ہر شبِ و روز نیا خواب دکھاتے رہیئے

معیشت کا زوال … امیت شاہ کے بیٹے کو فائدہ
مسلمانوں کے قتل پر خاموشی… کارکنوں کی ہلاکت پر بے چینی

رشیدالدین
نریندر مودی حکومت نے ملک میں معاشی انحطاط کو آخر کار تسلیم کرلیا ہے۔ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے نفاذ سے ترقی کی رفتار سست ہوگئی اور عام آدمی کی زندگی دوبھر ہوگئی ۔ حکومت کو اپنی غلطی کا احساس ہونے میں کافی دیر ہوگئی اور معیشت کی ریل کو جو پٹری سے اترچکی ہے ، دوبارہ بحال کرنا آسان نہیں۔ بعض افراد کو تباہی کا احساس اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک اس کے اثرات دکھائی نہ دیں۔ مودی حکومت نے نوٹ بندی کے فیصلہ کی مخالفت کرنے والوں کا مذاق اڑایا۔ انہیں کالا دھن رکھنے والوں اور دہشت گرد تنظیموں کا ہمدرد کہا گیا ۔ نوٹ بندی نے 200 سے زائد افراد کی جان لے لی لیکن وزیراعظم کے ماتھے پر بل نہیں آیا۔ عوام اس مصیبت سے ابھی ابھر نہیں پائے تھے کہ جی ایس ٹی کے نفاذ کے ذریعہ عوام اور تاجروں کو نشانہ بنایا گیا۔ اب تو عالمی بینک نے بھی دونوں فیصلوں کے سبب شرح ترقی میں کمی کو عیاں کردیا ہے۔ معیشت کی دن بہ دن بگڑتی حالت کے بعد نریندر مودی کو حقائق تسلیم کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ تاہم وہ اپنی غلطی تسلیم کرنے تیار نہیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر جی ایس ٹی کا فیصلہ درست تھا تو ٹیکس کی شرح میں کمی کیوں کی گئی۔ یہ فیصلہ خود مودی حکومت کے اعتراف گناہ کا ثبوت ہے۔ جی ایس ٹی کے خلاف اگر عوامی ناراضگی اسی طرح برقرار رہی تو 2019 ء عام انتخابات سے قبل حکومت اور پارٹی کی ساکھ بچانے کیلئے مکمل دستبرداری اختیار کرنی پڑے گی۔ بی جے پی کی پریشانی اس بات پر بھی ہے کہ جی ایس ٹی کے سبب کہیں انتخابات میں الیکشن فنڈ متاثر نہ ہو۔ دولتمند گھرانے اور صنعتی گھرانے اس فیصلہ سے ناراض ہوکر بی جے پی کو روایتی الیکشن فنڈ سے انکار کرسکتے ہے۔ عوام کو گزشتہ ساڑھے تین برسوں میں اچھے دن کا انتظار ہے جس کا وعدہ مودی حکومت نے کیا تھا۔ جس طرح ہر شہری کے اکاؤنٹ میں 15 لاکھ کے وعدہ کو چناوی جملہ کہہ دیا گیا ، ہوسکتا ہے کہ اچھے دن اور سب کے وکاس جیسے نعروںکو بھی چناوی جملہ قرار دیا جائے ۔ حکومت چلانے کیلئے ہر شعبہ کے ماہرین کی ضرورت پڑتی ہے لیکن بقول ارون شوری مرکز میں صرف ڈھائی افراد کی حکومت چل رہی ہے۔

مودی اور امیت شاہ کے علاوہ آدھے حکومت کے وکیل صفائی ارون جیٹلی ہیں۔ شوری نے وزیر فینانس کو ایک ماننے سے اس لئے بھی انکار کردیا کہ ماہر معاشیات کا دعویٰ کرنے والے ارون جیٹلی نے کسی بھی مرحلہ پر مخالف عوام فیصلوں کی مخالفت نہیں کی۔ چونکہ ارون جیٹلی ہمیشہ پارلیمنٹ میں بیٹھ کر بجٹ تقریر پڑھتے ہیں ، شاید اسی لئے ارون شوری نے انہیں آدھا قرار دیا ہے۔ حکومت کو ماہرین کی ضرورت ایسے وقت محسوس ہوئی جب عوامی ناراضگی عروج پر ہے۔ ویسے گزشتہ تین برسوں میں مودی اور امیت شاہ حکومت کیلئے عقل کل بنے ہوئے ہیں۔ ارون شوری نے مودی حکومت کو ’’الہامی‘‘ حکومت کا نام دیا کہ اچانک کوئی قدرتی حکم آئے جس پر مودی عمل کردیں۔ مودی۔امیت شاہ جوڑی جن افراد کے گھیرے میں ہے ، انہیں بھجن منڈلی کہا جائے گا ۔ قومی میڈیا کے زیادہ تر چیانلس اور اخبارات میں مودی کی برتری کو تسلیم کرلیا ہے ۔ روزانہ ٹی وی چیانلس پر مودی کے گن گانے کیلئے اینکرس اور چیانلس مالکین کو منہ مانگا انعام دیا گیا۔ میڈیا جس کا کام عوام کی ترجمانی کرنا ہے ، وہ حکومت کے سرکاری ترجمان بن گئے۔ جیسے جیسے نومبر قریب آرہا ہے ، عوام مختلف اندیشوں کا شکار ہیں کہ پتہ نہیں اس نومبر میں مودی آدھی رات کو اچانک کیا اعلان کردیں۔

نوٹ بندی سے کالا دھن تو بے نقاب نہیں ہوا لیکن بعض ایسے چہرے ضرور منظر عام پر آئے جنہیں اس اسکیم سے فائدہ ہوا۔ یہ اسکیم حکومت سے قربت رکھنے والوں کے لئے بلیک منی کو وائیٹ میں تبدیل کرنے کا ذریعہ ثابت ہوئی ۔ ان چہروں میں تازہ ترین اضافہ امیت شاہ کے بیٹے جئے شاہ ہیں۔ نوٹ بندی کے بعد جئے شاہ کی کمپنی کے ٹرن اوور میں کئی گنا اضافہ ہوا۔ ایک میڈیا ادارہ کے اس انکشاف کے بعد حکومت اور پارٹی جئے شاہ کے بچاؤ میں کود پڑی ہے۔ نیوز پورٹل کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ دائر کیا گیا ۔ مقدمات کے ذریعہ حقائق کے اظہار سے روکنے کی کوششیں سیاستدانوں کی عادت بن چکی ہے۔ مقدمہ سے قبل امیت شاہ اس خبر میں پیش کئے گئے اعداد و شمار سے کیا انکار کرسکتے ہیں ؟ اگر یہ غلط ہے تو تین برسوں میں جئے شاہ کے ادارہ کے کاروبار اور منافع کی تفصیلات عوام میں پیش کی جائے ۔ یہاں تک کہا جارہا ہے کہ نوٹ بندی کے فیصلہ سے حکومت سے قربت رکھنے والوں کو بلیک منی کو وائیٹ میں تبدیل کرنے کا موقع فراہم کیا گیا ۔ نوٹ بندی کے فیصلہ کو ایک سال مکمل ہونے کو ہے لیکن آج تک حکومت قوم کو بتانے کے موقف میں نہیں ہے کہ کتنا کالا دھن منظر عام پر آیا ہے۔ حکومت کیا اس بات سے انکار کرسکتی ہے کہ تین برسوں میں مخصوص صنعتی گھرانوں کو رعایت اور فوائد حاصل ہوئے ہیں۔ کرپشن کے خاتمہ کا عہد کرنے والے نریندر مودی جئے شاہ کے ادارہ کے معاملہ پر خاموش کیوں ہے، انہیں تحقیقات کا اعلان کرتے ہوئے دودھ کا دودھ پانی کا پانی کرنا چاہئے ۔ صورتحال کچھ اس طرح ہوچکی ہے کہ حقائق تسلیم کرنے کے بجائے مقدمات ، حملوں اور دھاوؤں کے ذریعہ زبان بندی کی جارہی ہے ۔ اپوزیشن قائدین اور بعض میڈیا گھرانوں پر سی بی آئی دھاوے کئے گئے ۔ یہ دھاوے تین برسوں میں کبھی نہیں ہوئے، صرف اس وقت کئے گئے ہیں ، جب حکومت کے خلاف لب کشائی کی گئی۔ زعفرانی تنظیموں کے ذریعہ حملوں اور ہراسانی کے کئی واقعات منظر عام پر آئے ہیں۔ ہندوتوا کے خلاف آواز اٹھانے پر حال ہی میں گوری لنکیش کو ہلاک کردیا گیا۔ دو سرکردہ قومی نیوز اینکرس کو دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ بی جے پی کو جان لینا چاہئے کہ ظلم کے ذریعہ کوئی بھی حکومت دیرپا قائم نہیں رہ سکتی۔ بی جے پی 2019 ء میں دوبارہ اقتدار کا خواب دیکھ رہی ہے اور معاشی انحطاط سے خوفزدہ بھی ہے۔ عوامی ناراضگی نے بی جے پی کو ابھی سے انتخابی تیاریوں میں مصروف کردیا ہے۔ گجرات اسمبلی انتخابات کے ذریعہ مودی لوک سبھا چناؤ کی مہم کا ریہرسل کر رہے ہیں۔ عوام کی توجہ معاشی مسائل سے ہٹانے کیلئے پھر مذہبی کارڈ کھیلنے کا منصوبہ ہے ۔ آر ایس ایس سمیت دیگر تمام زعفرانی تنظیموں کو متحرک کردیا گیا جو اپنے اپنے علاقوں میں نفرت کا پرچار کر رہے ہیں ۔ انتخابات سے عین قبل رام مندر مسئلہ کو ہوا دی جائے گی اور تعمیری سرگرمیوں کے آغاز کیلئے اینٹیں جمع کی جارہی ہیں۔ یوگی ادتیہ ناتھ کو ہندوتوا کے چہرہ کے طور پر پیش کیا جارہا ہے ۔ یوگی کی بہتر حکمرانی کا یہ عالم ہے کہ عاشورہ کے دن اترپردیش کے 8 اضلاع میں پرتشدد واقعات پیش آئے ۔ سرکاری خرچ پر ایودھیا میں رام کی بلند قامت مورتی نصب کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ یوگی نے دینی مدارس کو نشانہ پر رکھا ہے ۔ انہوں نے مسلمانوں کے مقدس ایام کی تعطیلات کو منسوخ کردیا ۔ دوسری طرف مرکزی حکومت شریعت میں مداخلت کا کوئی موقع گنوانا نہیں چاہتی۔ تین طلاق اور یکساں سیول کوڈ کے بعد اب نئی حج پالیسی کے ذریعہ مسلمانوں کے درمیان مسلکی اختلافات کو ہوا دینے کی کوشش کی گئی۔

ممبئی ہائیکورٹ نے اظہار خیال کی آزادی سلب کرنے اور مخالفین کو ختم کرنے کے رجحان پر تشویش ظاہر کی ہے ۔ اس خطرناک رجحان سے ملک کی بدنامی ہورہی ہے۔ مہاراشٹرا میں دو سماجی جہد کار ادیبوں کی ہلاکت کے مقدمے کی سماعت کے دوران ججس کا یہ ریمارک حکومت پر کاری ضرب ہے۔ عدالت نے کہا کہ حقیقی قاتل ابھی تک قانون کی گرفت سے باہر ہے۔ عدالت نے کہا کہ مقدمہ کی ہر پیشی کے درمیان ایک قیمتی جان ضائع ہورہی ہے۔ ہائیکورٹ نے دراصل نفرت اور عدم رواداری کے رجحان کی مذمت کرتے ہوئے حکومتوں کے رول پر سوال اٹھائے ہیں۔ عدم رواداری کے واقعات کو روکنے میں حکومت ناکام ہوچکی ہے لیکن عوام کی امیدیں عدلیہ سے وابستہ ہیں۔ ملک میں عدلیہ ابھی بھی آزاد اور غیر جانبدار ہے۔ مرکز میں بی جے پی برسر اقتدار آنے کے بعد مخالف ہندوتوا ادیبوں اور قلم کاروں کو نشانہ بنانے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ اس رجحان کی حوصلہ افزائی کرنے والے عناصر کیرالا میں بائیں بازو حکومت کے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔ کیرالا جہاں بی جے پی نظریات کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ امیت شاہ ، موہن بھاگوت اور یوگی ادتیہ ناتھ کے ذریعہ ماحول کو آلودہ کرنے کی کوششیں جاری ہے۔ دراصل کیرالا کی سرزمین پر بی جے پی کو قدم جمانے کا موقع نہیں ہے ۔ لہذا ایک سازش کے تحت صدر راج نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ آر ایس ایس کارکنوں کے قتل کے نام پر بائیں بازو کے خلاف ملک گیر سطح پر احتجاج کیا گیا ۔ افسوسناک بات تو یہ ہے کہ جن کا دامن خود داغدار ہے ، وہ دوسروں کے داغ تلاش کر رہے ہیں۔ امیت شاہ اور ادتیہ ناتھ کے کردار سے کون واقف نہیں۔ گجرات فسادات کے سلسلہ میں امیت شاہ ابھی بھی مقدمات کا سامنا کررہے ہیں۔ ملک کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں اور دلتوں کو نشانہ بنایا گیا لیکن بی جیپ ی اور سنگھ پریوار نے افسوس کا اظہار تک نہیں کیا لیکن کیرالا میں اپنے چند کارکنوں کی ہلاکت پر تڑپ اٹھے مسلمان اور دلتوں کے خون کی کوئی قیمت نہیں۔ کیا آر ایس ایس ورکرس کا خون خون ہے اور مسلمانوں کا خون پانی ؟ الیکشن کمیشن نے ہماچل پردیش انتخابات کا شیڈول جاری کردیا جبکہ گجرات کی تاریخوں کا اعلان ابھی باقی ہے ۔ شاید الیکشن کمیشن نریندر مودی کو گجرات میں مزید چند جملے بازی کا موقع فراہم کرنا چاہتا ہے۔ دونوں ریاستوں میں وہاں کی برسر اقتدار پارٹی مضبوط ہیں اور ان کے نتائج کو 2019 کا عوامی رجحان کہا نہیں جاسکتا۔ انتخابی پس منظر میں حیدر علوی نے کچھ اس طرح تبصرہ کیا ہے ۔
اک اک گوہر نایاب دکھاتے رہیئے
ہر شبِ و روز نیا خواب دکھاتے رہیئے