان ایک مشہو ر فلم ایکٹر ہیں اور ان کی فلمیں 100کروڑ روپئے سے کم کمائی نہیں کرتیں۔ وہ ایک خوبرو اداکار ہیں اور ان کے پاس سینکڑوں کروڑ کی دولت ہے۔ اس کے برخلاف جو شخص سلمان بھائی کی کار سے کچل کر مرا تھا وہ ایک معمولی انسان تھا اور وہ سڑک کے کنارے دن بھر کی محنت مشقت کے بعد سورہا تھا ۔ ہر روز کی طرح اس روز جس روز سلمان کے ہاتھوں اس کی قضاء آئی تھی ، وہ دن بھر کی محنت کے بعد سڑک کے کنارے سورہا تھا ۔سلمان خان دن بھر شوٹنگ وغیرہ کرکے غالباً کسی بار میں موج مستی منانے کے لئے گئے ہوں گے، وہاں انہوں نے کتنے پیاک لگائے یہ تو نہیں معلوم لیکن بقول عدالت وہ نشہ کی حالت میں تیز رفتار گاڑی چلارہے تھے۔ گاڑی اس قدر تیز تھی کہ سلمان بہک گئے اور گاڑی فٹ پاتھ پر چڑھ گئی اور بے چارہ غریب انسان سلمان خان کی کار سے کچلا گیا اور ہاسپٹل پہونچنے سے پہلے ہی وہ جانبر نہ ہوسکا۔
اب ذرایہ بتایئے کہ اس پورے واقعہ میں ایک انصاف پسند شخص کی ہمدردی کس کے ساتھ ہونی چاہیئے۔ ایک ایسے شخص کے ساتھ جو شراب کے نشہ میں دھت گاڑی چلاتے ہوئے اس قدر بہک جائے کہ وہ ایک محو خواب شخص کو اپنی کار سے کچل کر موت کے گھاٹ اُتار دے، یا پھر آپ ہمدردی اس غریب شخص کے ساتھ کریں گے جو اپنی بیوی اور چھوٹے بچے کا پیٹ پالنے کیلئے دن بھر محنت مزدوری کرنے کے بعد فٹ پاتھ پر گہری نیند سورہا ہو اور حالت نیند میں اسے ایک شرابی اسے اپنی کار سے کچل کرماردے۔ اس واقعہ میں ہمدردی تو اس شخص سے ہونی چاہیئے جو بے گناہ مارا گیا ، لیکن اس معاملہ میں تو گنگا اُلٹی بہہ رہی ہے اور وہ غریب جو کچل کر مارا گیا اس کے لئے تو آنسو بہانے والا کوئی نہیں جبکہ ایک معصوم شخص کو جس نے اپنی کار سے روند دیا ہو اس کے لئے سارا ہندوستان آنسوؤں کے دریا بہارہا ہے جبکہ جس نے ایک معصوم کو کچل کر ماردیا ہو اس کے لئے کوئی آنسو بہانے والا نہیں۔ وجہ صرف اتنی ہے کہ وہ ایک مشہور ایکٹر ہے اور کافی دولت کا مالک ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ قاتل ہیرو بن جائے اور مارے جانے والے شخص کی بیوہ گھر گھر نوکری کرکے بچے کو پالے اور جب اس کے شوہر کے مبینہ قاتل کو سزا ہو تو وہ بے چاری ہر کسی کو ویلن نظر آئے۔
یہ ہے ایکسویں صدی کا ہندستان، جہاں اب دھن دولت اور شہرت کی پوجا ہوتی ہے اور اس ہندوستان میں دولتمند اور مشہور شخص قتل بھی کردے تو وہ ہیرو ہی رہے گااور غریب کو کوئی دولت مند اپنی کار سے کچل کر ماردے تو لوگ یہی کہیں گے کہ بھائی غلطی اُس شخص کی ہے جو فٹ پاتھ پر سورہا تھا۔ جی ہاں، بدل گیا ہے آج کا ہندوستان۔ آخر قاتل ہیرو اور مقتول ویلن کیوں بن رہا ہے۔اب اس ہندوستان میں جس میں ہم جی رہے ہیں اس ہندوستان میں مارکٹ اکانومی کا چلن ہے، آخر یہ مارکٹ اکانومی کیا ہے؟ مارکٹ اکانومی کچھ اور نہیں بلکہ اس معاشی نظام کے تحت ہر شہ کی قیمت اور بھاؤ مارکٹ یعنی بازار طئے کرتا ہے اور ممبئی کے بازار میں سلمان خان کا بھاؤ سینکڑوں کروڑ ہے جبکہ سلمان خان کی کار سے کچل کر مرنے والے شخص کی جان کی قیمت بازار میں دو ٹکا بھی نہیں تھی کیونکہ اگر وہ کل کام کو نہیں پہنچتا تو بازار اس کے لئے انتظار نہیں کرتا۔ لیکن اگر سلمان بھائی ایک روز بھی کام پر نہیں پہونچے تو فلم بنانے والوں کودن بھر میں کروڑوں کا نقصان ہوجائے گا۔ ظاہر ہے کہ بازار سلمان خان کو جیل جانے سے روکے گا یا پھر کسی معصوم کے کچل جانے پر افسوس کے آنسو بہائے گا۔؟
آج کے بازار میں سلمان خان ہزاروں کروڑ کا انسان ہے، اگر کل کے دن اس کی فلم بننے سے رُک جائے تو بازار میں سینکڑوں کروڑڈوب جائیں گے۔ اس لئے بازار کی ضرورت یہی ہے کہ کسی بھی طرح سے ممکن ہو سلمان خان کو بچایا جائے۔ اب یہ کام کیسے ہوا کیونکہ سلمان بھائی کی کار سے ایک شخص کچلا تو گیا ہے۔ اب سلمان بھائی کو بازار بچائے تو کیسے؟۔ اس کیلئیصرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ ہے کہ ہندوستان بھر میں سلمان کیلئے ہمدردی کا ایسا سمندر پیدا کردیا جائے کہ جج بھی دباؤ میں آکر سلمان بھائی کو رہاکردیں، لیکن یہ کام کرے تو کون کرے؟ یہ کام کوئی اور نہیں صرف میڈیا ہی کرسکتا ہے اور وہ بھی ٹی وی ، لیکن ٹی وی اور میڈیا کا کام تو حق اور انصاف کی آواز بلند کرنا ہے۔ لیکن صاحب ! کس دنیا میں جی رہے ہیں آپ، آج ٹی وی بھی بازار ہی کا حصہ ہے کیونکہ ایک چینل کو چلانے کیلئے ہزاروں کروڑ کی دولت درکار ہوتی ہے اوریہ دولت کہیں اور سے نہیں بلکہ بازار ( مارکٹ ) سے ہی آتی ہے۔ اب آپ ہی بتایئے کہ ٹی وی دولت والے کا ڈنکا بجائے گا یا پھر ایک معصوم مزدور کی موت پر آنسو بہائے گا۔؟
جی ہاں! اب آپ کی سمجھ میں آیا کہ ان دنوں ہر طرف سلمان، سلمان کا شور مچا ہوا کیوں ہے۔ یہ بھی صحیح ہے کہ سلمان بھائی سے کسی کو حقیقی ہمدردی بھی نہیں ہے ، ہمدردی تو ان سینکڑوں کروڑ کی دولت سے ہے جو سلمان بھائی اپنی فلموں کے ذریعہ مارکٹ کو دیتا ہے۔ اگر سلمان بھائی جیل چلا گیا تو مارکٹ میں سینکڑوں کروڑ ڈوب جائیں گے۔ اس لئے سلمان کو بچاؤ اور سلمان کو بچانے کیلئے ٹی وی اور میڈیا کے ذریعہ شور مچاؤ تاکہ جج دباؤ میں آجائیں اور سلمان بھائی عدالت سے بچ جائیں۔آج کی مارکٹ کے اس دورمیں حق و انصاف کی بات کم اور دولت کی بات زیادہ چلتی ہے۔ وہ میڈیا ہو یا پھرکوئی دوسرا شعبہ۔ اب ہر جگہ مارکٹ یعنی دولت سرچڑھ کر بولتی ہے۔ عام آدمی کسی رئیس کی کار سے کچل کر مرجائے تو مرا کرے اس کی فکر کس کو ہے؟۔ دولت تو سلمان بھائی کے پاس ہے اور ان کی فلموں سے مارکٹ بھی کروڑوں کی تجارت کرتی ہے، اس لئے مارکٹ کے اشاروں پر ناچنے والے میڈیا کو ہر حالت میں سلمان کے لئے ہمدردی پیدا کرنے کا کھیل کرنا ہے، اور یہ کھیل تب ہی کامیاب ہوگا جب 24گھنٹے سلمان ،سلمان کا شور ہو، اور ان دنوں یہی کھیل جاری ہے۔
فطرت انسانی توآخر فطرت انسانی ہے کیونکہ اسے مارکٹ نے نہیں بلکہ قدرت نے بنائی ہے۔ اس لئے شاید آج بھی کچھ افراد ایسے ہوتے ہیں جو مارکٹ کے اشارے پر ناچنے کے بجائے فطرت انسانی یعنی ضمیر کی آواز سن کر حق و انصاف کی آواز بلند کرتے ہیں۔ سلمان خان کے کیس میں سلمان کو سزاسنانے والے جج صاحب ایک ایسے ہی انسان تھے جنہوں نے مارکٹ نہیں بلکہ انصاف کی آواز سنائی اور حق کا پرچم بلند کیا۔ اب مارکٹ اور میڈیا سلمان خان کا کتنا ہی شور مچائے لیکن تاریخ اُس جج کو یاد کرے گی جس نے سلمان کو سزا دی تھی۔